بہار رُت کے آخری دن ہیں۔ شاعروں نے بہار کے مضمون کو سو، سو طرح سے باندھا ہے۔ تفصیل میں جائیں تو پورا کالم بھی کم پڑ جائے، تو کیوں نہ فیض کی شہرہ آفاق نظم پر ہی اکتفا کریں:
بہار آئی تو جیسے یک بار
لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے
بکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں
جو تیرے عشاق کا لہو ہیں
ابل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خمارِ آغوشِ مہ وشاں بھی
غبارِ خاطر کے باب سارے
ترے ہمارے
سوال سارے جواب سارے
بہار آئی تو کھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے
یہ بہار مسلم لیگ (ن) کے سیاسی چمن میں کئی پھول کھلا گئی۔ میاں نواز شریف کی ضمانت پر رہائی، حمزہ شہباز کے لیے انہی دنوں عدالتِ عالیہ سے تیسرا ریلیف، انٹرپول کا حسین نواز کے ریڈوارنٹ جاری کرنے سے انکار (کہ اس کے لیے حکومت پاکستان کے فراہم کردہ ''شواہد‘‘ قابلِ اعتبار نہیں) شہباز شریف کا ای سی ایل سے اخراج (جس کے بعد وہ حمزہ کی زیر علاج نوزائیدہ بیٹی اور سلمان کے نومولود بیٹے کو دیکھنے کے لیے لندن میں ہیں) اور اب حنیف عباسی کی ضمانت اور عمر قید کی سزا کی معطلی، تازہ پھول ہے، جس کی خوشبو شہر راولپنڈی کے غم زدوں کے لیے بطورِ خاص وجۂ قرار بنی۔ جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آ گئی، جیسے پیغامِ دیدارِ یار آ گیا۔
53 سالہ حنیف عباسی، ان سطور کی اشاعت تک لاہور کی کیمپ جیل سے رہا ہو چکا ہو گا۔ سنا ہے، پنڈی والے اپنے جیدار اور جانباز فرزند کے استقبال کو تاریخی بنانے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ حنیف عباسی 2002ء میں سیاست کے قومی افق پر ابھرا، جب اس نے راولپنڈی میں شیخ رشید کی خالی کردہ قومی اسمبلی کی نشست پر (ضمنی انتخاب میں) شیخ صاحب کے بھتیجے کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ یہ پنڈی والوں کا فرزندِ لال حویلی سے انتقام تھا۔ اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات میں وہ پنڈی میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر امیدوار تھا۔ شہر والوں کا موڈ بھانپ کر اس نے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے، لاہور کے بزرگ ایڈیٹر سے سفارش بھی کروائی، لیکن پنڈی کے مسلم لیگی کارکن اس شخص کا نام سننے کے بھی روادار نہ تھے، جس نے بیگم کلثوم نواز کی راولپنڈی آمد پر نہ صرف لال حویلی کے دروازے بند کر لیے بلکہ ان کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہ پا کر اس نے نئی حکمت عملی اختیار کی ''میں یہ دونوں سیٹیں جیت کر نواز شریف کے قدموں میں ڈال دوں گا‘‘ ، انتخابی مہم میں، اس کی کوئی تقریر ان الفاظ کے بغیر مکمل نہ ہوتی‘ لیکن اس نے یہ سیٹیں جنرل مشرف کے قدموں میں ڈال دیں۔ اپنے مینڈیٹ کی توہین کا بدلہ پنڈی کے شہریوں نے، ان کی چھوڑی ہوئی نشست پر ان کے بھتیجے کو حنیف عباسی کے ہاتھوں شکست دلا کر لے لیا۔ حنیف عباسی طلبہ سیاست میں، اسلامی جمعیت طلبہ کے سرگرم کارکن تھے۔ پھر قاضی صاحب کے ''پاسبانوں‘‘ کے ہراول دستے میں شامل ہوئے۔ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں ایم ایم اے کے ٹکٹ پر حصہ لیا (مسلم لیگ ن کی پُر جوش حمایت کے ساتھ وہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار تھے) فروری2008ء میں اس حلقے میں شیخ رشید کی ضمانت ضبط کرا دی (پنڈی کے دوسرے حلقے میں جاوید ہاشمی نے شیخ کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ بعد میں اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے شکیل اعوان کے ہاتھوں بھی شیخ اسی انجام سے دوچار ہوا۔ وہ ہر شام اپنی انتخابی مہم کا آغاز بے نظیر بھٹو کی جائے شہادت پر حاضری سے کرتا‘ لیکن پیپلز پارٹی کی بھرپور حمایت بھی کام نہ آئی)
2013ء کے الیکشن میں حنیف عباسی عمران خان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے، لیکن یہاں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر وہ اپنے امیدوار کو جتوانے میں کامیاب ہو گئے۔
2018ء کے عام انتخابات میں، عباسی نے اس نشست پر شیخ کا ناک میں دم کر رکھا تھا کہ الیکشن سے صرف چار روز پہلے 21 جولائی کی شب گیارہ بجے انسدادِ منشیات کی خصوصی عدالت سے عمر قید کی سزا کے مستحق ٹھہرے۔ ایفی ڈرین کے اس کیس میں باقی سات ملزم بے گناہ قرار پائے تھے۔
ہمیں اس موقع پر میاں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیکنگ کیس یاد آیا۔ 12 اکتوبر 1999ء کی سہ پہر کولمبو سے آنے والے طیارے کی ''ہائی جیکنگ‘‘ کا مقدمہ جس کے 198 مسافروں میں جنرل پرویز مشرف بھی شامل تھے‘ جنہیں (دورانِ پرواز ہی) وزیر اعظم اپنے آئینی اختیار کے تحت بر طرف کر چکے تھے۔ 12 اکتوبر کے ''ٹیک اوور‘‘ کے بعد معزول وزیر اعظم اس ''ہائی جیکنگ‘‘ کے بڑے ملزم قرار پائے، دیگر ملزموں میں میاں شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور سیف الرحمن کے علاوہ پرائم منسٹر کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی، آئی جی سندھ پولیس رانا مقبول اور سول ایوی ایشن کے سربراہ چودھری محمد امین شامل تھے۔ جج رحمت حسین جعفری پر مشتمل اینٹی ٹیررازم کورٹ نے کراچی میں کارروائی کا آغاز کیا۔ ایک ماہ سے زائد کی ''مکمل‘‘ قید تنہائی کے بعد (جس میں قیدی کو سورج کے طلوع اور غروب ہونے کا بھی احساس نہ ہوتا) نواز شریف کو پنڈی سے کراچی لایا گیا۔ ماڑی پور ایئر بیس سے عدالت تک کا سفر بکتر بند گاڑی میں ہوا۔ عدالت کے باہر اخبار نویسوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ انہی کی زبانی ''ملزم‘‘ کو ہائی جیکنگ کے الزام کا پتا چلا، جس پر اس کا کہنا تھا، یہ کیسی ہائی جیکنگ تھی، جس میں ہائی جیکر زمین پر تھا؟ یہ کیس تقریباً دو ماہ چلا، اس دوران میاں صاحب، دیگر ملزموں کے ساتھ کراچی کی لانڈھی جیل میں رہے (جہاں بڑے ملزم کے اعصاب کو توڑنے کے لیے ہائی وولٹیج والے بلبوں سمیت تمام حربے آزمائے گئے) کیس کی سماعت کے دوران میاں صاحب کے وکیل اقبال رعد اپنے چیمبر میں قتل کر دیئے گئے، (وہ سندھ ہائی کورٹ کے سابق ایڈووکیٹ جنرل تھے) سات اپریل 2000ء فیصلے کا دن تھا۔ باقی تمام ملزم بے گناہ قرار پائے (چودھری محمد امین وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے) ایک نواز شریف تھے جو عمر قید کے ساتھ، 30 لاکھ روپے جرمانے اور ان کی ملکیتی تمام جائیداد کی ضبطی کے مستحق ٹھہرے۔ اس کے ساتھ ہی سناٹا چھا گیا۔ ہر شخص دم بخود تھا۔ ایسے میں ایک بازو بلند ہوا اور اس کے ساتھ ایک نعرہ... ''پرویز مشرف مردہ باد...‘‘ یہ 26 سالہ مریم تھی... اور پھر عدالت کے اندر اور باہر ''نواز شریف زندہ باد‘‘ کے نعروں کی گونج تھی... جنرل مشرف کے نیشنل ایڈوائزر جاوید جبار کہہ رہے تھے: ہم اپیل میں جائیں گے اور حکومت مجرم کے لیے سزائے موت کے مطالبے کے ساتھ اپیل میں چلی گئی۔ تب مشرف کے گرد و پیش اس طرح کی سرگوشیاں سننے کو ملتیں، پنجابی لیڈر کی پھانسی سے قومی یک جہتی کا عمل آگے بڑھے گا کہ اس سے چھوٹے صوبوں کو پیغام جائے گا کہ پھانسی صرف چھوٹے صوبے کے لیڈر (ذوالفقار علی بھٹو) ہی کو نہیں ملتی۔
قاضی حسین احمد بتایا کرتے تھے کہ ریاض میں شاہ عبداللہ سے ملاقات میں نواز شریف کا ذکر چھڑا‘ تو شاہ نے کہا: ہمارے دوست کی گردن تلوار کے نیچے تھی اور ہم اسے نکال لائے...‘‘۔
طیارہ ہائی جیکنگ کیس کی طرح ایفی ڈرین کیس میں بھی صرف ایک ملزم (حنیف عباسی) مجرم قرار پایا، باقی تمام بے گناہ ٹھہرے... سات ماہ، 18 دن بعد حنیف عباسی لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے حکم پر ضمانت اور سزائے عمر قید کی معطلی کے مستحق قرار پائے۔ اس دوران اڈیالہ سے اٹک اور اٹک سے کیمپ جیل لاہور تک، ان پر اور ان کے اہل خانہ پر جو بیتی، اسے سہہ جانا، انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد۔