"RTC" (space) message & send to 7575

پشاور سے پونچھ تک

اس اتوار کو ضمنی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک اور صدمہ لایا۔ اپنے ''ہوم پراونس‘‘ کے دارالحکومت میں وہ اپنے گورنر کی جیتی ہوئی صوبائی سیٹ ہار گئی۔ یہاں گورنر شاہ فرمان کے بھائی ذوالفقار خان امیدوار تھے‘ جنہیں عوامی نیشنل پارٹی کے صلاح الدین خان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ صوبائی دارالحکومت میں ایک اور صوبائی سیٹ، ضمنی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اے این پی ہی کی محترمہ ثمر ہارون بلور نے جیت لی تھی۔ ثمر کا گھرانہ 2 شہادتوں کا امین ہے۔ 2013ء کے الیکشن سے قبل ان کے سسر بشیر بلور (تب کے پی کے حکومت میں سینئر منسٹر) دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ اب 2018ء کی الیکشن مہم میں ان کے شوہر ہارون بلور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے تھے (بلور خاندان کا ایک اور فرزند بھی انتخابی سیاست کی نذر ہوا۔ یہ حاجی غلام احمد بلور کا بیٹا تھا‘ جو 1997ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ساتھ تصادم میں گولیوں کا نشانہ بنا) دہشت گردی کی جنگ میں خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ اے این پی والے دہشت گردوں کا ہدف رہے۔ میاں افتخار حسین کا اکلوتا بیٹا بھی انہی میں ایک تھا، لیکن اپنی زندگی کے سب سے بڑے صدمے کے ساتھ بھی دہشت گردوں کے خلاف میاں افتخار حسین کے عزم اور جذبوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اے این پی نے 2008ء کے انتخابات کے بعد صوبے میں حکومت بنائی، پیپلز پارٹی کولیشن پارٹنر تھی۔ ان پانچ برسوں میں اس کی حکومتی کارکردگی (خصوصاً تعلیمی شعبے میں خدمات) پر کرپشن کے پروپیگنڈے کا گردوغبار چھا گیا۔ ادھر دہشت گردوں کا اعلان تھا کہ وہ اے این پی (اور پیپلز پارٹی) کی الیکشن کمپین کو نشانہ بنائیں گے‘ جس کا اصل فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچا اور وہ سنگل لارجسٹ کے طور پر ابھر آئی، لیکن حکومت سازی کے لیے اسے درجن بھر سے زائد ارکان کی مزید حمایت درکار تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے اس کا راستہ روکنے کا پکا بندوبست کر لیا تھا۔ وہ میاں نواز شریف سے ملے‘ اور سارا حساب کتاب ان کے سامنے رکھ دیا‘ لیکن میاں صاحب اپنی تیسری وزارتِ عظمیٰ کا آغاز اعلیٰ سیاسی روایات کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ سنگل لارجسٹ کی حیثیت سے حکومت سازی کا پہلا حق پی ٹی آئی کا ہے؛ چنانچہ جماعت اسلامی، آفتاب شیرپائو کی قومی وطن پارٹی اور آزاد ارکان کے گروپ کے ساتھ پی ٹی آئی نے یہاں حکومت بنا لی۔ پھر ایک ایسا موقع بھی آیا جب پی ٹی آئی نے قومی وطن پارٹی کو کرپشن کے الزامات کے ساتھ حکومت سے الگ کر دیا۔ بعد میں سیاسی جبر کے تحت گھر جا کر معذرت کر لی اور انہیں دوبارہ حکومت میں شامل کر لیا۔ پی ٹی آئی نے کے پی کے میں اپنا الگ احتساب کمیشن بنایا‘ جس کی سربراہی عمران خان صاحب کے قابلِ اعتماد دوست جنرل (ر) حامد کے سپرد ہوئی، جنہوں نے کچھ عرصے بعد یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ کرپشن کا ''کُھرا‘‘ جہاں تک جاتا ہے، وہاں میری رسائی نہیں۔ انسپکٹر جنرل ناصر درانی کی زیر قیادت سیاست سے پاک پولیس اور اس کی کارکردگی کے پی کے حکومت کا طرۂ امتیاز قرار پائی۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد نومنتخب وزیر اعظم نے ناصر درانی کو پنجاب میں پولیس اصلاحات کمیشن کا سربراہ بنایا اور طاہر خان کو انسپکٹر جنرل پولیس کی ذمہ داری سونپی (وہ کے پی کے میں ناصر درانی کے دستِ راست رہے تھے) لیکن اہلِ پنجاب ایسے خوش قسمت کہاں، طاہر خان بمشکل ایک ماہ نکال پائے تھے کہ فارغ کر دیئے گئے جس پر ناصر درانی (احتجاجاً) پولیس اصلاحات کمیشن کی سربراہی سے مستعفی ہو گئے۔
ضمنی انتخابات کا اصل اور بڑا معرکہ اتوار (14 اکتوبر) کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تین درجن کے لگ بھگ نشستوں پر برپا ہوا‘ جس میں پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی تین جیتی ہوئی نشستیں بھی ہار گئی۔ ان میں وزیر اعظم کی (لاہور اور بنوں) کی دو نشستیں بھی تھیں۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے اپنے ضلع ڈیرہ غازی خاں میں جیتی ہوئی نشست بھی پی ٹی آئی نہ بچا سکی، یہی کچھ کے پی کے میں وزیر اعلیٰ کے اپنے ضلع سوات میں ہوا تھا۔ اس اتوار کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی پشاور میں اپنے گورنر کی سیٹ ہار گئی۔
کے پی کے کی پارلیمانی تاریخ کا ایک اور واقعہ یاد آیا (تب یہ صوبہ سرحد تھا) مئی1993ء میں سپریم کورٹ سے نواز شریف حکومت (اور قومی اسمبلی) کی بحالی کے فیصلے کے بعد بھی ایوانِ صدر نے پرائم منسٹر ہائوس کے ساتھ محاذ آرائی جاری رکھی (یہ 8ویں ترمیم کے صوابدیدی اختیارات والا طاقتور ایوانِ صدر تھا)۔ ملک سنگین آئینی اور سیاسی بحران سے دوچار تھا۔ تب جنرل کاکڑ فارمولا بروئے کار آیا۔ صدر اور وزیر اعظم دونوں رخصت ہوئے (چاروں صوبائی گورنر اور وزائے اعلیٰ نے بھی گھر کی راہ لی) اور ملک نئے انتخابات کی طرف چلا گیا۔ نواز شریف صاحب کا راستہ روکنے کے لیے جو دیدہ و نادیدہ حربے اختیار کئے گئے، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ اس کے باوجود پنجاب اور سرحد میں نواز شریف کی مسلم لیگ کو سنگل لارجسٹ پارٹی بننے سے نہ روکا جا سکا۔ پنجاب میں آزاد ارکان کے ساتھ مسلم لیگ آسانی سے اپنی حکومت بنا سکتی تھی لیکن ''طاقتوروں‘‘ نے راستہ روک دیا اور حامد ناصر چٹھہ نے اپنے اٹھارہ ارکان کے ساتھ پنجاب میں منظور وٹو کو وزیر اعلیٰ بنوا لیا (ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اپنے سیاسی حریف کا راستہ روکنے کے لیے محترمہ کو یہ کڑوا گھونٹ بھی گوارا تھا) صوبہ سرحد میں نواز شریف کی وفادار حکومت کا راستہ روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور پیر صابر شاہ (20 اکتوبر 1993ء کو) 48 ارکان اسمبلی کی تائید کے ساتھ وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔ پیپلز پارٹی کے آفتاب شیرپائو صرف 29 ووٹ حاصل کر پائے تھے۔ وزیر اعظم بے نظیر کا اب پہلا ہدف سرحد کی صوبائی حکومت تھی‘ جس میں ارکانِ اسمبلی کی وفاداریاں بدلنے کے لیے ہر حربہ اور ہتھکنڈا روا تھا۔ تین فروری 1994ء کو وزیر اعلیٰ صابر شاہ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ 23 فروری کو تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری تھی۔ چودہ ارکان چارٹرڈ طیارے کے ذریعے آفتاب شیرپائو کی قیادت میں پشاور پہنچے۔ ایک کو ایمبولینس میں لایا گیا۔ شہر میں کرفیو کا سماں تھا۔ سپیکر ہدایت اللہ چمکنی نے مسلم لیگ کے دو ارکان (ڈپٹی سپیکر شاہ محمد اور سید اختر حسین) کو پارٹی وفاداری بدلنے پر رکنیت کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ ایوان مچھلی منڈی بن گیا تھا۔ سپیکر پر حملے کی کوشش بھی کی گئی اور وہ اجلاس 31 فروری تک ملتوی کرکے ایوان سے چلے گئے۔ ڈپٹی سپیکر نے کرسیٔ صدارت سنبھالی اور اپنی اور سید اختر حسین کی رکنیت کی بحالی کا اعلان کر دیا۔ 25 فروری کو صدر فاروق لغاری نے صابر شاہ حکومت اور صوبائی اسمبلی معطل کرکے گورنر راج نافذ کر دیا۔ گورنر راج کے خاتمے پر 24 اپریل کو شیرپائو 42 ارکان کی تائید کے ساتھ وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے۔ مسلم لیگ، اے این پی اور ان کے حامی آزاد ارکان نے اس کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ 
21 اپریل کے ضمنی انتخابات میں کراچی میں صدر عارف علوی اور گورنر عمران اسماعیل کی چھوڑی ہوئی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں پی ٹی آئی نے دوبارہ جیت لیں (عمران اسماعیل کی صوبائی سیٹ، عارف علوی کے قومی حلقے میں تھی) اہم ترین شخصیتوں کی خالی کردہ نشستوں پر ٹرن آئوٹ حیران کن حد تک کم رہا۔ ڈیفنس کراچی کے رہائشی ہمارے دانشور دوست نصیر سلیمی، بارہ بجے کے بعد ووٹ ڈالنے پہنچے تو600 میں سے صرف 12 ووٹ کاسٹ ہوئے تھے۔ عارف علوی 90,907 ووٹوں کے ساتھ جیتے تھے۔ اب ان کے جانشیں آفتاب صدیقی نے صرف 32,326 ووٹ حاصل کئے۔
اسی روز ایک اور اہم خبر آزاد کشمیر اسمبلی کے حلقہ LA18 پونچھ سے آئی۔ یہاں ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے سردار عامر الطاف 20,874 ووٹوں کے ساتھ فتح مند رہے۔ پی پی پی کے سردار غلام صادق 14731 ووٹوں کے ساتھ دوسرے، مسلم کانفرنس کے کاشان مسعود 3283 ووٹوں کے ساتھ تیسرے اور پی ٹی آئی کے سردار سوار خان 3231 ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔ حیرت ہے ''مودی کے یار‘‘ پاکستان کے ''نااہل وزیر اعظم‘‘ پر کشمیریوں کے اعتماد میں کمی نہیں آئی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں