جی ہاں! یہ گمان (یا بد گمانی) کیوں ہو کہ صدارتی نظام کی بات (موجودہ) اسٹیبلشمنٹ کا لکھا ہوا گیت ہے۔ وہ جو غالب نے کہا تھا:
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں، اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
صدارتی نظام کے اس خیال کی کونپلیں ماضی میں بھی پھوٹتی رہی ہیں۔
لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بانیٔ پاکستان (اور ان کے رفقا) پارلیمانی نظام کے حوالے سے یکسو تھے۔ پاکستان کی اوّلین آئین ساز اسمبلی کا منظور کردہ 1954ء کا آئینی مسودہ (جو گورنر جنرل ملک غلام محمد کی مطلق العنانیت کی نذر ہو گیا) اور اس کے بعد 1956ء کا آئین بھی‘ جو شیرِ بنگال مولوی اے کے فضل حق کی کرشک سرامک پارٹی کی تائید کے ساتھ منظور ہوا، پارلیمانی نظام کی بنیاد پر استوار ہوا تھا۔ آئین سازی کے مختلف مراحل میں وفاق اور وفاقی اکائیوں کے اختیارات پر بحث تو ہوتی رہی‘ لیکن 1947ء سے 1958ء تک، سیاسی ادوار میں صدارتی نظام کی بحث ہمیں تو کسی کتاب میں نظر نہیں آئی۔ پاکستان کے پہلے طالع آزما فیلڈ مارشل ایوب خان کا دور تھا‘ جب اس کا آغاز ہوا۔ جناب الطاف حسن قریشی تب پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے پولیٹیکل سائنس کے طالب علم تھے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کی مرتبہ ''الطافِ صحافت‘‘ میں انہوں نے لکھا ''اس مضمون کے فائنل امتحانات جون 1959ء میں ہوئے۔ اس سے پہلے ایوب خان کا مارشل لاء نافذ ہو چکا تھا۔ ہمارا ایک پرچہ اہم ملکوں کے دساتیر کے مطالعے پر مشتمل تھا‘ جس میں سوال آیا کہ آپ صدارتی نظام کے حق میں ہیں‘ یا پارلیمانی نظام کے؟ میں نے لکھا کہ پاکستان کے جغرافیے کے لیے پارلیمانی نظام حکومت ہی سازگار ہے جبکہ صدارتی نظام علیحدگی کے رجحانات کو ہوا دے گا۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ تمہارا امتحان میں فیل ہونا یقینی ہے، مگر نتیجہ آیا تو آغا ناصر اور میں یونیورسٹی میں اوّل آئے‘‘۔ جناب عارف نظامی کے بقول، صدارتی نظام کے حوالے سے الطاف صاحب کا یہ خدشہ 1971ء میں بنگلہ دیش کی صورت میں درست ثابت ہوا۔
وہ جو صدارتی نظام کو قومی امراض کے علاج کے لیے آبِ نشاط انگیز قرار دیتے ہیں، پارلیمانی نظام کے خلاف ان کا مقدمہ نیا نہیں۔ یہ بات بجا کہ ہر معاشرے کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے، لیکن اس دلیل سے اتفاق مشکل ہے کہ روایتی پارلیمانی نظام برطانیہ کو سازگار ہے، برصغیر کو نہیں... آبادی اور رقبے کے لحاظ سے برصغیر کا غالب حصہ آج کا بھارت ہے‘ جسے کبھی ''بھوکوں اور بھوتوں کا ملک‘‘ کہا جاتا تھا۔ آزاد بھارت کی بعض ریاستوں میں، علیحدگی کی زوردار تحریکیں بھی چلیں... لیکن اس حقیقت سے کیسے آنکھیں بند کر لیں کہ بھوکوں اور بھوتوں کا ملک آج اقتصادی لحاظ سے کہاں پہنچ چکا ہے؟ روایتی پارلیمانی نظام اگر بھوکوں اور بھوتوں کے ملک کو، جسے سالہا سال تک علیحدگی کی تحریکوں کا سامنا بھی رہا، سازگار ہے، تو پاکستان کے لیے ناسازگار کیوں؟ بھارتی پارلیمنٹ کے ایک تہائی سے زائد ارکان پر سنگین جرائم کے مقدمات ہیں‘ لیکن صدارتی نظام میں بھی قومی و صوبائی اسمبلیاں تو ہوتی ہیں، تب یہی لوگ منتخب ہو کر ان اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ (اپنے ہاں تو اس کے لیے آرٹیکل 62-63 کی چھلنی بھی موجود ہے)
یہ ''مزاج‘‘ والی بات بھی دلچسپ ہے۔ ایوب خاں کے صدارتی نظام میں صدر اور اسمبلیوں کا انتخاب براہِ راست بالغ رائے دہی کی بجائے بنیادی جمہوریت کے ارکان کے ذریعے ہوتا تھا۔ دلیل یہ دی جاتی کہ ابھی عوام کا سیاسی شعور اس سطح کو نہیں پہنچا کہ صدر اور ارکان اسمبلی کے انتخاب میں صحیح اور غلط کی تمیز کر سکیں۔ اس کے لیے ''بنیادی جمہوریت‘‘ کا تصور دیا گیا‘ جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کو چالیس، چالیس ہزار حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ عوام اپنے اپنے حلقے سے ایک ایک نمائندے کا انتخاب کرتے، پورے ملک سے یہ 80 ہزار ارکان صدر اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کرتے (نواب زادہ مرحوم ان ارکان پر ''سیاسی پنڈت‘‘ کی پھبتی کستے) ذات پات پر مبنی ہندو سماج میں تو ہر عاقل و بالغ کو پارلیمنٹ (اور ریاستی اسمبلیوں) کے انتخاب کا حق حاصل تھا‘ لیکن انسانی مساوات کا عظیم تصور رکھنے والے دین کے پیروکار اپنے حقِ وطن میں اس حق سے محروم تھے۔ جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل ایوب خاں کے مقابل مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے 9 نکاتی انتخابی منشور کا اہم ترین نکتہ براہِ راست بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر وفاقی پارلیمانی نظام تھا‘ جس میں مشرقی پاکستان کے عوام کو اپنی سیاسی محرومیوں کا ازالہ نظر آتا۔ مغربی پاکستان میں بھی مادرِ ملت کی مقبولیت کم نہ تھی‘ لیکن مشرقی پاکستان میں تو سیلِ بلا خیز کی کیفیت تھی۔ بد ترین ریاستی دھونس اور دھاندلی کے ذریعے مادرِ ملت کی شکست قومی اتحاد و یک جہتی پر ایک اور کاری وار تھا۔
پاکستان کا قیام اپنی نوعیت کا منفرد سیاسی تجربہ تھا، مسلم قومیت جس کی بنیاد تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ مشرقی بنگال، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور صوبہ سرحد آزاد ممالک تھے، جنہوں نے ایک معاہدے کے تحت پاکستان کو جنم دیا‘ لیکن پاکستان بن جانے کے بعد یہاں ''وفاقی اکائیوں‘‘ کی حقیقت موجود تھی۔ احساسِ محرومی کا شکار، غیر مطمئن وفاقی اکائیاں وفاق کی مضبوطی کا نہیں، کمزوری کا باعث بنتی ہیں۔
پارلیمانی نظام کے ساتھ 18ویں آئینی ترمیم بھی، بعض احباب کی تنقید کا ہدف ہے۔ 19 اپریل 2010ء کو صدر زرداری کے توثیقی دستخط کے ساتھ آئین کا حصہ بن جانے والی 18ویں ترمیم کو Mother of all amendments بھی کہا گیا کہ یہ آئین کی 102 شقوں کی تبدیلی کا ذریعہ بن گئی تھی۔ صدر زرداری اسے اپنے تاریخی کارنامے کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے؛ چنانچہ ایوان صدر میں عظیم الشان تقریب کا اہتمام کیا گیا‘ جس میں چاروں وزرا اعلیٰ، ارکان پارلیمنٹ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے عہدیدار بھی شریک ہوئے۔ اس میں اہم ترین چیز مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف کی شرکت تھی۔ فروری 2008 کے عام انتخابات سے شروع ہونے والا، آصف زرداری کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ کا ہنی مون چیف جسٹس افتخار چودھری والی (2 نومبر2007ء کی) اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے بعد ختم ہو چکا تھا۔ مسلم لیگ نے پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی نشستیں سنبھال لی تھیں (اب چودھریوں کی قاف لیگ یوسف رضا گیلانی کی کولیشن پارٹنر تھی) نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ میثاق جمہوریت کے مطابق مشرف دور کی17ویں ترمیم کے خاتمے کے لیے دبائو بڑھا رہی تھی (یہ جنرل ضیاء الحق والی 8ویں ترمیم کا چربہ تھی جس نے حکومت کی برطرفی، اسمبلی کی تحلیل اور سروس چیفس اور گورنروں کے تقرر کے صوابدیدی اختیارات کے ساتھ صدر کو ''آل پاور فل‘‘ بنا دیا تھا۔ تیسری بار وزارتِ عظمیٰ پر پابندی اس میں نیا اضافہ تھا (وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو صدر کا تابع مہمل بنا دینے والی 8ویں ترمیم، نواز شریف کے دوسرے دور میں پارلیمنٹ نے اتفاق رائے کے ساتھ ختم کر دی تھی۔)
پیپلز پارٹی (اور چھوٹے صوبوں کی جماعتوں) نے 17ویں ترمیم کو صوبائی خود مختاری کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ اس کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کی نمائندگی کے ساتھ خصوصی کمیٹی قائم کی گئی۔ جماعت اسلامی 2008 کے انتخابات کے بائیکاٹ کے باعث قومی اسمبلی سے باہر تھی لیکن سینیٹ میں موجود تھی۔ پارلیمانی کمیٹی میں اس کی نمائندگی سینیٹر پروفیسر خورشید احمدکر رہے تھے۔ سینیٹر رضا ربانی کی زیر قیادت کمیٹی 9 ماہ تک اس احتیاط کے ساتھ کام کرتی رہی کہ کسی کو ذرا سی بھنک بھی نہ پڑے۔ کمیٹی کی متفقہ سفارشات پر مبنی بل قومی اسمبلی نے 18 اپریل 2010ء کو، اور سینیٹ نے 15 اپریل کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا۔ اس سے پہلے نواز شریف نے اس میں 2 تبدیلیوں کی شرط رکھ دی تھی، صوبہ سرحد کے نئے نام ''پختونخوا ‘‘ کے ساتھ ''خیبر‘‘ کا اضافہ اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر میں، عدلیہ کے رول کو زیادہ مؤثر بنانے کا اہتمام۔ بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں صوبوں کو ایسے اختیارات بھی دیدیئے گئے جو ابھی ان کی Capacity سے بڑھ کر تھے۔ لیکن مضبوط مرکز کی حامی لابی کی طرف سے 18ویں ترمیم کے خلاف مہم وفاقی اکائیوں میں احتجاج کی نئی لہر دوڑا دے گی۔ کیا اس حقیقت کے ادراک کے لیے کسی غیر معمولی فہم و دانش کی ضرورت ہے کہ اقتصادی بحالی کے لیے بھی سیاسی استحکام بنیادی تقاضا ہے؟