وطن عزیز میں صدارتی نظام کے ناکام (اور تباہ کن) تجربے کو دہرانے کی خواہش (یا تجویز) اپنی جگہ لیکن اس میں بابائے قوم کو ''ملوث‘‘ کرنا اور اس کے لیے ان کی کسی ''ذاتی ڈائری‘‘ سے حوالہ لانا (نرم سے نرم الفاظ میں بھی) سخت زیادتی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی بابائے قوم کے قلم سے لکھا گیا، ایک ایک حرف اور ان کی زبان سے ادا کیا گیا ایک ایک لفظ محفوظ ہو چکا، ان میں کہیں پاکستان کے لیے صدارتی نظام کا اشارہ تک نہیں تھا۔ خود انہوں نے 15 اگست 1947ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خاں کی سربراہی میں جس سات رکنی کابینہ سے حلف لیا، وہ پارلیمانی نظام کی کابینہ تھی۔ پھر آئین ساز اسمبلی نے نوزائیدہ مملکت کے لیے جس آئین کی تیاری کا آغاز کیا، اس کا بنیادی تصور بھی پارلیمانی تھا۔ اس میں غالب تعداد بانیٔ پاکستان کے نہایت قریبی رفقا کی تھی اور ان سے زیادہ قائد کے نقطہ نظر سے کون آگاہ ہو سکتا تھا۔
مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے محمد علی بوگرہ کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران (1954ء میں) مکمل ہونے والا آئینی مسودہ بھی پارلیمانی تھا۔ آئین ساز اسمبلی اسے منظور کر چکی تھی، اس کے نفاذ کے لیے 25 دسمبر 1954ء کی تاریخ بھی طے پا چکی تھی (قائد اعظم کی سالگرہ پر قوم کے لیے عظیم تحفہ) آئین ساز اسمبلی کے منظور کردہ مسودے پر گورنر جنرل کے دستخط کی رسم باقی تھی۔ پارلیمانی نظام کی روح کے مطابق اس میں وزیر اعظم، ملک کا چیف ایگزیکٹو تھا اور صدر کی حیثیت رسمی سربراہِ مملکت کی تھی۔ ملک غلام محمد کو ایک بے اختیار صدر مملکت بننا گوارا نہ تھا؛ چنانچہ اس نے آئین ساز اسمبلی توڑ دی (اور 1954ء کا آئین آنکھ کھولنے سے پہلے ہی اگلے جہاں سدھار گیا) اس کے بعد انصاف کے ایوانوں میں جو کچھ ہوا، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ عدالتوں تک رسائی کے تمام راستے بند تھے۔ سپیکر مولوی تمیزالدین برقعہ پہن کر، ایک رکشے میں سندھ ہائی کورٹ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں سے انہیں ریلیف مل گیا۔ گورنر جنرل کی طرف سے اسے عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کر دیا گیا اور چیف جسٹس منیر احمد نے نظریۂ ضرورت کے تحت گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دے دیا۔ اب نئی آئین ساز اسمبلی نے کام شروع کیا اور چودھری محمد علی کی وزارتِ عظمیٰ میں 1956ء میں نیا آئین بن گیا۔ یہ مسلم لیگ اور شیر بنگال مولوی اے کے فضل حق کی کرشک سرامک پارٹی کی مخلوط حکومت تھی۔ حسین شہید سہروردی اپوزیشن لیڈر تھے۔ بعد میں وہ بھی اسی آئین کا حلف اٹھاکر وزیر اعظم بنے۔ نئے آئین کے تحت فروری 1959 میں ملک میں پہلے عام انتخابات کی تیاریاں جاری تھیں کہ سات اکتوبر 1958ء کو کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں کی ملی بھگت کے ساتھ صدر سکندر مرزا نے آئین کی تنسیخ اور مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ 20 روز بعد (27 اکتوبر کو) وہ بھی ایوانِ صدر سے نکال باہر کئے گئے (اس رات انہیں جس رسوائی کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک الگ عبرتناک کہانی ہے) اب صدر ایوب (اور ان کے رفقا) سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ چار سالہ مارشل لاء کا اختتام، 1962ء میں آئین کے نفاذ کے ساتھ ہوا‘ جو عوام کے منتخب ادارے کی بجائے فیلڈ مارشل کے نامزد دستور کمیشن کا تیار کردہ تھا۔ یہ وفاقی پارلیمانی نظام کی بجائے وحدانی طرز کا صدارتی نظام تھا، جس میں تمام تر اختیارات کا محورومنبع صدر صاحب کی ذات تھی۔
اس میں بالغ رائے دہی کی بجائے ملک کے دونوں حصوں سے بنیادی جمہوریتوں کے چالیس، چالیس ہزار ارکان صدر مملکت اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کا انتخاب کرتے۔ جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں، متحدہ حزب اختلاف کی امیدوار مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے 9 نکاتی منشور کا بنیادی نکتہ وفاقی پارلیمانی نظام اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہِ راست انتخاب تھا (حیرت ہے، بانیٔ پاکستان کی ہمدم و دمساز ہمشیرہ بھی اپنے بھائی کی ذاتی ڈائری کے اس ورق سے لاعلم تھیں‘ جس میں انہوں نے پاکستان کے لیے صدارتی نظام کو پسند کیا تھا) مادرِ ملت بدترین دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ہرا دی گئیں۔ اس پر مغربی پاکستان میں بھی غصہ کم نہ تھا لیکن اُدھر مشرقی پاکستان میں تو ''ووٹ کی توہین‘‘ کا احساس بہت گہرا اتر گیا تھا۔ 1968ء کے اواخر میں، جب ڈکٹیٹر اور اس کے حواری ''عشرۂ ترقی‘‘ کا جشن منانے کی تیاریاں کر رہے تھے، ڈکٹیٹرشپ کے خلاف عوامی نفرت کی لہر ابھری، جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک سیلاب کی صورت اختیار کر گئی۔ مشرقی پاکستان میں اس سیلاب کی تندی و تیزی کہیں زیادہ تھی۔ مارچ1969 ء کی گول میز کانفرنس میں فیلڈ مارشل نے قوم کے دونوں بنیادی مطالبات تسلیم کر لئے، وفاقی پارلیمانی نظام اور بالغ رائے کی بنیاد پر براہِ راست انتخاب، لیکن تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ مشرقی پاکستان میں بھاشانی اور مغربی پاکستان میں بھٹو نے طوفان اٹھائے رکھا اور 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان، ملک کو یحییٰ خان کے سپرد کرکے رخصت ہوگئے۔ ایوب خان کے دور میں جس چیز کو سیاسی استحکام قرار دیا جاتا تھا (اور جس کا حوالہ آج بھی صدارتی نظام کے حامی دیتے ہیں) وہ دراصل قبرستان کا سکوت تھا۔
بعض اصحاب دانش اور اربابِ سیاست کی رائے تھی کہ ان دس برسوں میں سیاسی مسائل اتنے گمبھیر ہو چکے ہیں، خصوصاً دونوں حصوںکے درمیان خلیج اتنی وسیع اور گہری ہو چکی ہے کہ نئی آئین سازی کا شوق ملک کی چولیں ہلا دے گا۔ نواب زادہ نصراللہ خاں مشرقی پاکستان سے واپسی پر، اپنے ساتھ ڈھاکا سے شائع ہونے والے بنگالی روزنامہ ''اتفاق‘‘ اور انگریزی کے ''آبزرور‘‘ کے وہ اداریے بھی لائے جن میں نئی آئین سازی کی بجائے1956ء کے آئین کی بحالی کی تجویز دی گئی تھی۔ یہ دونوں اخبارات مشرقی پاکستان کی رائے عامہ کے نمائندہ سمجھے جاتے تھے۔ یہ اداریے یحییٰ خان کو پیش کرتے ہوئے نواب زادہ صاحب کا اصرار تھا کہ نئی آئین سازی کے خطرناک بکھیڑے میں پڑنے کی بجائے 1956ء کے آئین کی بحالی کا، سلامتی اور عافیت کا راستہ اختیار کیا جائے‘ لیکن ڈکٹیٹر (اور دونوں طرف کے کچھ سیاسی عناصر کا) اپنا کھیل تھا۔ بالآخر ملک ٹوٹ گیا۔ ''نئے پاکستان‘‘ میں بھٹو صاحب کا آئیڈیل بھی صدارتی نظام ہی تھا۔ اپریل 1972ء میں مارشل لاء کے خاتمے کے ساتھ انہوں نے جو عبوری آئین نافذ کیا، وہ بھی صدارتی تھا۔ اپوزیشن اور خصوصاً چھوٹے صوبوں کے اصرار پر بھٹو صاحب 1973ء کے آئین کو پارلیمانی بنانے پر مجبور ہوئے (اس میں پنجاب کی پولیٹیکل مڈل کلاس کا دبائو بھی کم نہ تھا)
نئی آئین سازی کے خطرات کا احساس ہی تھا جس نے جنرل ضیاء الحق کو 1973ء کا آئین منسوخ کرنے کی بجائے، اسے ''التوا میں رکھنے‘‘ کا آئیڈیا دیا (اس میں شریف الدین پیرزادہ جیسے شہ دماغ بھی کارفرما رہے ہوں گے) 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد مارشل لاء اٹھانے سے پہلے، جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے اسمبلیاں توڑنے، اور سروس چیفس اور گورنروں کے تقرر کے، صدر کے صوابدیدی اختیارات منوا لئے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے یہ مجبوری کا سودا تھا۔ 1985ء سے 1996ء تک چار حکومتیں اس صدارتی اختیار کی نذر ہو گئیں (جونیجو صاحب، بے نظیر صاحبہ، نواز شریف اور پھر بے نظیر) چنانچہ 1997ء میں دوتہائی اکثریت حاصل ہوتے ہی نواز شریف نے آٹھویں ترمیم کے صوابدیدی صدارتی اختیارات 13ویں ترمیم کے ذریعے ختم کر دیئے۔ بے نظیر صاحبہ کی زیر قیادت اپوزیشن کی تائید کے ساتھ یہ ترمیم اتفاق رائے سے منظور ہوئی تھی۔ 2003ء میں پاکستان کے چوتھے طالع آزما نے 8ویں ترمیم کی بدروح 17ویں ترمیم کے ذریعے دوبارہ آئین میں داخل کردی۔ لیکن یہ ایک ایسی مکھی ہے جسے قوم کا اجتماعی ضمیر ہضم نہیں کرتا اور موقع پاتے ہی اسے اُگل دیتا ہے۔ چنانچہ 18ویں ترمیم نے ایک بار پھر پارلیمنٹ کے اصل اختیارات بحال کرکے نہ صرف وزیر اعظم کو حقیقی چیف ایگزیکٹو بنا دیا، بلکہ مزید صوبائی اختیارات کے ذریعے چھوٹے صوبوں کے اطمینان قلب کا خاطر خواہ اہتمام بھی کر دیا کہ با اختیار اور مطمئن وفاقی اکائیاں ہی وفاق کی مضبوطی اور استحکام کا حقیقی ذریعہ ہوتی ہیں۔
بات صدارتی نظام کے حوالے سے قائد اعظم کی ذاتی ڈائری کے کسی ورق سے شروع ہوئی تھی، جس کا انکشاف پہلی بار صدر ضیاء الحق کے دور میں ہوا‘ لیکن اسے نہ تب کسی صاحب فہم و ذکا نے سنجیدگی سے لیا تھا اور نہ اب اسے کوئی سنجیدگی سے لیتا ہے۔