وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر سیاسی سوچ کا مظاہرہ کیا (چاہے تو پولیٹیکل کرٹسی کہہ لیں)۔ انہیں اپوزیشن کو اس کا جائز کریڈٹ دینے میں کوئی تامل نہ تھا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ بات ان سے اینکر نے نہیں کہلوائی تھی، بلکہ اس کا ذکر انہوں نے خود کیا تھا۔ وزیر اعظم مودی کے پیدا کردہ جنگ کے سے ماحول میں کشمیر کے انٹرنیشنلائز ہونے کی بات ہو رہی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا: تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے بین الاقوامی تائید حاصل ہونے کا کریڈٹ سید مشاہد حسین کی زیر قیادت سینیٹ کی فارن افیئرز کمیٹی کو بھی جاتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے برٹش ارکانِ پارلیمنٹ سے ان کے حالیہ خطاب کا حوالہ دیا، جب موقع پر موجود سینیٹ کی فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین اور ارکان نے ان کی بھر پور حمایت کی تھی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کی شیری رحمن اور مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاالرحمن کا بطور خاص ذکر کیا۔ زیادہ دن نہیں گزرے، پلوامہ کے ساتھ ہی ایران میں بھی دہشت گردی کے واقعہ پر ایرانی قیادت کے رد عمل پر سید مشاہد حسین نے کہا تھا: ہمیں اپنے گھر کی طرف توجہ دینی چاہیے، جس پر ایک ذمہ دار وفاقی وزیر نے فرمایا تھا: ہندوستان امیگریشن کھول دے، تو ہمیں ان جیسوں سے نجات مل جائے (مطلب یہ کہ یہ حضرات ہندوستان چلے جائیں) اور سید مشاہد حسین کو یہ مشورہ بھی کہ وہ سینیٹ کے خرچ پر بیرونِ ملک سیر سپاٹا چھوڑ دیں۔
نوبیل امن انعام کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے ٹویٹ کے بعد، کیا وزیر اطلاعات و نشریات قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے اپنی قرارداد واپس لے لیں گے‘ جس میں حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں، جنگ کو ٹالنے اور خطے میں امن و سلامتی کا ماحول بنائے رکھنے کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے ان کے لیے نوبیل امن انعام کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اپنے ٹویٹ میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ خود کو نوبیل امن انعام کا مستحق نہیں سمجھتے، اس کا مستحق وہ ہو گا جو تنازعہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی امنگوں کی روشنی میں تلاش کرے گا اور برِصغیر میں انسانی ترقی اور امن کی راہ ہموار کرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ وزیر موصوف کی اس قرار داد کو خود وزیر اعظم صاحب کے مداح، تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں نے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ گزشتہ شب دنیا نیوز کے ''تھنک ٹینک‘‘ میں بھی اس قرار داد کو مذاق سا قرار دیا گیا۔ بزرگ سفارت کار ظفر ہلالی کی وزیر اعظم عمران خان کے لیے چاہت ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کے خیال میں یہ قرار داد ''چاپلوسی‘‘ سے زیادہ نہ تھی۔ ایوانِ اقتدار میں، مصاحبوں کی باہمی چپقلش پر نظر رکھنے والوں کے لیے، یہ قرار داد وزیر موصوف کی اپنی پوزیشن کو مضبوط تر کرنے کی حکمت عملی تھی۔ کہا جاتا ہے: پرائم منسٹر ہائوس میں، فواد چودھری کے حاسدین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو ان کے خلاف پرائم منسٹر کے کان بھر نے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ زیادہ دن نہیں ہوئے، جب شیخ رشید یہ کہتے سنے گئے کہ وزیر اعظم صاحب، فواد چودھری سے خوش نہیں، اور وہ شیخ صاحب سے یہ ذمہ داری سنبھالنے کا کہہ رہے ہیں۔ (شیخ صاحب، سٹیج پر موجود ایک صاحب سے یہ بات کہہ رہے تھے‘ انہیں وہاں موجود مائک اور کیمروں کا احساس نہ رہا) وزیر اعظم صاحب کے ہمدم دیرینہ نعیم الحق اور فواد چودھری میں منہ ماری بھی معمول بنتی جا رہی ہے۔ گزشتہ شب ایک ٹاک شو میں چودھری صاحب یاد دہانی کرا رہے تھے کہ پی ٹی آئی کے موجودہ منتخب ارکان (ایم این ایز اور ایم پی ایز) میں 70 فیصد وہ ہیں‘ جنہوں نے الیکشن سے سات، آٹھ ماہ پہلے پارٹی جوائن کی تھی... اور انہی منتخب ارکان کو سیاسی فیصلے کرنے کا حق ہے۔ وہ جو کبھی کونسلر بھی منتخب نہیں ہوئے (مطلب یہ کہ کونسلر بھی منتخب نہیں ہو سکتے) انہیں سیاسی مسائل پر اظہار خیال کا کیا حق ہے؟ وزیر اعظم صاحب کے اس (غیر منتخب) مشیر کی طرف سے گزشتہ روز وزیر اطلاعات پنجاب کو بھی نہایت غیر ذمہ دارانہ بیان پر سرزنش کا سامنا کرنا پڑا۔
انتہا پسند مودی کی طرف سے، خطے میں جنگ جیسی صورتِ حال پیدا کرنے پر، فیاض الحسن چوہان، پاکستان کے ہندو شہریوں پر چڑھ دوڑے۔ (ایک محبِ وطن اقلیت کے خلاف صوبائی وزیر اطلاعات جیسی ذمہ دار سرکاری شخصیت کے نہایت غیر ذمہ دارانہ اور دل آزار ریمارکس کا اعادہ بھی ممکن نہیں) چوہان صاحب کے اس بیان کو ''بکواس‘‘ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر انہیں سخت کارروائی کا مستحق قرار دے رہے تھے۔ آخری اطلاعات یہ ہیں کہ وزیر موصوف کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
وہ جو شر سے خیر برآمد ہونے کا محاورہ ہے، مودی کی حالیہ ''شر سگالی‘‘ کشمیر کے انٹرنیشنلائز ہونے کے خیر کا باعث بنی ہے۔ 3 جولائی 1972ء کے شملہ معاہدے میں، کشمیر کو عالمی تنازعہ کی بجائے، دو ملکوں کے مابین مسئلہ قرار دیا گیا تھا، جسے دونوں نے باہم پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا تھا۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان شملہ مذاکرات ایسے ماحول میں ہوئے‘ جب پاکستان ٹوٹ چکا تھا، 90 ہزار سے زائد اس کے قیدی ہندوستان کی تحویل میں تھے۔ شاید یہی کمزور پوزیشن تھی، جس کے باعث کشمیر کو ایک عالمی تنازعہ کی بجائے دو ملکوں کے درمیان مسئلہ قرار دینے کی کڑوی گولی بھٹو صاحب کو نگلنا پڑی (جسے دونوں ملکوں نے پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا تھا) شملہ معاہدے میں کشمیر کے دونوں حصوں میں سرحد کو ''سیز فائر لائن‘‘ کی بجائے ''کنٹرول لائن‘‘ کا نام دے دیا گیا (ظاہر ہے، اس کے اپنے معنی تھے) چنانچہ شملہ معاہدے کے بعد ایک لمبے عرصے تک پاکستان نے کشمیر کو کسی عالمی فورم پر نہ اٹھایا تھا۔ لاہور میں منعقد ہونے والے او آئی سی کے سربراہی اجلاس (1974) کے ایجنڈے میں بھی کشمیر نہیں تھا۔ سیکرٹری جنرل اوآئی سی تنکو عبدالرحمن کی تجویز پر یہ غیر معمولی اجلاس، 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ (اور اس میں عربوں کی طرف سے اسرائیل کے حامی مغربی ملکوں کو تیل کی فراہمی پر پابندی) کے بعد مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غور کے لیے بلایا گیا تھا۔
دسمبر 1979ء میں، سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف جنم لینے والا افعان جہاد، دنیا کے دیگر خطوں میں بھی ''استعمار‘‘ کے خلاف آزادی کی تحریکوں کو نیا ولولہ دینے کا باعث بنا (اور ''ام الجہاد‘‘ قرار پایا) مقبوضہ کشمیر میں بھی آزادی کی تحریک ایک نئی کروٹ کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی تھی‘ جس کے بعد کشمیر دو ملکوں کے درمیان تنازعہ نہ رہا۔ یو این جنرل اسمبلی کی سالانہ رپورٹ میں اسے ''فلیش پوائنٹ‘‘ قرار دیا جانے لگا۔ مئی 1998ء میں دونوں ملکوںکے ایٹمی دھماکوں نے اسے ''نیوکلیئر فلیش پوائنٹ‘‘ بنا دیا تھا۔ یو این جنرل اسمبلی کے علاوہ یورپی یونین، غیر وابستہ ممالک کی تنظیم اور کامن ویلتھ کے اجلاسوں کی قرار داد یں بھی، دنیا کو ایٹمی تباہ کاری سے بچانے کے لیے، اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے پر زور دے رہی تھیں۔ ستمبر 2013ء میں یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے (تیسری بار کے) منتخب وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب میں بنیادی فوکس کشمیر پر تھا۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے مفصل ذکر کے ساتھ یو این او کی قرار دادوں کے حوالے سے دنیا کو اس کی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کیا۔ (اس کے بعد اگلے روز بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ چائے پر ملاقات خطرے میں پڑ گئی تھی) یو این جنرل اسمبلی کے 2014ء کے اجلاس میں بھی وزیر اعظم پاکستان کے خطاب میں کشمیر بنیادی نکتہ تھا) وزیر اعظم مودی کا شکریہ! کہ انہوں نے ایک بار پھر کشمیر کو انٹر نیشنلائز کر دیا۔