"RTC" (space) message & send to 7575

پھر وہی کنجِ قفس…

منگل، سات مئی، سپریم کورٹ سے ضمانت پر چھ ہفتے کی رہائی کا آخری دن تھا۔ محکمہ داخلہ کی طرف سے شام پانچ بجے تک کوٹ لکھپت جیل پہنچ جانے کی ہدایت پر رانا ثناء اللہ کا جواب تھا، رہائی شب بارہ بجے تک ہے تو پانچ بجے شام کیوں سرنڈر کریں۔
آج پہلا روزہ تھا، سورج کے تیور بدلے (بلکہ بگڑے) ہوئے تھے۔ دوپہر بہت گرم تھی۔ میاں صاحب کی خواہش تھی کہ مسلم لیگ (ن) متوالوں کو زحمت نہ دے۔ لیکن ادھر ''تمنا بے تاب‘‘ والا معاملہ تھا۔ احسن اقبال (کہ تنظیم نو میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل قرار پائے ہیں) ایک ٹاک شو میں کہہ رہے تھے کہ جلوس نکالنے کا ہمارا تو کوئی پروگرام نہیں، یہ عوام ہیں جو اپنے طور پر آئیں گے۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ اسے سیاسی طاقت کا مظاہرہ نہیں، عوام اور کارکنوں کی طرف سے اپنے قائد کے ساتھ محبت کا اظہار قرار دے رہی تھیں۔ مریم نواز کا کہنا تھا، بیٹی کا باپ کو جیل چھوڑنے جانا ایک کٹھن مرحلہ ہے، مگر میں جائوں گی۔ مسلم لیگ کی تنظیم نو میں ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ نائب صدور میں ایک مریم بھی ہیں جس پر صفِ دشمناں میں ہاہا کار کی کیفیت ہے۔ ایک نائب صدر حمزہ شہباز بھی ہیں، جیل کی جانب سفر میں تایا ابو کی گاڑی ڈرائیو کرنا ان کی خواہش تھی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ پندرہ مارچ 2009ء کو عدلیہ بحالی کے لانگ مارچ میں بھی وہی میاں صاحب کی گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔
جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے، یہ جیل میں میاں صاحب کا تیسرا ماہ صیام ہے۔ 1999ء میں پہلا رمضان تھا جو انہوں نے جیل میں گزارا تھا۔ یہ کراچی کی لانڈھی جیل تھی۔ 12 اکتوبر 1999ء کے ٹیک اوور کے بعد وہ ایک مہینے سے زائد قید تنہائی میں رہے تھے۔ نومبر میں کراچی کی اینٹی ٹیررازم کورٹ میں طیارہ ہائی جیکنگ کیس شروع ہوا تو انہیں لانڈھی جیل منتقل کر دیا گیا (9 دسمبر کو رمضان المبارک کا آغاز ہوا)۔ 7 اپریل2000ء کو اینٹی ٹیررازم کورٹ کے جج رحمت حسین جعفری نے انہیں عمر قید کی سزا سنا دی (تیس لاکھ روپے جرمانہ اس کے علاوہ تھا) جس کے بعد انہیں اٹک قلعے منتقل کر دیا گیا۔
اسی آمد و رفت کے دوران، یوں بھی ہوا کہ طیارے میں ان کے ہاتھ اور پائوں نشست کے ساتھ باندھ دیئے گئے۔ نواب زادہ (مرحوم) بتایا کرتے تھے کہ ایک میٹنگ میں انہوں نے اس پر احتجاج کیا تو ایک سینئر اخبار نویس نے (جو، اب اگلے جہاں پہنچ چکے) یہ جواز پیش کیا کہ یہ اہتمام ملزم/ مجرم کی سکیورٹی کے لیے کیا گیا تھا‘ جس پر بزرگ سیاست دان بھڑک اٹھے اور کہا: کیا اس نے اُڑتے ہوئے جہاز سے چھلانگ لگا دینی تھی؟ میاں صاحب ابھی اٹک قلعے ہی میں تھے، جب 27 نومبر 2000ء کو رمضان کا آغاز ہوا۔ 10 دسمبر کو چودھویں روزے وہ جلا وطنی کے سفر پر روانہ ہو گئے تھے۔ 
جلا وطنی کے ایام میں ان کا معمول تھا کہ نصف شب کے بعد بیگم صاحبہ (مرحومہ) کے ساتھ جدہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوتے۔ (سحری کا سامان ساتھ ہوتا) تہجد کے نوافل، پھر سحری اور نماز فجر کے بعد جدہ لوٹ آتے۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ مدینہ منورہ گزارتے۔ یہاں حرم کے ساتھ ہی ایک ہوٹل میں پورا فلور بُک ہوتا۔ مسجد نبوی میں افطاری کے بعد، ہوٹل میں ڈنر ہوتا۔ یہاں پاکستان سے آئے ہوئے دوست احباب بھی شریک ہوتے۔ مسجد نبوی میں نماز عید کے بعد واپسی، جہاں اگلے روز جدہ کے احباب کے ساتھ عید ملن پارٹی ہوتی۔
جنوری 2006ء میں میاں صاحب جدہ سے لندن چلے گئے۔ دس ستمبر2007ء کو وہ جلا وطنی کی پابندی توڑتے ہوئے لندن سے اسلام آباد پہنچے (چیف جسٹس افتحار محمد چودھری والی سپریم کورٹ جلا وطنی کے معاہدے کو کاغذ کا بے معنی ٹکڑا قرار دے چکی تھی)، لیکن انہیں ایئر پورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔ جہازکا رخ لندن کی بجائے جدہ کی طرف تھا۔
لیکن اب میاں صاحب کا قیام سرور پیلس کی بجائے ''الحمرا‘‘ میں حسین نواز کے قصرالشریف میں تھا۔ دوسرے ہی دن وزیر خارجہ سعود الفیصل اور سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ پرنس مقرن تشریف لائے۔ وہ شاہ عبداللہ کا پیغام لائے تھے۔ جنرل مشرف نے 10 ستمبر کو میاں صاحب کی دوسری جلا وطنی کے لیے شاہ عبداللہ کو اعتماد میں لینے کے لیے رابطہ کیا تو شاہ نے بے نظیر صاحبہ کی واپسی کا پوچھا جس پر مشرف نے انہیں یقین دلایا کہ وہ بھی واپس نہیں آئیں گی، جس پر شاہ نے واضح کر دیا کہ اگر محترمہ وطن واپس آئیں تو وہ نواز شریف کو بھی واپسی سے نہیں روکیں گے۔ رمضان المبارک کی چوتھی شب تھی، جب شاہ عبداللہ جدہ تشریف لائے اور نماز تراویح کے بعد، میزبان اور مہمان کی طویل ملاقات ہوئی۔ نومبر 2007ء میں وطن واپسی کے بعد نواز شریف کا رمضان المبارک کے آخری ایام مدینہ منورہ میں گزارنے کا معمول برقرار رہا۔
گزشتہ رمضان 2018ء میں ابھی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس والے ریفرنس کا فیصلہ نہیں آیا تھا (البتہ 28 جولائی 2017ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت وہ وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے ساتھ، عمر بھر کے لیے کسی سیاسی و انتخابی منصب کے لیے نا اہل قرار پا چکے تھے) 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے لیے انتخابی مہم جاری تھی۔ 21 مئی کو پانچواں روزہ تھا۔ اس روز گرمی بھی بلا کی تھی اور افطار سے پہلے ہمارے ضلع بہاول نگر کے شہر چشتیاں میں میاں نواز شریف کا جلسہ تھا (مریم نواز بھی ہمراہ تھیں) یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے طاہر بشر چیمہ، ''جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ کے راستے، تحریک انصاف میں شامل ہو چکے تھے۔ (طاہر چیمہ کے بھائی طارق بشیر چیمہ، مسلم لیگ (ق) کے کوٹے سے عمران خان کی کابینہ میں وزیر ہائوسنگ ہیں) الیکشن میں طاہر بشیر چیمہ کی صاحبزادی فاطمہ بشیر چیمہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی امید وار تھیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ اور بلا کی گرمی، لیکن نواز شریف کے جلسے کے لیے خلقِ خدا یوں امڈ کر آئی کہ یہ برسوں یاد رہنے والا پولیٹیکل ایونٹ بن گیا۔ اس ایک جلسے نے پورے ضلع کی سیاست کا رخ موڑ دیا اور ضلع بہاول نگر سے قومی اسمبلی کی تینوں نشستیں مسلم لیگ (ن) نے جیت لیں۔ چشتیاں سے احسان الحق باجوہ اور بہاول نگر سے عالم داد لالیکا ۔ سب سے دلچسپ صورت حال ہارون آباد والی سیٹ پر ہوئی۔ یہاں جنرل ضیاء الحق کے فرزند، ہمارے موڈی بھائی، اعجاز الحق کو مسلم لیگ (ن) کے نورالحسن تنویر نے ہرا دیا۔ (ضلع سے صوبائی اسمبلی کی چھ نشستیں بھی ن لیگ نے جیت لی تھیں)۔
نواز شریف پہلی بار 12 اکتوبر 1999ء سے 10 دسمبر 2000ء تک حوالۂ زنداں رہے۔ 6 جولائی 2018ء کو ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال قید کی سزا پائی (مریم کو سات سال اور کیپٹن صفدر کو ایک سال سزا ہوئی) تب باپ بیٹی، بیگم صاحبہ کی عیادت کے لیے لندن میں تھے اور اگلے ہی ہفتے خود کو قانون کے سپرد کرنے لاہور پہنچ گئے۔ گیارہ ستمبر کو بیگم صاحبہ کے انتقال پر، باپ بیٹی اڈیالہ جیل سے پیرول پر رہا ہوئے۔ 15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس والی سزا معطل کرتے ہوئے، ضمانت پر رہائی کا حکم دے دیا۔ 24 دسمبر کو نیب کورٹ نے ''العزیزیہ‘‘ میں سات سال کی سزا سنا دی۔ (اس کیس میں مریم نہیں تھیں) 26 مارچ کو سپریم کورٹ سے طبی وجوہات کی بنا پر ملنے والی 6 ہفتے کی رہائی کا آج آخری دن تھا۔ جس کے بعد پھر وہی کنجِ قفس، وہی تنہائی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں