اور اب حکومت سازی کا مر حلہ ہے۔ وفاق اور پنجاب میں بھی خان کی حکومت کے لیے نمبر گیم مکمل ہو چکی۔25جولائی کی پولنگ سے قبل اور اس کے بعد کی 'حکمت عملی‘ کے باوجودخان‘ وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکا تھا۔کہا جاتا ہے‘ منصوبہ سازوں کا منصوبہ بھی یہی تھا۔ وہ شریف Dynastyکا خاتمہ تو چاہتے تھے‘ لیکن اس کے جانشین کو بھی اتنا طاقتور نہیں دیکھنا چاہتے تھے کہ پرائم منسٹر بننے کے بعد 'بالادستی‘ کا 'وسوسہ‘ اس کے ذہن میں کلبلانے لگے۔ نواز شریف پر ناقدین کا ایک الزام یہ بھی تھا کہ وزارتِ عظمیٰ کے تینوں ادوار میں اس کی ' کسی ‘سے نہیں بنی‘جس کے جواب میں کہا جاتا کہ جونیجو اور جمالی جیسے بھی تو زیادہ دیر تک گوارا نہ کیے گئے؛ حالانکہ جونیجو صاحب کو اپوزیشن کی طرف سے مسکین وزیر اعظم کا طعنہ تک سننا پڑتا ۔ ہمارے لیاقت بلوچ اُس اسمبلی کے رکن تھے‘ وہ جونیجو کا مطلب 'جو نہ جانے‘بیان کیا کرتے تھے ۔ ظفر اللہ جمالی کو تو مشرف کو اپنا باس کہنے میں بھی کوئی عار نہ ہوتی۔جمالی صاحب کو وزیر اعظم منتخب کراتے ہوئے جو احتیاط روار رکھی گئی‘ اعزاز سید کو یاد ہے‘ اس روز ایوان سے ملحقہ ایک گیلری میں راولپنڈی میں تعینات ایک سینئر پولیس افسراسرار احمد ایک خفیہ ادارے کے طاقتور افسر کے ساتھ موجود تھے (اسرار احمد ریٹائرمنٹ کے بعد ان دنوں لاہورمیں علالت کی زندگی گزار رہے ہیں) پیپلز پارٹی میں نقب لگا کر تخلیق کیے گئے پیٹریاٹ گروپ اور قاف لیگ کے ارکان اسمبلی یہاں آتے اور مذکورہ افسر سے پوچھتے کہ انہیں کس گیلری میں جانا ہے(وزارتِ عظمیٰ کے امیدواروںکے لیے گیلریاںمخصوص تھیں) حالانکہ 'کنگز پارٹی‘ کے ارکان پر یہ بات واضح تھی کہ میر ظفر اللہ جمالی کو ووٹ دینے ہیں‘ مگر آخری وقت پر بھی انہیں اس طاقتور افسر سے ہدایت لینے کا کہا گیا تھا۔ ارکان آتے ‘ انہیں جمالی صاحب کو ووٹ دینے کے لیے کہا جاتا اور وہ متعلقہ گیلری کا رخ کرتے۔ ارکان کا آخری گروپ آیا‘ تو افسر موصوف نے ایک رکن کو ہدایت کی کہ وہ جمالی کو ووٹ دینے والی گیلری میں جائے اور باقی تین ‘ چار کو ہدایت کی گئی کہ وہ جمالی کی مخالف گیلری میں جائیں ۔ پولیس افسراسرار احمد کے لیے ' یہ معمہ سمجھنے کا تھانہ سمجھانے کا‘ تھا ۔ انہوں نے افسر موصوف سے اس حکمت عملی کے متعلق جاننا چاہا‘ جس کے نتیجے میں جمالی صاحب صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم بن رہے تھے۔ ''ہم نے یہ اس لیے کیاکہ جمالی کو یاد رہے کہ اصل میں وزیر اعظم وہ نہیں‘ اور یہ کہ ہم اسے کسی بھی وقت اتار سکتے ہیں ‘۔افسر موصوف کو راز کی بات کہنے میں کوئی تکلف نہ تھا ۔
ادھر 25جولائی کے انتخابی نتائج پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 'پری پول‘ کے حوالے سے تو پہلے ہی بہت کچھ کہا جارہا تھا‘ نظر بھی آرہا تھا۔ اب 'پوسٹ پول‘ کے حوالے سے قصے کہانیاں ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے 19دسمبر 1984ء کے ریفرنڈم کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہا سنا گیا۔ حبیب جالبؔ مرحوم نے استاد غالبؔ کی زمین میں طبع آزمائی کی۔
شہر میں ہُو کا عالم تھا
جِن تھا یا ریفرنڈم تھا
جناب عبد القادر حسن نے لکھا : ریفرنڈم صبح کے وقت منصفانہ اور اس کے بعد شام تک 'آزادانہ ‘ تھا ۔ ریفرنڈم کے بعد سینئر صحافیوں سے ملاقات میں عبدالقادر حسن بھی موجود تھے ‘ جنرل ضیاء الحق نے پرُ جوش مصافحہ کرتے ہوئے کہا:وہ فقرہ خوب تھا ‘ میں نے بہت Enjoyکیا ۔ڈکٹیٹر مشرف نے بھی اکتوبر 2002 ء کے عام انتخابات سے قبل‘ ریفرنڈم کے ذریعے اپنی پانچ سالہ صدارت پکی کر لی تھی۔ ضیاء الحق کا ریفرنڈم صبح کے وقت تک تو منصفانہ تھا ‘ مشرف کا ریفر نڈم پہلے ہی لمحے سو فیصد 'آزادانہ ‘ ہو گیا تھا۔ ہم ان دنوں جدہ میں ہوتے تھے‘ یہاں ایک پولنگ سٹیشن العز یزیہ کے پاکستان سکول میں بھی تھا‘ ہم بھی (ووٹ ڈالنے نہیں ) صحافی کے طور پر تماشا دیکھنے گئے‘ ہمارے رفیق کار خالد منہاس بھی ہمراہ تھے۔ کوئی تیس منٹ میں انہوں نے 14بار اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔اس شب ڈکٹیٹر کو بھی یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہ تھی کہ شاہ کے و فاداروں نے کچھ زیادہ ہی کارروائی ڈال دی تھی ۔
25جولائی کے بعدکپتان وفاق میں اور پنجاب میں بھی سادہ اکثریت سے کافی فاصلے پرتھا اور اب خوداسے بھی کچھ کر کے دکھاناتھا۔ اس کے لیے 'ترین شٹل سروس ‘ حرکت میں آئی اور صبح و شام ایک کر دیا ۔ پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو کاسوال تھا: ایک نااہل شخص یہ کیا کر رہاہے؟ظاہر ہے‘ ان کا اشارہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی طرف تھا‘ جس میں جہانگیر ترین کو لندن والے اثاثے چھپانے کے جرم میں غیر صادق اور غیر امین قرار دیا گیا تھا اور نواز شریف کی طرح وہ بھی تاحیات نااہل قرار پائے تھے۔ عمران خان کے خلاف کیس کا فیصلہ بھی اسی روز آیا جس میں خان کو صادق اور امین قرار دیا گیا تھا۔اس پر ایک انگریزی اخبار نے ''The Balancing Act‘‘کی ہیڈ لائن لگائی تھی۔ الیکشن سے ایک دن پہلے خان نے کہا تھا :سادہ اکثریت حاصل نہ ہوئی تو اپوزیشن میں بیٹھوں گا‘ نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے ساتھ کولیشن کے 'گناہ‘ کا تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے‘ مگرگجرات کے چودھریوںکے ساتھ الیکشن سے پہلے ہی خان نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی تھی۔ 2002ء کے الیکشن کے بعد قرضوں کی معافی سمیت کرپشن کا کون سا الزام تھا‘ جو خان ان پر نہیں لگاتا رہا تھا اور اب الیکشن کے بعد اسے ایم کیو ایم کو حکومت میں حصہ دینے میں بھی کوئی تامل نہیں۔
کراچی (اورحیدر آباد)کے شہریوں کو جس کی بھتہ خوری ‘ ٹارگت کلنگ اور بوری بند لاشوں کی سیاست سے نجات دلانے کے لیے وہ میدان میں اترا تھا۔اس سے قبل 'کرپٹ جماعتوں‘ سے آنے والے الیکٹ ایبلز کو گلے لگانے کی کہانی الگ ہے ۔یہ الگ بات کہ اپنی اپنی پارٹیوں کے ان بے وفاؤں کو یہاں آکر بھی کچھ نہ ملا۔ مسلم لیگی بے وفاؤںاور فردوس عاشق اعوان اور منظور وٹو جیسے ازلی و ابدی موقع پرستوں کی بات الگ ‘ہمیں تو افسوس ندیم افضل چن اور ہمارے گرائیں شوکت بسراجیسوں کا ہے اور سیالکوٹ کا وہ غلام عباس بھی جو 1970ء کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی میں لیفٹ کی سٹوڈنٹس پالیٹکس کی جرأت مند علامت تھا‘ عملی سیاست کے لیے بھی بھٹو کی پیپلز پارٹی ہی فطری طور پر اس کا انتخاب تھی‘ جس کے لیے اس نے کوڑے بھی کھائے ‘قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور اب عمر کے اس حصے میں اسے چھوڑ گیا ۔ مصطفی زیدیؔ یادآئے۔
وفا کا نام بھی زندہ ہے‘ میں بھی زندہ ہوں
تو اپنا حال سنا مجھ کو بے وفا میرے
علامہ خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک پاکستان کو وجود میں آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے ‘ مگر 25جولائی کے الیکشن میں اس نے ملک بھر میں بیس لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے ہیں اور سندھ اسمبلی میں دو نشستوں کے ساتھ یہ وہاں کی پارلیمانی جماعت بن گئی ہے۔ حساب کتاب کے ماہرین کے مطابق ملک بھر میں قومی اسمبلی میں 13نشستیں تھیں‘ جہاں تحریک لبیک ‘ مسلم لیگ ن کی ناکامی کا سبب بنی۔ نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ یہی معاملہ 1993ء کے انتخابات میں بھی ہوا تھا‘ تب قاضی صاحب مرحوم کا پاکستان اسلامک فرنٹ اس کے لیے بروئے کار آیا۔ نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی تھی تو اب پرائم منسٹر ہاؤس میں اس کی واپسی کسی کو کیوں کر گوارا ہوتی۔ بے نظیر کی پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ سے 3لاکھ کم ووٹ حاصل کے تھے ‘ لیکن قومی اسمبلی میں اسے 16نشستوں کی برتری حاصل ہو گئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے 89اور مسلم لیگ نے73پر کامیابی حاصل کی ۔ پروفیسر غفور احمد کو اپنی کتاب میں اس اعتراف میں کوئی عذر نہ تھا کہ اسلامک فرنٹ کا اصل فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا‘ پنجاب میں 10نشستیں ایسی تھی‘ جہاں مسلم لیگ اور فرنٹ میں ووٹوں کی تقسیم پیپلز پارٹی کی کامیا بی کا باعث بن گئی‘ورنہ مسلم لیگ کی تعداد 83اور پیپلز پارٹی کی 79ہوتی۔ صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا)میں قومی اسمبلی کی 5نشستیں ایسی تھیں‘ جو عوامی نیشنل پارٹی اور اسلامک فرنٹ میں ووٹوں کی تقسیم کے نتیجے پیپلز پارٹی نے جیت لی تھیں۔1993ء کا وہی تجربہ اب 2018ء میں بھی کام آیا؟