ڈیڑھ سال میں صوبائی دارالحکومت کے میڈیا پرسنز سے یہ ان کی دوسری گیٹ ٹو گیدر تھی۔ نومبر2016ء میں پرویزرشید ''ڈان لیکس‘‘ کی بھینٹ چڑھے ‘تو وزارتِ اطلاعات و نشریات کا قلم دان مریم اورنگزیب کے سپرد ہوا۔ لیکن وہ فل منسٹر (وفاقی وزیر) کی بجائے ہاف منسٹر تھیں (سٹیٹ منسٹر‘ اردو میں وزیرمملکت کہہ لیں) ابتدائی کچھ روز تو وزارتِ اطلاعات (اور خود پرائم منسٹر میں پبلک ریلیشننگ) کے ذمہ داران نے انہیں کچھ زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا‘ وہ انہیں محض خانہ پری سمجھتے رہے‘ لیکن مریم کو یہ ذمہ داری سونپی گئی‘ تو وہ کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتی تھیں‘ جس کے لیے بااختیار ہونے کی ضرورت تھی۔ وہ بلاشبہ مریم بی بی کی چہیتی تھیں اور انہوں نے بی بی کی غیرسرکاری ٹیم میں ڈیلیور بھی کیا تھا‘ لیکن وہ ایک مضبوط سیاسی پس منظر بھی رکھتی تھیں۔ ان کی خالہ بیگم نجمہ حمید مسلم لیگ (ن) خواتین ونگ کی سربراہ اور سینٹ کی رکن رہیں۔ والدہ طاہرہ اورنگزیب بھی نون لیگ کی پرانی متوالی تھیں۔ راولپنڈی کی بلدیاتی سیاست کا اہم کردار رہیں۔ مشرف کی ڈکٹیٹرشپ میں پنڈی میں جلاوطن لیڈر سے وفاداری کی سیاست کوئی آسان کام نہ تھا‘ لیکن طاہرہ اس آزمائش میں پورا اتریں۔ 2013ء میں قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے دو نشستیں ایک ہی گھر کے حصے میں آئی۔ ماں اور بیٹی دونوں قومی اسمبلی کی رکن تھیں۔
6 اکتوبر 2016ء کی ڈان لیکس کے سلسلے میں انکوائری بورڈ کی سفارشات تو 29 اپریل 2017ء کو آئی تھیں‘ لیکن وفاقی وزیراطلاعات و نشریات پرویزرشید اس سے بہت پہلے (29 اکتوبر ہی کو) بھینٹ چڑھ گئے۔ بعض ستم ظریف اس کے ڈانڈے ''ایکسٹینشن‘‘ سے بھی ملاتے۔ اگرچہ ریٹائرمنٹ سے کوئی سات ماہ قبل ہی آفیشل ترجمان کی طرف سے اعلان آگیا تھا کہ ایکسٹینشن ملی بھی تو نہیں لیں گے‘ لیکن وسیع تر قومی مفادمیں اس کے لیے پس پردہ کوششیں جاری رہیں۔ 29 نومبر ریٹائرمنٹ کی تاریخ تھی اور بعض بدگمانوں نے 2 نومبر کے اسلام آباد لاک ڈائون کو بھی ایکسٹینشن ہی کا شاخسانہ قرار دے دیا تھا۔ اسی دوران 6 اکتوبر کی ڈان لیکس بھی آگئیں جس پر فطری طور پر ردعمل بہت شدید تھا۔ جوں جوں 29 نومبر قریب آ رہی تھی۔ پانامہ کا ہنگامہ بھی بڑھتا جا رہا تھا‘ کہا جاتا ہے ‘جناب وزیراعظم کے قریب ترین سیاسی رفقاء بھی ''ایکسٹینشن‘‘ کے انہیں ثمرات و برکات کی طرف توجہ دلاتے رہے‘ لیکن ادھر ''ایک ناں تھی سب کے جواب میں‘‘ (نوازشریف نے زرداری‘ گیلانی دور میں جنرل کیانی کی ایکسٹینشن کی بھی مخالفت کی تھی)۔
پرویزرشید کا قصوریہ بتایا گیا کہ سرل المیڈا نے اس خبر کی تصدیق کے لیے ان سے رابطہ کیا تو اگرچہ انہوں نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی‘ لیکن اس کے بعد انہیں یہ خبر رکوانے کی کوشش بھی کرنی چاہئے تھی۔ اپنے لیڈر سے پرویز کی وفاداری‘ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کے بغیر تھی۔ اس خیال سے کہ وزارت سے استعفیٰ حکومت کے لیے ''ریلیف‘‘ کا باعث بن جائے گا‘ اسے اس قربانی پر کوئی ملال نہ تھا۔ عہدِ وفا نبھانے کا وہ عادی مجرم تھا۔ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد بھی اس نے وفاداری بشرطِ استواری کا جو مظاہرہ کیا؟ وہ اپنی مثال آپ تھا۔ بدترین تشدد‘ شرمناک ترین سلوک ‘لیکن وہ بے وفائی پر آمادہ نہ ہوا۔
وزارتِ اطلاعات و نشریات سے پرویزرشید کی سبکدوشی کے بعد یہ ذمہ داری مریم اورنگزیب نے سنبھالی۔ وہ محض سٹیٹ منسٹر نہیں‘ بلکہ ''انچارج‘‘ منسٹر کے طورپر بااختیار بھی تھیں۔ موجودہ حکومت کے آخری ہفتوں میں وہ وفاقی وزیراطلاعات کے طورپر اپ گریڈ ہوگئی ہیں۔ ان کا ڈیڑھ سالہ عرصۂ وزارت کیسا رہا‘ اس دوران کن کن نادیدہ رکاوٹوں کا سامنا ہوا‘ کہاں کہاں لکیر کھینچی گئی‘ یہ الگ موضوع ہوا‘ لیکن اس سے انکار نہیں کہ اس مشکل وقت میں انہوں نے اپنی حکومت کی اور سیاسی قیادت کی ترجمان کا حق بخوبی ادا کیا۔ (ان کے دور میں عطاء الحق قاسمی والا ناخوشگوار اور ناقابلِ رشک واقعہ بھی ہوا۔)
اس ہفتے کے افطار ڈنر میں وہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ گئیں۔ وہ خوش تھیں کہ جمہوریت اپنے دس سال پورے کر رہی ہے‘ لیکن میڈیا پر موجودہ سینسرشپ پر افسوس کے ساتھ اپنی بے بسی کا اظہار بھی کر رہی تھیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بھی اس کا اظہار کر چکی تھیں (اس کے لیے انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے افراسیاب خٹک کے ایک آرٹیکل کا حوالہ بھی دیا) ایک مرحلے پر انہوں نے استعفے کا بھی سوچا‘ لیکن ان کے خیال میں یہ مسئلے کا حل نہیں تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے حالیہ اجلاس میں تاحیات قائد کے بیانیے کا خصوصاً تازہ ڈان لیکس (12 مئی کے انٹرویو) کے حوالے سے بعض ارکان کے اختلاف پر مریم اورنگزیب کا کہنا تھا؛مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ اس اجلاس میں بھی 130‘ 140 ارکان موجود تھے‘ ان میں سے چار‘ پانچ نے اپنی اختلافی رائے کا اظہار کیا تو یہ ان کا حق تھا‘ لیکن اس موقع پر منظور کردہ قرارداد میں میاں صاحب کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اعادہ بھی کیا گیا۔ مسلم لیگی ارکان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی لہر پر ان کا کہنا تھا‘ پارٹیاں نہیں ٹوٹتیں‘ افراد ٹوٹتے ہیں۔ یہ جو میاں صاحب ''خلائی مخلوق‘‘ کا ذکر کرتے رہتے ہیں‘ تو اس سے ان کی کیا مراد ہوتی ہے؟ مریم نے اس کے لیے ماضی کے مخصوص سیاسی منظر پر نظر ڈالنے کے لیے کہا۔ شہبازشریف کے ان ریمارکس پر کہ جس نے یہ انٹرویو کروایا‘ وہ میاں صاحب کا بدترین دشمن ہے‘ مریم کا کہنا تھا کہ میاں صاحب تین دفعہ پرائم منسٹر رہے‘ انہوں نے جو کچھ کہا‘ سوچ سمجھ کر کہا ہوگا۔ ایک سوال پر انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ آئندہ انتخابات بروقت ہوں گے کہ جمہوریت کے تسلسل ہی میں قومی یکجہتی اور قومی سلامتی کا راز پنہاں ہے‘ لیکن کیا یہ انتخابات بروقت ہونے کے ساتھ صاف اور شفاف بھی ہوں گے اور یہ جو موسمی پرندوں کا سفر ہے‘ کیا یہ آزادانہ و جوش دلانہ ہے یا کسی اشارے پر ہے؟ ہم یہ سوال کرنا چاہتے تھے کہ افطار کے وقت کا اعلان ہوگیا۔ مریم نے اپنی گفتگو کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا‘ الیکشن میں بیانیہ ایک ہی ہوگا‘ ووٹ کو عزت دو۔
بھٹو صاحب کے ''نئے پاکستان‘‘ میں کوثر نیازی سے لے کر اب مریم اورنگزیب تک وزارتِ اطلاعات و نشریات کا قلمدان مختلف لوگوں کے ہاتھ میں رہا۔ مریم سے پہلے بیگم عابدہ حسین بھی خاتون وزیراطلاعات رہیں۔ بھٹو صاحب کے پہلے وزیر اطلاعات کوثر نیازی سے جس کا بھی واسطہ پڑا‘ اس نے تعریف کی۔ ایک انٹرویو میں شامی صاحب کا کہنا تھا‘ کوثر نیازی ہر چیز پڑھتے تھے‘ انہیں ہر چیز معلوم ہوتی تھی۔ ایک دفعہ میں ان سے ملنے گیا تو انہوں نے اپنے کمرے میں ٹرانسسٹر کو بلند آواز میں چلا دیا۔ تب ان سے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ ٹرانسسٹر لگا دیا جائے تو آواز ٹھیک طرح سے ٹیپ نہیں ہو پاتی۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ وہ بجائے خود کس طرح کی صورت حال میں رہتے تھے۔ فرزندِ لال حویلی شیخ رشید‘ مشرف کے وزیراطلاعات و نشریات بھی رہے۔ اس حوالے سے شامی صاحب کے بقول‘ ایک دفعہ ہم (مختلف اخبارات کے ایڈیٹر) انہیں ملنے کے لیے گئے تو انہوں نے فرمایا‘ دیکھیں اس حمام میں‘ میں بھی ننگا ہوں‘ آپ بھی ننگے ہیں۔ اس پر لوگ بڑے گرم ہوئے۔ ان کے ساتھ کوئی سنجیدہ مکالمہ نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی بات سنانے کے عادی ہیں‘ دوسرے کی بات سننے کے نہیں۔