ہفتے کی سہ پہر ماڈل ٹائون لاہور میں جناب شہباز شریف کی گفتگو بھی اہم تھی لیکن ہمارے خیال میں اس سے زیادہ اہم کئی دنوں کے بعد ان کا منظر عام پر آنا تھا۔ 18 اگست کو وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد سے وہ مسلسل غائب تھے۔ (6 ستمبر کی شب جی ایچ کیو کی تقریب میں ان کی جھلک نظر آئی تھی) وہ قومی اسمبلی میں بھاری بھرکم حزب اختلاف کے قائد ہیں (پیپلز پارٹی کے ووٹوں کے بغیر بھی انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب میں 96 ووٹ حاصل کئے تھے۔ ایوان کے باہر بھی ان کی مسلم لیگ ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے دوسری بڑی جماعت ہے۔ 25 جولائی کی پولنگ سے پہلے اور بعد کی تمام تر مشکلات اور مبینہ ''اقدامات‘‘ کے باوجود ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ووٹ حاصل کر لینا کوئی معمولی بات نہ تھی) 8 اگست کو الیکشن کمیشن (اسلام آباد) کے باہر اپوزیشن جماعتوں کے احتجاجی مظاہرے میں ان کی عدم شرکت بھی تبصروں کا موضوع بنی۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت روزِ اوّل ہی سے کوئی نیا گُل کھلا رہی تھی اور یوں حزب اختلاف کے لیے اپنے وجود کا احساس دلانے کے نادر مواقع مہیا ہو رہے تھے۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) (زیادہ صحیح الفاظ میں نواز شریف کے بیانیے) سے ہمدردی رکھنے والی ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر کے کالم کا عنوان تھا ''مسلم لیگ کہاں ہے؟‘‘ اس پر ہمارے ایک دوست کا تبصرہ تھا: مسلم لیگ تو موجود ہے، اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ اس کی قیادت کہاں ہے؟ مسلم لیگ کی ایک جھلک (اور بڑی بھرپور جھلک) ہر جمعرات کو اڈیالہ جیل کے باہر بھی نظر آتی ہے۔ برادرم خورشید ندیم نے 8 ستمبر کے کالم میں اس کی بھرپور منظر کشی کی۔ (اس جمعرات کے ملاقاتیوں میں شامی صاحب کے ساتھ اجمل جامی اور عثمان شامی بھی تھے۔ وہ اپنے ساتھ حضرت علی ہجویری ؒ کی ''کشف المحبوب‘‘ ، سیرت طیبہ پر افضال بیلا کی ''آقاؐ‘‘ اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے دس سالہ اقتدار پر ان کے سیکرٹری الطاف گوہر کی تصنیف بھی لے گئے تھے۔ جاوید ہاشمی بھی ہفتے، دو ہفتے میں ملاقات کی کوئی سبیل نکال لیتے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے حوالے سے گزشتہ روز کہہ رہے تھے: ''کسی نے اپنا حوصلہ بڑھانا ہو تو ایک مرتبہ نواز شریف اور مریم سے جیل میں ملاقات کر لے، حوصلے خود بخود بلند ہو جائیں گے‘‘۔
بعض ستم ظریفوں نے سوشل میڈیا پر ''تلاشِ گمشدہ‘‘ کا اشتہار بھی دے دیا تھا۔ ایسے میں شہباز صاحب کی 8 ستمبر کی پریس کانفرنس کو ان کی ''بازیابی‘‘ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا میڈیا سے مطالبہ تھا کہ وہ انہیں 100 دن دے دے‘ اس کے بعد تنقید کرے۔ قائد حزب اختلاف اس دوران رضا کارانہ زبان بندی کا فیصلہ کر چکے تھے۔ لیکن ان کے بقول حکومت کے پے در پے عوام دشمن اقدامات نے انہیں چپ کا روزہ توڑنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور کھاد پر سبسڈی ختم کرنے کی خبروں کا ذکر کیا۔ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے وزیر اعظم (اور جناب چیف جسٹس) کی چندہ مہم کے حوالے سے انہوں نے یاد دلایا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اس کے لیے 120 ارب روپے کی لاگت سے زمین کی خریداری اور فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری کا کام مکمل ہو چکا تھا۔ انہوں نے امورِ خارجہ کے حوالے سے ایک اہم بات کی نشاندہی بھی کی۔ وہ خوش تھے کہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے وزیر اطلاعات تشریف لائے، تو ان کے خیر مقدم کے لیے ایئر پورٹ پر ان کے ہم منصب (ہمارے وزیر اطلاعات) موجود تھے۔ ہمارے ایک اور دوست، چین کے وزیر خارجہ کا خیر مقدم بھی ان کے پاکستانی ہم منصب کو کرنا چاہیے تھا، اس کے لیے فارن آفس کے ایک عہدیدار کو بھیج دیا گیا (امریکی وزیر خارجہ پومپیو کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا تھا) ایک اہم بات قائد حزب اختلاف کا یہ اعلان تھا کہ دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے ایوان میں موجود تمام جماعتوں کی نمائندگی کے ساتھ پارلیمانی کمشن نہ بنایا گیا تو ''ہم کوئی کارروائی نہیں چلنے دیں گے اور بہر صورت کمیشن بنوا کر رہیں گے‘‘ ان کا دعویٰ تھا کہ وزارتِ عظمیٰ کے الیکشن کے موقع پر خود عمران خان نے ان سے اس حوالے سے غیر مشروط وعدہ کیا تھا‘ لیکن تین ہفتے گزر جانے کے باوجود اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ خان کے U Turnsمیں ایک اور اضافہ نہیں ہو گا۔ جاوید ہاشمی کے بقول، ان بیس دنوں میں عمران خان کی حکومت چالیس، U Turns لے چکی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے گیس، بجلی اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے کی تردید کی؛ تاہم ان کا یہ دعویٰ دلچسپ تھا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو سزا اور باپ بیٹی کو اڈیالہ جیل بھیجنے کا فیصلہ خود مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران ہوا۔ میاں صاحب اور مریم کو سزا اس سال 6 جولائی کو ہوئی اور 13 جولائی کو لندن سے واپسی پر اڈیالہ جیل پہنچا دیئے گئے۔ ہمارے وزیر اطلاعات و نشریات کا حافظہ اتنا کمزور تو نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بھی یاد نہ ہو کہ تب وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں تھیں (ان کی مختاری یا مجبوری کی بات الگ ہے) ۔
راولپنڈی کے جناب سعود ساحر، ''ورکنگ جرنلسٹوں‘‘ میں شاید بزرگ ترین ہیں... 1958ء میں پنڈی کے (اس دور کے) ایک بڑے اخبار میں پروف ریڈنگ سے آغاز کیا۔ وہ سہارنپور کے مہاجر تھے، بے سروسامانی کے ماہ و سال میں پورے خاندان کی کفالت بڑے بھائی کے ذمے تھی (بعد میں حکیم سروسہارنپوری کے نام سے ملک گیر شہرت پائی) سعود کچھ لکھ پڑھ چکے تو بڑے بھائی کا بوجھ بٹانے کا فیصلہ کیا۔ ایڈیٹر صاحب کی مردم شناسی نے سعود کی اصل صلاحیتوں کا اندازہ لگا کر رپورٹنگ میں بھیج دیا اور انہیں ایک عشرے سے زائد نوائے وقت میں (پہلے جناب حمید نظامی اور پھر مجید نظامی صاحب کی زیر ادارت) اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں، صحافت میں آزاد روی کوئی آسان کام نہ تھا۔ بھٹو دور میں تو آزاد صحافت، جس کو ہو جان و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں؟ والا معاملہ ہو گیا تھا۔ سعود ساحر اب جناب صلاح الدین (شہید) الطاف حسن قریشی اور شامی صاحب کے قافلۂ سخت جان کا حصہ تھے۔ گزشتہ دنوں ہفتے بھر کے لیے لاہور آئے، تو مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ نے ان کے ساتھ ایک شام کا اہتما م کیا۔ حاضرین میں بڑی تعداد نوجوان صحافیوں کی تھی۔ٹرسٹ کے چیئرمین خالد محمود نے، معزز مہمان کا خیر مقدم کیا۔ ریٹائر بیوروکریٹ (جنہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی چیئرمین سمیت مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دیں) قلم و قرطاس سے بھی رسم و راہ رکھتے ہیں۔ ''دنیا‘‘ کے ادارتی صفحے پر بھی ان کے کالم شائع ہوتے رہے۔ شامی صاحب اور سجاد میر نے بھٹو دور میں صحافت اور سیاست پر کڑی آزمائشوں کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا: سعود ساحر اس دور کی صحافتی معرکہ آرائیوں کا اہم کردار تھے۔ ان کے قلم سے اُس دور کی حکایاتِ خونچکاں، پاکستان کی سیاسی و صحافتی تاریخ کا اہم باب ہیں، نوجوان صحافیوں کو جن کا بطور خاص مطالعہ کرنا چاہیے۔
1977ء کے انتخابات کی بد ترین دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر تحریک زور پکڑنے لگی تو چیف الیکشن کمشنر، جسٹس سجاد احمد جان (بیرسٹر وسیم سجاد کے والد مرحوم) نے ایک پریس کانفرنس میں کہا: کسی نے دھاندلی کی تحریری شکایت ہی نہیں کی۔ سعود ساحر نے وہیں اپنے حلقے میں ہونے والی دھونس دھاندلی کی رپورٹ لکھ کر پیش کر دی اور کہا: اسے میری طرف سے تحریری شکایت سمجھ لیں اور کارروائی کا آغاز کریں۔ سعود کی یہ گستاخی، وہاں موجود ایک وفاقی سیکرٹری کے لیے ناقابل برداشت تھی، فرمایا، ہم ٹرک کے نیچے مروا دیتے ہیں اور قاتل کا پتہ بھی نہیں چلتا۔
5 جولائی کے بعد جنرل ضیاء الحق کی پہلی پریس کانفرنس تھی۔ بھٹو دور کی بیوروکریسی کے اہم کل پرزے بھی دائیں بائیں موجود تھے... جنرل صاحب اپنے نیک عزائم کا اظہار کر چکے تو سعود ساحر کھڑے ہوئے، جناب! کیا آپ ان دعووں اور وعدوں میں واقعی سنجیدہ ہیں؟ اگر سنجیدہ ہیں تو کیا یہ کارِ خیر ان جیسوں کے ہاتھوں انجام پائے گا‘ جو ہمیں ٹرک تلے مروانے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے؟ اب ماحول میں سناٹے کا راج تھا۔ پریس کانفرنس اختتام کو پہنچی... چائے کی میز پر سعود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنرل صاحب جناب شامی سے مخاطب ہوئے: یہ آپ نے کن پاگلوں کو رکھا ہوا ہے؟ شامی صاحب کا جواب تھا: جناب! بھٹو کے ساتھ ان پاگلوں کے ذریعے ہی لڑا جا سکتا تھا۔ یہ کسی عقل مند کا کام تھوڑی تھا۔