نوزائیدہ مملکتِ خدا داد کو درپیش سنگین ترین مسائل سے کچھ فرصت ملی تو بانیٔ مملکت مسلم لیگ کے معاملات کی طرف متوجہ ہوئے۔ قائد اعظم کی زیر قیادت یہ آل انڈیا مسلم لیگ تھی، جسے برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کی تخلیق کا لا زوال اعزاز حاصل ہوا۔ اب نئے حقائق، نئے فیصلوں کے متقاضی تھے۔ چودہ، پندرہ دسمبر 1947 کو آل انڈیا مسلم لیگ کا کراچی میں اجلاس ہوا۔ مسلم لیگ کا یہ آخری اجلاس تھا جس کی صدارت بانیٔ پاکستان نے کی۔ تین سو شرکاء میں سے 160 ہندوستان سے آئے تھے (تقسیم کے بعد جنہیں وہیں رہنا تھا) اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی دو حصوں میں تقسیم کا فیصلہ ہوا۔ اِدھر پاکستان مسلم لیگ اور اُدھر انڈین مسلم لیگ... (جس کی سربراہی نواب محمد اسماعیل خان کے سپرد ہوئی)
گورنر جنرل محمد علی جناح نے پاکستان مسلم لیگ کی صدارت سے معذرت کر لی کہ وہ ریاستی اور جماعتی عہدوں کی علیحدگی میں یقین رکھتے تھے۔ وفاقی پارلیمانی نظام کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اس میں صدر مملکت (تب گورنر جنرل) برسر اقتدار جماعت کی بجائے، وفاق کی علامت ہوتا ہے۔ (پاکستان مسلم لیگ کی کنوینرشپ لیاقت علی خان کے سپرد ہوئی) یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ یہ اجلاس گورنر جنرل ہائوس کی بجائے کراچی کے خالقدینا ہال میں منعقد ہوا تھا۔
گورنر جنرل محمد علی جناحؒ نے کابینہ کے کسی اجلاس کی صدارت کی تو اس لیے کہ یہ خود کابینہ کا اصرار تھا۔ سابق وزیر اعظم (اور حکومت پاکستان کے پہلے سیکرٹری جنرل) چودھری محمد علی راوی ہیں کہ اس کیلئے کابینہ نے باقاعدہ قرارداد منظور کی تھی، اس وضاحت کے ساتھ کہ یہ خصوصی استحقاق بعد میں کسی اور سربراہ مملکت کیلئے مثال نہیں بنے گا۔ پاکستان سنگین مسائل سے دوچار تھا‘ اور ایسے میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ‘ دونوں اپنے قائد اعظم کی رہنمائی سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔
قائد اعظم کی زیر صدارت ان اجلاسوں کا ماحول جمہوری ہوتا‘ جن میں کھلے بحث مباحثے کا اہتمام کیا جاتا۔ 22 مارچ 1940ء کو سبجیکٹس کمیٹی میں قراردادِ لاہور کے مسودے پر غور ہو رہا تھا کہ شیخ رشید احمد نے قائد اعظم سے کہا: ہم آپ کو لیڈر مان چکے۔ آپ جو کہیں گے، ہم آنکھیں بند کر کے اسے منظور کر لیں گے۔ اس پر قائد اعظم نے سخت ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ آپ لوگ تمام ہندوستان سے اس لیے آئے ہیں کہ اپنی اپنی رائے دیں، اس لیے نہیں کہ میں جو کہوں، آنکھیں بند کر کے اسے منظور کر لیں۔ لیگ کونسل کے ایک اجلاس میں ایک مسلم لیگی رہنما کی طرف سے قائد اعظم کو تاحیات مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لینے کی تجویز، قائد نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ جمہوری اصولوں کا تقاضا ہے کہ میں ہر دفعہ کونسل کے اجلاس میں آئوں اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اس کا اعتماد حاصل کروں۔
قائد اعظم اداروں کے آئینی اختیارات کی پابندی کو بے پناہ اہمیت دیتے، حکومت پاکستان نے گورنر جنرل کے استعمال کے لیے ایک وائی کنگ طیارے کا آرڈر دیا۔ طیارہ ساز کمپنی نے دورانِ پرواز دفتری امور کی انجام دہی کے لیے طیارے میں کچھ اضافی چیزیں تجویز کیں‘ جس کی گورنر جنرل نے منظوری دے دی۔ کمپنی کی طرف سے چند سو پونڈ کے اضافی اخراجات کی انوائس پر وزارتِ خزانہ نے لکھا کہ اس کے لیے وزارت سے پیشگی منظوری کی ضرورت تھی‘ ہمارے پاس بہت کم زرِ مبادلہ ہے تاہم بابائے قوم کی خاطر ہم کسی نہ کسی طرح اس کا بندوبست کر ہی لیں گے۔ فائل گورنر جنرل کے پاس واپس آئی تو انہوں نے لکھا ''یہ ایک غلطی تھی، مجھے اس کا افسوس ہے۔ موجودہ حالات میں ہم ان اضافی چیزوں کے بغیر بھی گزارا کر سکتے ہیں، اس لئے ان کا آرڈر منسوخ کر دیا جائے‘‘۔
اپنے گزشتہ کالم میں ہم پاکستان میں پارلیمانی نظام پر ''اجماعِ امت‘‘ کے حوالے سے متعدد مثالیں دے چکے... لیکن بعض لوگ اس طے شدہ معاملے کو پھر بحث مباحثے کا موضوع بنانا چاہتے ہیں، گویا 70 سال بعد بھی ہمیں آگے بڑھنے کی بجائے دائرے میں ہی گھومتے رہنا ہے۔ کہا جاتا ہے، پاکستان میں پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا، سوال یہ ہے کہ اسے تسلسل سے بروئے کار رہنے کا موقع ہی کب دیا گیا؟ پارلیمانی نظام کو کرپشن کا سبب قرار دینے والے دانشور بتائیںکہ صدارتی نظام میں وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے، جو اسے کرپشن سے پاک رکھنے کا ذریعہ بنے گی۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے بنیادی چیز خدا اور خلقِ خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس ہے۔ پھر اس میں پولیٹیکل وِل کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ احتسابی ادارے مؤثر و مستعد اور احتساب کا نظام شفاف اور قابل اعتماد ہو۔ اس میں آزاد میڈیا اور فعال سول سوسائٹی کے کردار کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ 1947ء سے 1958ء تک پاکستان میں نسبتاً کمزور پارلیمانی نظام تھا۔ اس میں محلاتی سازشوں اور ادلتی بدلتی وفاداریوں کی کہانیاں تو تھیں (اس سے قطع نظر کہ پسِ پردہ ڈوریاں ہلانے والے طاقتور ہاتھ کون تھے؟) لیکن سیاستدانوں پر مالی کرپشن کا الزام شاذ و نادر ہی تھا۔ ایوب خان نے نا پسندیدہ سیاستدانوں کو ''ایبڈو‘‘ کرتے ہوئے جو الزامات عائد کئے انہیں پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ ایک الزام کھمبے سے اپنے ڈیرے تک ٹیلی فون کے تار لے جانے (اور یوں قومی خزانے کو نقصان پہچانے) کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری سرپرستی میں کرپشن کا آغاز فیلڈ مارشل صاحب کے دور میں ہوا، تب یہ زیادہ تر ٹرانسپورٹ کے روٹ پرمٹوں کی صورت میں تھی۔ بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں نے زرعی اصلاحات کے حوالے سے بھی گھپلے کئے۔
کیا صدارتی نظام، مارشل لا سے بھی زیادہ سخت اور طاقتور ہوتا ہے؟ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے ہاں مارشل لا ادوار میں بھی کرپشن ہوئی اور غیر سیاسی حکمران، اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت کرپشن کو نظر انداز اور کرپٹ عناصر کی سرپرستی کرتے رہے۔ ''مردِ حق‘‘ 90 روز میں الیکشن کے وعدے کے ساتھ آئے تھے (شاید وہ ابتدا میں اس حوالے سے نیک نیت بھی تھے) لیکن پھر انہیں الیکشن کے التوا کی ضرورت پڑ گئی (یہاں تفصیل میں جانے کا محل نہیں) ایک دن فرمایا، ''ہم جسے اپینڈکس سمجھے تھے، وہ کینسر نکلا‘‘ اور اب اس کے علاج کو وہ اپنی ذمہ داری قرار دے رہے تھے۔ اس کے لیے ''پہلے احتساب، پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگا۔ بعض جمہوریت پسند بھی یہی راگ الاپنے لگے۔ اچھا خاصا وقت گزر چکا تھا، جب لاہور ایئر پورٹ پر اخبار نویسوں سے گفتگو میں ایک سوال تھا: ''سر! وہ احتساب کا کیا ہوا؟‘‘ جنرل صاحب مسکرائے، دایاں ہاتھ سینے پر رکھا اور کہا، ہم اس میں مخلص اور نیک نیت تھے۔ ہم نے آغاز بھی دیا تھا، لیکن پھر کوئی کسی کا ماما نکل آیا، کوئی بھانجا۔ کوئی چچا نکل آیا، کوئی بھتیجا۔ ایسے میں کون کس کا احتساب کرتا‘‘؟
اور 12 اکتوبر 1999ء والے طالع آزما کے 8 نکاتی پروگرام کا تو دوسرا نکتہ ہی احتساب (کرپشن کا خاتمہ) تھا لیکن اس نے احتساب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا... جنرل شاہد عزیز کی ''یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ میں پورا باب اس پر ہے، چند سطور: ''مجھے صدر (مشرف) صاحب نے اپنے دفتر بلوا لیا اور کہنے لگے، تم قومی احتساب بیورو کو سنبھال لو۔ مجھے تم سے صرف ایک بات کہنی ہے۔ میری حکومت میں کچھ ایسے لوگ ہیں، مثلاً فیصل صالح حیات، جن کی کرپشن کے قصے پرانے ہیں، تم ان پرانے قصوں کو فی الحال نہ چھیڑو۔ میری حکومت غیر مستحکم ہو جائے گی۔ ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا‘‘... ''صدر صاحب نے چینی کی انکوائری بند کروا دی ہے‘‘ ، جنرل حامد جاوید کا فون تھا، ''یہ صدر صاحب کا ایگزیکٹو آرڈر ہے۔ اب یہ انکوائری نہیں ہو گی‘‘... ایک اور منظر: ''صدر صاحب نے میز پر رکھے کاغذات کو ہاتھ کے جھٹکے سے دھکیلا اور غصے سے گھورتے ہوئے مجھے کہا: ''I don't care what you have written in it, I don't even want to read it ‘‘ یہ تیل کی انکوائری رپورٹ تھی۔
ملک کے طاقتور ترین صدور کی کہانیوں کے ساتھ ایک کمزور سا وزیر اعظم یاد آیا، محمد خاں جونیجو جس نے اپنے تین طاقتور وزراء (اور ان کے سیکرٹریوں) کو بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کے الزام میں نکال باہر کیا تھا۔ اِن میں ہمارے دانیال عزیز کے والد محترم انور عزیز بھی تھے۔