نومبر2007 کے تیسرے ہفتے جلا وطن لیڈر وطن واپسی کے لیے دوبارہ رختِ سفر باندھ رہا تھا۔ 9 ہفتے پہلے بھی (10 ستمبر 2007 کو) وہ لندن سے اسلام آباد پہنچا تھا کہ ایئر پورٹ سے ہی واپس (جدہ) بھجوا دیا گیا۔ 18 اکتوبر کو بے نظیر بھٹو (نو سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے) وطن واپس آ گئی تھیں۔ اس سے پہلے5 اکتوبر کو ڈکٹیٹر کے ساتھ ان کا ''این آر او‘‘ ہو چکا تھا، لیکن ان کی وطن واپسی اس سے ماورا تھی۔ این آر او کے تحت مقدمات تو ختم ہو گئے تھے لیکن غیر تحریری معاہدے کے تحت ان کی وطن واپسی الیکشن کے بعد ہونا تھی‘ جس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محترمہ 18 اکتوبر کی شب کراچی پہنچ گئیں۔ (اس شب ان کے استقبالی ہجوم میں تقریباً 200 افراد دہشت گردی کی نذر ہو گئے تھے) خادمِ حرمین شریفین پہلے ہی پرویز مشرف پر واضح کر چکے تھے کہ بینظیر کی وطن واپسی کی صورت میں وہ نواز شریف کو بھی واپسی سے نہیں روکیں گے۔ اس کے باوجود پرویز مشرف آخری کوشش کے طور پر ریاض پہنچے لیکن نواز شریف کی واپسی رکوانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ انہی دنوں کی کہانی ہے:
صدر مشرف کے دورۂ سعودی عرب کی خبر کے ساتھ ہی افواہوں اور قیاس آرائیوں کا طوفان سا اٹھ کھڑا ہوا۔ ٹیلیفون کالوں کا تانتا بندھ گیا تھا کہ کیا صدر کی میاں صاحب سے ملاقات ہو رہی ہے؟ میڈیا کے ایک حصے میں ''با وثوق ذرائع‘‘ سے اس نوع کی خبریں بھی شائع ہو رہی تھیں۔ اس سے چند روز قبل بھی صدر صاحب کے اچانک دورۂ سعودی عرب کی اطلاع آئی تو اس سرپرائز وزٹ کے ایجنڈے میں اصل نکتہ نواز شریف سے ملاقات بتایا جا رہا تھا۔
ادھر 14 نومبر کو ایک نیوز ایجنسی نے واشنگٹن سے خبر دی، جس میں امریکی حکام کی طرف سے پاکستان کے لئے نیا سیاسی فارمولا ترتیب دینے کا اشارہ تھا ''تاکہ صدر مشرف اور پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اکٹھے مل کر کام کرنے کے قابل ہو سکیں‘‘۔ یہ اشارہ وائٹ ہائوس کی ترجمان کی پریس بریفنگ میں بھی موجود تھا جو اس رپورٹ کے بعد دیا گیا تھا کہ حکومت پاکستان نے نواز شریف سے رابطہ کیا ہے تاکہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے۔ خبر کے مطابق حکومت پاکستان نے یہ قدم بے نظیر بھٹو کی طرف سے صدر مشرف کے دونوں عہدوں سے استعفے کے مطالبے کے بعد اٹھایا تھا‘ جس کا مطلب تھا کہ محترمہ کے ساتھ ڈیل اختتام کو پہنچی۔ اب وہ بے وردی مشرف کے ساتھ بھی اشتراکِ اقتدار پر تیار نہیں تھیں۔
ہم نے سرور پیلس پہنچ کر اس خبر پر میاں صاحب کا ردِ عمل جاننا چاہا تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ''تو کیا اب حکومت مجھے محترمہ کا متبادل سمجھ رہی ہے؟ انہوں نے تو اب دونوں عہدوں سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے میں تو روز اوّل سے یہ مطالبہ کر رہا ہوں۔ میری پارٹی کا یہ دیرینہ مؤقف بھی سب کو معلوم ہے کہ وردی کے ساتھ، نہ وردی کے بغیر‘‘۔
ان کا کہنا تھا: 10 ستمبر کے بعد مجھے 3 بار مشرف صاحب سے ملاقات کی پیش کش ہوئی۔ اس کے لئے وہ خود یہاں آنے کو تیار تھے، لیکن میں نے معذرت کر لی کہ میرا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں جس پر بات ہو۔ میرا سیاسی ایجنڈا ساری دنیا کو معلوم ہے۔ (پہلی پیش کش بے نظیر صاحبہ کی پاکستان روانگی سے قبل ہوئی تھی۔ یہ ''سہ فریقی ملاقات‘‘ کی پیش کش تھی جس میں محترمہ بھی شریک ہوتیں)۔ ہم میں کوئی ایک قدر بھی مشترک نہیں، ہم جمہوریت کی بحالی کی بات کرتے ہیں، جبکہ ان کا ایجنڈا اپنے اقتدار کا دوام ہے۔ اس کے لئے انہیں آئین کی حرمت کا بھی خیال نہیں۔ وہ بات ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی بات کرتے ہیں جبکہ 12 اکتوبر1999ء کا اقدام بھی صرف اور صرف ان کی اپنی ذات کے لئے تھا اور اب 3 نومبر کو ایک بار پھر ماورائے آئین کارروائی، ایمرجنسی کا اعلان اور پی سی او کا نفاذ، بھی محض ان کی ذات کے لئے تھا۔
کہتے ہیں، سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی لیکن نواز شریف صاحب کا کہنا تھا کہ کچھ تو ''حرفِ آخر‘‘ ہونا چاہیے۔ پرویز مشرف سے مفاہمت کرنا ہوتی تو 12 اکتوبر کی نصف شب کر لیتا، جب میں زیر حراست تھا اور جنرل محمود 2 دیگر جرنیلوں کے ہمراہ ''مفاہمت‘‘ کا پیام لے کر آئے تھے‘‘۔
''لیکن جلا وطنی کا معاملہ‘‘؟
''اس میں بھی جو کچھ کیا، ہمارے دوستوں نے کیا۔ میری جو بھی بات تھی، اپنے دوستوں کے ساتھ تھی۔ مشرف کے ساتھ میری کوئی مفاہمت ہوئی، نہ میں نے انہیں کوئی یقین دہانی کرائی۔ جدہ میں قیام کے دوران (اکتوبر 2002ء کے انتخابات سے قبل) ''مفاہمت‘‘ کی ایک اور پیش کش آئی، میں نے پھر معذرت کر لی... (یہ پیشکش لاہور کے ایک بزرگ ایڈیٹر کے ذریعے ہوئی)۔10 ستمبر کو وطن واپسی سے پہلے تک مختلف پیش کشیں آتی رہیں اور 10 ستمبر کے بعد بھی... ون ٹو ون ملاقات کی3 بار دعوت، تاکہ ''مفاہمت کی کوئی راہ‘‘ نکلے لیکن میرا مؤقف وہی تھا‘‘...
''امریکیوں نے بھی کبھی آپ سے بھی رابطہ کیا‘‘؟
وہ لندن میں بھی مجھے ملنے آئے تھے (یہ خبر شائع بھی ہوئی) میرا جواب تھا، مجھے آپ سے اس کے سوا کچھ نہیں کہنا، کہ ہمارے عوام کی خواہشات کا احترام کریں‘‘۔
تب میاں صاحب کی بات کا امریکیوں نے کتنا اثر لیا، یہ تو معلوم نہیں لیکن اب امریکیوں کی آنکھیں کھل رہی تھیں۔ امریکی ترجمان صدر مشرف سے اظہار وابستگی کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام سے یکجہتی کی بات بھی کرنے لگے تھے... امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین اور آئندہ صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے امیدوار جوزف ہیڈن نے تو پاکستانی عوام کے اضطراب کی بات کرتے ہوئے خمینی جیسے انقلاب کے خدشے کا اظہار بھی کر دیا تھا۔
صدر مشرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کے باعث امریکہ اور برطانیہ کی آنکھوں کا تارا تھے۔ امریکی اور مغربی میڈیا بھی ان کی بلائیں لیتا اور اب طوطا چشمی کا یہ عالم تھا کہ واشنگٹن پوسٹ نے اداریہ لکھ دیا ''The General must Go‘‘ میاں صاحب سے امریکیوں کے رابطے کی بات ہوئی تو ہم نے پاکستان میں امریکی سفیر کے ایک حالیہ بیان کا ذکر کیا ''ہم بے نظیر کو خوب جانتے ہیں جبکہ نواز شریف سے ہماری جان پہچان واجبی سی ہے‘‘۔
''حیرت ہے امریکی اس شخص کو نہیں جانتے جس نے ان کے صدر کی 5 ٹیلی فون کالوں کے باوجود ایٹمی دھماکے کر دیئے تھے‘‘۔
بات دوبارہ صدر مشرف سے مفاہمت (؟) کی طرف مڑ گئی۔ نواز شریف صاحب کا کہنا تھا: آپ کو یاد ہو گا، کچھ عرصہ قبل میں اس کے لئے عصر کے وقت روزہ توڑنے کی مثال دیتا تھا۔ اور اب تو غروب کا وقت ہے‘‘۔
ڈکٹیٹر نے ایک بار نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق سوال پر کہا تھا: ''میری موجودگی میں وہ واپس نہیں آ سکتا، وہ آئے گا تو میں نہیں ہوں گا‘‘۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وہ اس کی موجودگی میں نہ صرف واپس آیا، بلکہ بعد میں تیسری بار وزیر اعظم بھی بن گیا۔ تب ڈکٹیٹر ملک میں نہیں تھا۔ اب نواز شریف اگرچہ زیر عتاب ہیں، لیکن اپنے وطن میں تو ہیں لیکن ڈکٹیٹر عدالت عظمیٰ کی بار بار طلبی (اور تحفظ کی ہر طرح کی یقین دہانی) کے باوجود واپسی کی ہمت نہیں کر پا رہا۔