وزیراعظم صاحب کی تقریر ختم ہوئی تو یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے ماس میڈیا کمیونی کیشن سٹڈیز کے ایک طالب علم کا فون آیا: ''سر! آپ نے تو پیمرا رولز میں پڑھایا تھا کہ کسی قسم کے نفرت آمیز اور اشتعال انگیز الفاظ نشر نہیں کئے جا سکتے، لیکن پرائم منسٹر نے تو وہ الفاظ بیان کر دیئے جو آج احتجاجی مظاہروں میں کچھ لوگوں کے خلاف ادا کئے گئے تھے۔ طالب علم کا سوال معقول تھا۔ میں نے جواب دیا: اس پر کلاس میں بات کریں گے۔
جناب وزیراعظم اسے ''چھوٹے سے طبقے‘‘ کا ردعمل قرار دے رہے تھے، یہ الگ بات کہ اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور اس میں مزید پھیل جانے کا ''پوٹینشل‘‘ بھی موجود تھا۔ ہم سیانوں سے سنتے آئے ہیں کہ ایسے میں ریاست کی طرف سے طاقت کا استعمال (اور اس کی دھمکی) آخری حربہ ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے آسیہ کی اپیل کے حق میں فیصلے پر شدید ردعمل کا حکومت کو اندازہ تھا‘جس سے نمٹنے کے لئے ضروری اقدامات بھی امن و امان کے ذمے دار اداروں نے کئے‘لیکن اولین ترجیح مسئلے کا پرامن حل ہونا چاہئے۔ یاد آیا، گزشتہ سال نومبر میں فیض آباد دھرنا طول پکڑ گیا اور حکومت نے (اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر) اس کے خاتمے کے لیے کارروائی کا فیصلہ کیا، تو میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ کے مطابق آرمی چیف نے اس کے لیے طاقت کے استعمال سے گریز کا مشورہ دیا تھا۔ اور آخر کار مذاکرات ہی کارگر ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کا ایجی ٹیشن زور پکڑنے لگا تو قوم کے نام اپنے خطاب میں انہوں نے کرسی کے بازو پر مُکا مارتے ہوئے کہا تھا: میں کمزور ہو سکتا ہوں لیکن یہ کرسی کمزور نہیں (ظاہر ہے، ان کا اشارہ ریاستی طاقت کی طرف تھا)۔ طاقت کے استعمال، بڑے شہروں میں جزوی مارشل لا اور کرفیو کے باوجود آگ پھیلتی چلی گئی تو اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے انہیں بھی مذاکرات کا پُرامن راستہ ہی اختیار کرنا پڑا، (مذاکرات کی ناکامی ایک الگ کہانی ہے)۔
سپریم کورٹ میں بنی گالہ میں رہائش گاہوں کی ریگولرائزیشن کا معاملہ بھی زیر بحث ہے‘ جس میں جناب وزیراعظم کے اپنے فارم ہاؤس کی ریگولرائزیشن کا مسئلہ بھی ہے۔ یہ معاملہ کئی مہینوں سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ایک موقع پر وزیراعظم صاحب کے فارم ہاؤس کا این او سی عدالت عظمیٰ میں پیش کیا گیا تو یونین کونسل کے سیکرٹری کا کہنا تھا: یہ کمپیو ٹرائزڈ این او سی ہے، جبکہ اُن دنوں ہمارے ہاں کمپیوٹر موجود ہی نہیں تھا‘ اور جملہ دستاویزات ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں۔ 18 اگست کو جناب عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ ''نئے پاکستان‘‘ کا آغاز تجاوزات کے خلاف مہم سے ہوا۔ اسلام آباد بھی اس کی زد میں تھا۔ کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ وزیراعظم صاحب خود اس کے لیے مثال بنتے‘ اور سب سے پہلے (سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق) اپنے فارم ہاؤس کو ریگولرائز کراتے۔ دو روز قبل سپریم کورٹ نے اس کے لیے مزید مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے، اُسی شب دس بجے تک اسے ریگولرائز کرنے کا حکم دیا تھا‘ لیکن معاملہ جوں کا توں ہے۔
(ڈپٹی اٹارنی جنرل کے مطابق، اس کے لیے پراسیس جاری ہے)۔ اسی دوران وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب کا دلچسپ مؤقف سامنے آیا، ان کے بقول: بنی گالہ اسلام آباد (سی ڈی اے) کی حدود میں نہیں آتا‘ یہ موہڑہ نور یونین کی حدود میں آتا ہے اور یہ بھی کہ وزیراعظم صاحب کا یہ گھر تیس سال قبل، اُس کے قوانین کے تحت بنا تھا۔ یہ ''تیس سال‘‘ والی بات اپنی جگہ ایک دلچسپ انکشاف ہے۔ اس حساب سے یہ 1988ء بنتا ہے‘ عمران خان کی کرکٹ کا دور۔ تب بنی گالہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ان دنوں ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنی والدہ کی یادگار کے طور پر کینسر ہسپتال کی تعمیر تھا‘ جو دس فروری 1985ء کو اس موذی مرض سے اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھیں۔ اپریل 1991ء میں وزیراعظم نواز شریف نے ا س کا سنگ بنیاد رکھا (اس کے لیے سرکاری زمین بھی انہوں نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں عطیہ کی تھی)۔ 1992ء کے ورلڈ کپ نے ان کے اس خواب کی تعبیر میں اہم کردار ادا کیا۔ 29 دسمبر 1994ء کو ہسپتال کے دروازے مریضوں کے لیے کھول دیئے گئے۔ افتتاح کینسر کی مریضہ بچی سمیرا یوسف نے کیا تھا۔ کپتان چار اگست 1995ء کو اپنی نئی نویلی دلہن جمائما کو زمان پارک لاہور والے گھر میں لائے تھے۔ سلیمان اور قاسم کی پیدائش بھی یہیں ہوئی (سلیمان 17نومبر 1997ء قاسم 10اپریل 1999ئ)۔ میاں بیوی نے لاہور سے اسلام آباد منتقل ہونے کا فیصلہ مشرف دور میں کیا تھا۔وزیراعظم صاحب کے فارم ہاؤس کی ریگولرائزیشن کا معاملہ درمیان میں تھا کہ ان کی کابینہ کے ایک اہم رکن اعظم سواتی کے فارم ہاؤس سے متصل سی ڈی اے کی ملکیت چھ کنال اراضی پر تجاوز کا معاملہ سامنے آ یا۔ حیرت ہے، اسلام آباد میں تجاوزات کے خلاف مہم کے دوران سی ڈی اے کو وزیر موصوف کی یہ تجاوزات نظر نہ آئیں۔ سلیم صافی کے بقول: وزیر صاحب کی نظریں تو نالے کے اس پار وزیرستان کے آئی ڈی پیز کے زیر استعمال زمین پر بھی تھیں، لیکن وہ جو کہتے ہیں بُرا وقت پوچھ کر نہیں آتا‘ خانہ بدوش نواز خاں کی گائے یہ بُرا وقت لے آئی، اور جناب چیف جسٹس نے از خود نوٹس میں وزیر موصوف اور ان کے اہل و عیال کے تمام اثاثوں کی تفصیل طلب کرلی۔
یہاں ہمیں ''نااہل‘‘ شریف دور یاد آیا۔ نواز شریف کی دوسری وزارتِ اعلیٰ کا دور... (تب بے نظیر صاحبہ وزیراعظم تھیں)‘ میاں محمد اظہر لاہور کے لارڈ میئر تھے۔ حکومت نے لاہور کو تجاوزات سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا اور آغاز بیڈن روڈ پر وزیراعلیٰ کے ماموں عبدالحمید بٹ (مرحوم) کی دکان کے تھڑے سے ہوا۔ (اس طرح کے تھڑے یہاں کی ہر دکان کے ساتھ معمول کی بات تھے)۔ آغاز وزیراعلیٰ کے ''اپنے گھر‘‘ سے ہوا تو شہر بھر میں لوگوں نے اپنی تجاوزات رضاکارانہ گرانا شروع کر دیں‘ لاہور کے ''نااہل‘‘ سیاستدان کے عہدِ اقتدار کی ایک، دو اور مثالیں!
1997ء سے شروع ہونے والا‘ دوسری وزارتِ عظمیٰ کا دور... وزیراعظم نے بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم کی اس ہدایت کے ساتھ یہ ذمہ داری فوج کے سپرد ہوئی کہ اس عمل میں کسی کی سیاسی وابستگی، سیاسی اثر و رسوخ کی پروا نہ کی جائے۔ گڑھی شاہو لاہور کے ایک سینما میں بھی چوری پکڑی گئی۔ یہ سینما لاہور کے ایک معزز اور بزرگ سیاستدان میاں معراج دین کی ملکیت تھا۔ وہ لاہور کی ارائیں برادری کے سرکردہ رہنما تھے۔ مسلم لیگ سے ان کی وابستگی بھی قدیم تھی۔ ہم نے بارہا دیکھا، وزیراعظم کی کھلی کچہری میں شرکت کے لیے وہ ماڈل ٹاؤن تشریف لاتے، تو نواز شریف کھڑے ہو کر ان کا خیرمقدم کرتے اور انہیں اپنی ساتھ والی نشست پر بٹھاتے۔ وہ شہباز شریف کی صوبائی حکومت میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے وزیر تھے۔ ان کے سینما میں بجلی چوری کی خبر کے ساتھ ہی ان سے استعفیٰ طلب کر لیا گیا‘ حالانکہ وہ اس جرم کے ذمہ دار نہ تھے۔ یہ سینما انہوں نے ٹھیکے پر دیا ہوا تھا اور بجلی کے بلوں سمیت جملہ اخراجات ٹھیکیدار کی ذمہ داری تھے۔ اس کے بعد بھی اپنی جماعت اور قیادت سے میاں معراج الدین کے تعلق میں کوئی فرق نہ آیا۔ (میاں معراج الدین کے بچے، اب تحریک انصاف میں ہیں)۔
ایک اور مثال بیگم عابدہ حسین کی تھی۔ نواز شریف کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے۔ 1990ء کا الیکشن پیپلز پارٹی کے فیصل صالح حیات کے مقابلے میں ہار گئیں، تو وزیراعظم نواز شریف نے انہیں امریکہ میں سفیر بنا دیا۔ 1997ء کا الیکشن جیت کر وہ نواز شریف کی دوسری وزارتِ عظمیٰ میں وفاقی وزیر تھیں۔ جھنگ میں ان کے گھوڑوں کے اصطبل میں بجلی چوری پکڑی گئی تو وزیراعظم نے ان سے استعفیٰ طلب کرنے میں تاخیر نہ کی۔ لیکن وہ ''میاں معراج دین‘‘ نہ تھیں۔ یہ بیگم صاحبہ کی جاگیردارانہ انا کی توہین تھی‘ جس کا بدلہ لینے کے لیے وہ موقع کی تلاش میں رہیں اور یہ موقع انہیں 12اکتوبر 1999ء کو نواز شریف حکومت کی برطرفی کے بعد مل گیا۔ وہ مسلم لیگ کے ''ہم خیال گروپ‘‘ میں پیش پیش تھیں۔ یہ الگ بات کہ گریجویشن کی شرط کے باعث وہ اکتوبر 2002ء کا الیکشن نہ لڑ سکیں۔ گریجویشن کے لیے بیگم صاحبہ نے ملتان کے کمرئہ امتحان میں بیٹھ کر باقاعدہ پرچے دیئے۔ اور ظاہر ہے، اس میں کامیابی ان کے لیے کیا مسئلہ تھی۔