ریاست بہاولپور کا شمار ہندوستان کی خوشحال مسلمان ریاستوں میں ہوتا تھا۔ نواب صاحب علم و ادب سے خصوصی شغف رکھتے اور علمی و ادبی شخصیات کی سرپرستی فرماتے۔ عوام دوستی اور انصاف پسندی بھی ان کی شخصیت (اور حکومت) کے اہم اجزا تھے۔ قائد اعظمؒ کا احترام اور تحریکِ پاکستان سے ہمدردی و دلچسپی بھی مسلمہ تھی۔ بہاولپور ان ''پرِنسلی سٹیٹس‘‘ میں شامل تھی جنہیں برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کا اختیار دیا گیا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی تمام تر تحریص و ترغیب کے باوجود نواب صاحب نے پاکستان کا ''انتخاب‘‘ کیا۔ تقسیم کے بعد دہلی نے پاکستان کے حصے کے اثاثے روک لئے تو پاکستان کی نوزائدہ مملکت کو سہارا دینے میں نواب آف بہاولپور کا کردار بہت اہم تھا۔ سرکاری محکموں کی پہلی تنخواہ کیلئے چیک شاید نواب صاحب نے ارسال کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم گورنر جنرل کا حلف اٹھانے کیلئے جس گاڑی میں تشریف لائے، وہ بھی نواب صاحب کا پاکستان کیلئے عطیہ تھی۔ نواب صاحب نے قیام پاکستان سے برسوں پہلے، ریاست کی آباد کاری کیلئے دیگر علاقوں کے مسلمانوں پر دروازے کھول دیئے تھے۔ تقسیم کے بعد مہاجرین کا خیر مقدم کیا۔
1954 میں مغربی پاکستان کے صوبوں اور ریاستوں کے ادغام سے ''ون یونٹ‘‘ کے قیام کا فیصلہ ہوا، تو بہاولپور کو اس کا حصہ بنانے میں نواب صاحب کو ذرا برابر ملال اور تامل نہ تھا۔ لیکن آج ہمارا موضوع ریاست بہاولپور نہیں، اس میں اپنا شہر ہارون آباد ہے۔ ستلج ویلی پراجیکٹ کے تحت نہروں کی کھدائی کے ساتھ ریاست میں ''آباد کاری‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا تو ہمارے بزرگ امرتسر سے ہارون آباد چلے آئے اور شہر سے ملحق چک نمبر71/4R کو مسکن بنایا۔ اپنی زیر ملکیت اراضی کو خون پسینے سے سینچ کر قابل کاشت بنایا اور تقسیم سے پانچ چھ سال قبل، یہاں کی مقامی لالیکا فیملی کو بیچ کر واپس امرتسر چلے گئے۔ تقسیم کے ساتھ پنجاب میں فسادات کی آگ بھڑکی تو انہوں نے امرتسر کے قریب لاہور کا رخ کرنے کی بجائے ہارون آباد کو جائے پناہ بنانے کا فیصلہ کیا (جہاں کچھ رشتے دار پہلے سے موجود تھے)۔
ہارون آباد، ریاست کے ایک دور افتادہ ضلع بہاولنگر کا قصبہ تھا (دیگر دو اضلاع، بہاولپور اور رحیم یار خاں تھے) ہم نے قیام پاکستان کے 6 سال بعد یہیں آنکھ کھولی اور جس ہارون آباد میں ہوش سنبھالا‘ اور بچپن سے لڑکپن اور پھر اوائل شباب کے ماہ و سال گزارے، وہ سابق ریاست (اور اب ڈویژن) بہاولپور کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ سرسبز دیہات کے درمیان اس چھوٹے سے شہر کی سڑکیں کشادہ تھیں، جن پر شیشم (ٹاہلی) کے درخت سایہ کئے رکھتے۔ نیم اور سرس (شرینہہ) کے درختوں کی بھی بہتات تھی۔ پیپل، بڑ، بیری اور کیکر کے درخت بھی کم نہ تھے۔ دیہات میں آم، مالٹے اور سنگترے کے باغات کا اپنا حسن تھا۔
شہر کی جامع مسجد، ریاست کی خوبصورت ترین مساجد میں سے ایک تھی‘ جسے ابتدا ہی میں جیّد آئمہ اور علما کی امامت اور خطابت کا شرف حاصل رہا۔ ان میں علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری بھی تھے‘ جو بعد میں کراچی چلے گئے (اور 1970ء میں جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے) ملتان سے علامہ احمد سعید کاظمی (مرحوم) خطبہ جمعہ کے لیے بطور خاص تشریف لاتے۔ ماڈل ٹائون لاہور والے مفتی غلام سرور قادری (مرحوم) بھی برسوں یہاں خدمات انجام دیتے رہے۔ ایک دور میں مولانا احمد دین درگاہی (مرحوم) بھی یہاں ہوتے تھے۔ وہ مبلّغ سے زیادہ ''مناظر‘‘ تھے۔ قرب و جوار کی دیوبندی اور اہل حدیث کی مساجد کے ساتھ لائوڈ سپیکروں پر خوب نوک جھونک رہتی، لیکن فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا یہ عالم کہ اہل حدیث مولوی صاحب کا انتقال ہوا، تو نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ ہارون آباد میں، ابتدائی برسوں میں اہل تشیع کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ وہ امام بارگاہ میں محرّم کی مجالس کا اہتمام کرتے اور دس محرم کو تعزیہ اہل سنت والے نکالتے۔ خود ہمارے ہاں اس روز ''کُجّیوں، ٹھوٹھیوں‘‘ کا خصوصی اہتمام کیا جاتا۔
علم و ادب کے حوالے سے بھی ہارون آباد خاص مقام کا حامل تھا۔ 1967ء سے قبل یہاں دو بوائز ہائی سکول اور ایک گرلز ہائی سکول تھا۔ لائبریری کے بغیر سکول کا تصور نہ تھا۔ ہم نے نسیم حجازی کے سارے ناول اپنے سکول کی لائبریری ہی سے لے کر پڑھ ڈالے تھے۔ سکول میں ہفتہ وار ''بزم ادب‘‘ بھی منعقد ہوتی۔ لڑکوں کے دونوں سکولوں میں مسابقت رہتی کہ کس کے بچوں نے ڈسٹرکٹ اور ڈویژن کی سطح پر ہونے والے ٹورنامنٹس، تقریری مقابلوں، مباحثوں اور امتحانات میں بہتر کارکردگی دکھائی۔ 1969ء میں ہمارا رضویہ اسلامیہ ہائی سکول، انٹر کالج ہو گیا،1969ء میں ''ڈگری‘‘ کا درجہ مل گیا۔ 1987ء میں یہ شہر سے باہر 15 ایکڑ اراضی پر منتقل ہو گیا۔ اب یہاں گرلز سٹوڈنٹس کے ساتھ پوسٹ گریجوایشن کی دو کلاسیں بھی ہیں۔ پرنسپل شاہد رشید اسے سجانے، سنوارنے میں مصروف ہیں۔ جہاں سرکاری فنڈز میں گنجائش نہیں ہوتی وہاں مخیر حضرات اور اپنے دوستوں کے ''عطیات‘‘ سے کام چلا لیتے ہیں۔ بے وسیلہ طالب علموں پر ان کی خصوصی عنایت رہتی ہے۔ اس سے پہلے پروفیسر ڈاکٹر عبدالخالق تنویر کی پرنسپل شپ کا دور بھی مثالی رہا۔ گرلز ہائی سکول بھی اب پوسٹ گریجوایٹ کالج ہے۔
شعروادب کے حوالے سے بھی یہاں کی سرزمین بہت زرخیز رہی۔ معروف اور ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمن (مرحوم) کا تعلق یہیں سے تھا۔ منفرد اسلوب کے حامل افسانہ نگار ذکاالرحمن بھی یہیں سے ابھرے۔ بہاولنگر کے عیش شاہجہانپوری قومی سطح پر معروف ہوئے۔ لاہور میں مقیم مقبول شاعر پروفیسر سعداللہ شاہ کا تعلق چشتیاں سے ہے، ان کے دادا حبیب تلونڈی نے نعت میں خاص شہرت پائی اور یہیں آسودۂ خاک ہیں ؎
ہر شعر میرا عشق نبیﷺ کا ہے شرارہ
ہر نعت میری مسجدِ نبوی کی اذاں ہے
میں نعت کا شاعر ہوں، مجھے فخر ہے اس پر
بازارِ سخن میں میری ہیروں کی دکاں ہے
ہمارے استاد محترم پروفیسر رائو مختار (مرحوم) بھی صاحبِ دیوان تھے۔ پروفیسر ریاض احمد شیخ اب لاہور میں ہوتے ہیں اور نعت گوئی میں اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ ان کے صاحبزادے ارسلان احمد ارسل سے بھی نعت گوئی کے حوالے سے خوشگوار تعلقات وابستہ ہیں۔
سیاسی شعور اور عملی سیاست کے حوالے سے بھی ہمارا شہر ڈویژن بھر میں ممتاز رہا ہے۔ ایک دور میں نواز شریف کی کچن کیبنٹ کے رکن عبدالستار لالیکا بھی یہیں سے تھے۔ (مشرف دور میں مرحوم، قاف لیگ کو پیارے ہو گئے) ان کے صاحبزادے میاں عالم داد لالیکا، دوسری بار مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ضلع بہاولنگر کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس بار بھی سخت مشکل حالات کے باوجود قومی اسمبلی کی تینوں نشستیں مسلم لیگ (ن) نے جیت لیں۔ چشتیاں والی نشست پر چودھری طاہر بشیر چیمہ (ق لیگ والے طارق بشیر چیمہ کے بھائی) الیکشن سے پہلے ن لیگ سے براستہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ پی ٹی آئی میں چلے گئے تھے۔ اب نواز شریف کے امیدوار نے انہیں چت کر دیا۔ ہارون آباد والی نشست پر اعجازالحق نون لیگ کے نورالحسن تنویر سے 20 ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے۔
گزشتہ ہفتے دو دن اپنے آبائی شہر میں گزارے تو اس شعر کی معنویت ایک بار پھر آشکار ہوئی۔ کشادہ گلیاں جن میں ہم کھیلا کرتے تھے، اور ہرے بھرے درختوں والی وسیع و عریض سڑکیں، سب کچھ ''کمرشل‘‘ ہو گیا ہے۔ شہر کے مضافات میں سرسبز زرعی زمینوں پر نئی بستیاں اُگ آئی ہیں، یہاں کے میرج ہال، لاہور کے شادی گھروں سے خوبصورتی میں کم نہیں۔ علاقے میں جنگل بھی معدوم ہو گئے۔ سڑکوں پر اور نہر کنارے ہمارے روایتی، سایہ دار اور ثمر بار درخت بھی کٹ کٹا گئے۔ البتہ نئی بستیوں میں چھوٹے بڑے گھروں کی خوبصورتی، علاقے میں نئی خوش حال کلاس کا پتہ دیتی ہے۔ اپنے رشتہ داروں کے علاوہ راؤ محمد طاہر، پروفیسر عبدالحق تاثیر، استاد محترم ڈاکٹر عبدالخالق تنویر، پروفیسر شاہد رشید اور شبیر انجم جیسے احباب کی محبت اور خلوص ہارون آباد سے رشتہ ٹوٹنے نہیں دیتی۔