"RTC" (space) message & send to 7575

کرتار پور کوریڈور اور نواز شریف کی سپورٹس کار

وزیر اعظم عمران خان اس دعوے میں حق بجانب تھے کہ کرتار پور راہداری پر''ہم سب‘‘ ایک ہیں۔ ظاہر ہے، ایسے معاملات میں سکیورٹی اداروں کی رائے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میاں نوازشریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے گزشتہ ادوار میں سکھ بھائیوں کی سہولت کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے پر غور ہوا تھا، لیکن سکیورٹی خدشات سدِ راہ بن گئے۔ میاں صاحب کے دوسرے دور (1998) میں البتہ سکھ یاتریوں کے ویزے میں کرتار پور کا اضافہ کر دیا گیا۔ 
وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے کرتار پور راہداری کھولنے کی خوش خبری نوجوت سنگھ سدھو کی بے ساختہ اور والہانہ جپھی کا باعث بن گئی تھی۔ بال کی کھال اتارنے والے ہمارے بعض دوستوں کے خیال میں یہ اعلان نومنتخب وزیر اعظم کی طرف سے ہوتا تو اس سے 25جولائی کو جنم لینے والی ''نوزائدہ جمہوریت‘‘ کی ساکھ اور بھرم قائم ہونے میں مدد ملتی (ہندوستان میں یہ فیصلہ کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا، اگرچہ وہاں بھی اس میں سکیورٹی اداروں کی ''اِن پٹ‘‘ ضرور شامل ہوگی)
اور پھر28نومبر، بدھ کو وہ شبھ گھڑی آگئی جب وزیر اعظم پاکستان نے اس کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ اِدھر اپنی طرف قومی جشن کا سماں تھا۔ اعلیٰ عسکری وسیاسی قیادت بھی موجود تھی۔ البتہ دوسری طرف سرد مہری کا اظہار تھا۔ سشما سوراج نے اس تاریخی تقریب میں شرکت سے نہ صرف معذرت کرلی بلکہ اس روکھے پن کا اظہا ر بھی ضروری سمجھا کہ کرتار پور راہداری کے لیے ہندوستان کی آمادگی کا مطلب دونوں ملکوں میں مذاکرات کی راہ ہموار ہونا نہیں۔ ہندوستانی پنجاب کے سِکھ وزیر اعلیٰ کے لیے یہ مذہبی سعادت حاصل کرنے کا موقع بھی تھا لیکن وہ بھی تشریف نہ لائے۔
اس تاریخی موقع پر پاکستانی حزب اختلاف کی کمی بھی محسوس ہوئی۔ اس کی ''کرپٹ اور بے ایمان‘‘ قیادت کو شاید دعوت ہی نہیں دی گئی تھی، البتہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی پارٹیوں نے اس کی حمایت میں بخل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مسلم لیگ(ن)کو تو اپنے زخم بھی یاد آئے۔ جب میاں صاحب کے دوسرے دور میں، واجپائی کی لاہور بس یاترا پر یہاں ہنگامہ اٹھایا گیا تھا۔جناب مجید نظامی کی برسی پر خود ان کے اپنے اخبار میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق، اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے لاہور آکر نظامی صاحب سے ملاقات کی او ر کہا کہ نوازشریف پاکستان کو بیچنے جارہا ہے۔ جنرل کے خیال میں صرف قاضی صاحب تھے جو پاکستان کوبچاسکتے تھے۔ نظامی صاحب نے جنرل کا پیغام قاضی صاحب کو پہنچادیا اور پھر لاہور کی سڑکوں پرجو کچھ ہوا، وہ اخبارات کے صفحات میںمحفوظ ہے۔ اس دورے میں وزیر اعظم واجپائی کی مینار پاکستان پر حاضری خود ان کے اپنے الفاظ میں پاکستان کے وجود پر مہرلگانے(اسے تسلیم کرنے) کے مترادف تھی۔ اس موقع پر لاہور اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات کا اعلان بھی کیا گیا (اس کے بعد کارگل مس ایڈونچر ایک الگ کہانی ہے)
ستمبر2013 میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر وزیر اعظم نوازشریف کا یواین او کی قرار داد وں کے حوالے سے دوٹوک مؤقف ہندوستان کے لیے اس حدتک بدمزگی کا باعث بنا کہ اگلے روز دونوں وزرائے اعظم کی چائے پر ملاقات خطرے میں پڑ گئی (عالمی میڈیا کے مطابق برسوں بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی لیڈر نے کشمیر کے حوالے سے ہندوستان کو یوں آڑے ہاتھوں لیا اور اس سلسلے میں عالمی قیادت کو بھی اس کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا تھا)
ہندوستان میں مودی حکومت کی آمدکے بعد بھی یواین او سمیت مختلف فورمز پر ،''مودی کے یار‘‘ اور اس کی حکومت نے کشمیر سمیت پاکستان کے قومی مؤقف پر کسی مداہنت کا ارتکاب نہ کیا۔ برہان الدین وانی کو پاکستان کی وفاقی کابینہ نے''شہید‘‘ قرار دیا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں قرار دادِ مذمت منظور کی۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کلبھوشن یادیو کے حوالے سے سیکرٹری جنرل کوخصوصی Dossierپیش کیا۔
ہندوستان کے ساتھ امن کی خواہش پر کس عقلمند کو اعتراض ہوگا؟ لیکن ہمارے وزیر اعظم کی طرف سے اس کا بے تابانہ اور والہانہ اظہار شاید ہمارے قومی وقار کے شایانِ شان نہیں۔ یہ ارشاد کہ ''دونوں طرف سے غلطیاں ہوئیں‘‘ تاریخ کی درست تعبیر نہیں۔ ایک امریکی صحافی سے انٹرویو میں بانیٔ پاکستان نے تقسیم کے بعد دونوں ملکوں میں امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس کا جواب ہندوستان کی طرف سے کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور پاکستان کے اثاثوں کو روک کر دیا گیا۔ حیدر آباد (دکن) پر لشکر کشی ہندوستان کی ایک اور سنگین زیادتی تھی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن اس دور کی عسکری (اور سیاسی قیادت کے ایک حصے)کی غلطی سہی، لیکن ننگی جارحیت کے ذریعے، پاکستان کے ایک حصے کو کاٹ ڈالنا، ہندوستان کا وہ سنگین جرم تھا ، عالمی قوانین میں جس کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ یہ بجاکہ ہم سے بھی غلطیاں ہوئیں، لیکن اس کا ہندوستان کے سنگین جرائم سے کوئی موازنہ نہیں (کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد کے موقع پر وزیر اعظم کا خطاب، بھرپور تجزیے کا الگ موضوع ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا یک سطری تبصرہ تھا، ''کرتار پور والی تقریر کوئی دوسرا سیاستدان کرتا تو...‘‘)
سابق وزیر اعظم نوازشریف نے نیب کورٹ میں اپنے تازہ بیان میں یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ لاہور میں پہلی شیورلیٹ امریکن گاڑی ان کے والد نے 1962ء میں منگوائی تھی اور یہ بھی کہ لاہور میں پہلی کنورٹیبل سپورٹس مرسڈیز خود ان کے لیے منگوائی گئی تھی۔ یہاں ہمیں جناب خورشید محمود قصوری کی ''Neither a hawk nor a dove‘‘سے ایک واقعہ یاد آیا۔ قصوری صاحب کے بقول یہ 1970ء کی دہائی کے وسط کی بات ہے، وہ ملک وزیر علی کے ساتھ تحریک استقلال کے مرکزی دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک مرسڈیزبینزسپورٹس کار (کنورٹیبل) دفتر کے احاطے میں داخل ہوئی۔ ایک سرخ وسفید نوجوان باہر آیا اوررسمی علیک سلیک کے بعد اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ تحریک استقلال میں شمولیت اور اس کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ یہ صنعتکار میاں محمد شریف کا صاحبزادہ تھا۔ وہ ایئر مارشل اصغر خان کا پرُجوش سپورٹر بن گیا۔ ایئر مارشل جب بھی لاہور آتے، اس کی کار(ڈرائیور سمیت )ان کے ڈسپوزل پر ہوتی۔ وہ خود بھی ان کے ساتھ رہتا۔(گویا، اسے جنرل جیلانی سیاست میں نہیں لائے تھے۔ وہ چھ، سات سال پہلے بھٹو آمریت کے نصف النہار میں اپوزیشن کی سرگرم سیاست جوائن کر چکاتھا)
اور اب ایک کہانی میجر جنرل (ر)محمد امرائو خاں کی سرگزشت سے:
میں واہ فیکٹری کا چیئر مین تھاتو اسلحہ کے کافی پرزے پرائیوٹ سیکٹر میں تیار کرواتا تھا، اتفاق فائونڈری کو بھی کام دیتا رہتا۔ 1962ء کا ذکر ہے کہ ایک ٹیلیفون موصول ہوا کہ میں دوپہر کا کھانا نواب کالا باغ گورنرمغربی پاکستان کے ساتھ کھائوں۔ وہ دورے پر راولپنڈی آئے ہوئے تھے۔ کھانے پر نواب صاحب نے فرمایا کہ آپ کو ایک ضروری کام کے لیے بلایا ہے۔ کئی سال سے میں گندم نکالنے کی مشین کی فکر میں ہوں جس سے گندم کی فصل بچ سکتی ہے، ورنہ ہر سال لاکھوں من گندم بارش کی نذر ہو جاتی ہے، بیلوں سے گاہی فرسودہ طریقہ ہے اور اتنا لمبا عرصہ لگتا ہے کہ فصل اٹھانے سے پہلے ہی بارشیں آجاتی ہیں،میں نے کئی ملکوں سے تھریشر منگوائے، لیکن وہ سب کے سب دانہ توڑ دیتے ہیں۔ اب ایک دوست کے ذریعے ہندوستان سے جو تھریشر منگایا، وہ کامیاب ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ تھریشر آپ واہ فیکٹری میں تجارتی پیمانے پر بنانا شروع کردیں۔ میں نے نواب صاحب کو جواب دیا کہ واہ فیکٹری کواسلحہ بنانے سے ہی فراغت نہیں ہو گی۔ہندوستان ضرور حملہ کرے گا۔ شاید تین چار سال کا وقفہ مل جائے(ہندوستان نے ٹھیک تین سال بعد حملہ کردیا) میری رائے یہ ہے کہ آپ یہ کام میاں شریف اتفاق فائونڈری کے سپرد کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ چند ہی ماہ میں اتفاق فائونڈری نے تھریشر بنانے شروع کردیئے اور تمام ملک میں''اتفاق تھریشر‘‘ کا ڈنکا بج گیا۔ آج جگہ جگہ لاکھوں کی تعداد میں تھریشر بنائے جارہے ہیں اور گندم کی فصل کو چند ہی دنوں میں اٹھالیا جاتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر تھریشر ملک میں تیار نہ ہوتے تو شاید ہم گندم میں خود کفیل نہ ہو پاتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں