''حکومت کرنا مشکل ہے یا اپوزیشن؟‘‘ اخبار نویس کے اس غیر متوقع سوال پر وزیر اعظم کے جواب میں کالم آرائی کے لیے خاصا سامان تھا۔ فرمایا، حکومت کرنا بہت آسان ہے۔ یہ ایک اور Slip of Tongue تھی، پُر اعتمادی کا اظہار تھا، حالات کی سنگینی سے لا علمی و بے پروائی تھی یا مزاح پیدا کرنے کی کوشش؟
وزیر اعظم کی شاید ہی کوئی تقریر، ریاستِ مدینہ کے ذکر کے بغیر ہوتی ہو اور اسی ریاستِ مدینہ کے امیرالمومنین نے فرمایا تھا، فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو عمرؓ اس کے لیے جواب دہ ہو گا۔ دمشق میں قحط کی خبر سنی تو خود بھی دو کی بجائے ایک روٹی پر آ گئے۔
وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد خان صاحب نے جو اعلانات فرمائے، ان میں ایک اعلان یہ بھی تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران ہفتے میں ایک دن (ترجیحاً وقفۂ سوالات میں) اپنی موجودگی کو یقینی بنایا کریں گے۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا ریکارڈ بلا شبہ شاندار رہا۔ ان کی چار سالہ وزارتِ عظمیٰ (2008-12) کے دوران، قومی اسمبلی یا سینیٹ کا شاید ہی کوئی اجلاس ہو، جس میں وہ غیر حاضر رہے ہوں (اِلاّ یہ کہ ملک میں موجود نہ ہوں) اس حوالے سے ہمارے میاں صاحب کا ریکارڈ بھی چنداں قابلِ رشک نہیں رہا۔ خیال تھا اور خود موجودہ وزیر اعظم کا دعویٰ بھی کہ وہ نئے پاکستان میں جو نئی قابلِ قدر مثالیں قائم کریں گے، ان میں پارلیمنٹ میں موجودگی کی مثال بھی ہو گی۔ لیکن کئی دوسرے وعدوں کی طرح (مثلاً پرائم منسٹر ہائوس کو یونیورسٹی بنانا، بیرونِ ملک کم سے کم دورے اور ان دوروں میں بھی خصوصی طیارے کی بجائے، معمول کی پرواز سے سفر) جناب وزیر اعظم کا پارلیمنٹ کو اہمیت دینے کا وعدہ بھی تشنۂ تکمیل ہی رہا۔ ادھر اپوزیشن کا یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا تھا کہ جناب وزیر اعظم ایوان میں تشریف لائیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات، اپنی مالیاتی ٹیم میں حالیہ تبدیلیوں سمیت اپنی اقتصادی پالیسیوں پر منتخب ایوان کو اعتماد میں لیں جنہوں نے قومی معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں۔ وزیر اعظم اس اجلاس میں پوری تیاری کے ساتھ شریک ہونا چاہتے تھے۔ اس کے لیے تحریکِ انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ اپوزیشن کی متوقع ہنگامہ آرائی اور جارحانہ رویے کے لیے جو ابی حکمت عملی وضع کی جا سکے‘ لیکن یہاں وزیر اعظم کو خود اپنے ہی بعض ارکان کے احتجاج کا سامنا تھا کہ منتخب نمائندوں پر اعتماد کی بجائے چالیس چالیس ہزار ووٹوں سے شکست کھانے والوں کو اہم حکومتی ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں (اشارہ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی طرف تھا۔ مشر ف کی 2002ء والی اسمبلی میں وہ قاف لیگ کے ووٹوں سے خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے ایک پر منتخب ہوئی تھیں۔ 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے ساتھ، سپیکر قومی اسمبلی چودھری امیر حسین کو شکست دی۔ 2013ء میں الیکشن کی صبح، خواجہ آصف کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار ہو گئیں اور 2018ء کے الیکشن میں سیالکوٹ NA72 سے مسلم لیگ (ن) کے ارمغان سبحانی کے 1,29,041 ووٹوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 91,393 ووٹ حاصل کر پائیں۔ منتخب نمائندوں پر غیر منتخب (بلکہ شکست خوردہ) لوگوں کو ترجیح دینے کے خلاف اس احتجاج کی تائید پارلیمانی پارٹی کے بیشتر ارکان نے ڈیسک بجا کر کی۔ ہمارے خیال میں سیاسی جماعتوں کے اندر خود احتسابی کا یہ رویہ جمہوری نظام کے لیے فالِ نیک ہے، جس کی تعریف اور تائید کی جانی چاہیے۔
قائدِ ایوان دو ماہ دس دن کے بعد ایوان میں تشریف لائے تھے۔ گزشتہ آمد 28 فروری کو ہوئی تھی (یہ ''پلواما‘‘ پر پیدا ہونے والی پاک بھارت سنگین کشیدگی پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تھا) 13 اگست کے افتتاحی اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کے 64 اجلاسوں میں یہ ان کی دسویں آمد تھی، جبکہ گزشتہ برس 17 اگست کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد ساتویں تشریف آوری۔ ٹی وی سکرینوں کے سامنے لاکھوں لوگ، غالب کے پرزے اڑنے کے انتظار میں تھے، پہ تماشا نہ ہوا۔ وزیر اعظم خوش قسمت نکلے کہ ان کی ایک گھنٹے کی موجودگی میں اپوزیشن نے Behave کیا۔ وہ خاموشی سے آئے اور تسبیح پڑھتے رہے۔ یہ Question Hour تھا اور اس دوران صرف راجہ پرویز اشرف (زرداری حکومت میں دوسرے وزیر اعظم ) تھے جنہوں نے وزیر اعظم کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں آج صبح داتا دربار پر ہونے والی دہشت گردی کے متعلق ایوان کو بریف کرنا چاہیے۔ ایک گھنٹے بعد وزیر اعظم تشریف لے جا رہے تھے، جب بعض اپوزیشن ارکان نے ''گو،گو‘‘ کے نعرے لگائے۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا‘ ہم نے اجلاس کی کارروائی اس لیے ہموار طریقے سے چلنے دی کہ وقفہ سوالات کے بعد، وزیر اعظم کے خطاب کی توقع تھی، ان کے بقول، خود پی ٹی آئی والوں کی طرف سے پیغام ملا تھا کہ وزیر اعظم، مہنگائی کی نئی لہر اور سٹیٹ بینک اور ایف بی آر میں نئی تقرریوں پر اپوزیشن کی تشویش کا جواب دیں گے (اور اپوزیشن نے اس پر اعتبار کر لیا تھا) لیکن وزیر اعظم نے اتنی جرأت نہیں دکھائی کہ اپوزیشن کے اس سوال کا جواب دے سکیں کہ مالیاتی شعبے میں اہم ترین تقرریاں، آئی ایم ایف کی ہدایات پر کیوں کی جا رہی ہیں؟ بلاول بھٹو زرداری بھی میڈیا سے کچھ اسی طر ح کی گفتگو کر رہے تھے۔
وزیر اعظم کی موجودگی کے پُر سکون لمحات کے سوا، ایوان کا ماحول روزانہ ہنگامہ خیز رہا اور اپوزیشن نے سرکار کو مسلسل سینگوں پر اٹھائے رکھا۔ ادھر جناب سپیکر کی ''حساسیت‘‘ کا یہ عالم کہ بلاول کی تقریر میں ''ظالم‘‘ اور ''منافقت‘‘ جیسے الفاظ بھی غیر پارلیمانی قرار دے کر حذف کر دیئے۔ مراد سعید نے حسبِ معمول ماحول کو خراب تر کرنے میں بھرپور حصہ ڈالا۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہیں کہ ماحول کو پُر امن رکھنے کی زیادہ ذمہ داری خود حکومت کی ہے اور یہ بھی کہ ہمیں ''بولنا‘‘ کم اور ''سننا‘‘ زیادہ چاہیے۔
ادھر سینیٹ میں وقفہ سوالات میں مسلم لیگ (ن) کے لیے بہت بڑی ''خبر‘‘ نکل آئی۔ اس کے میڈیا سیل نے جس سے بھرپور فائدہ اٹھایا (حاسدین اسے مریم نواز کا میڈیا سیل کہتے ہیں) جے یو آئی کے سینیٹر طلحہ محمود کے سوال پر ریونیو کے وزیر مملکت حماد اظہر کا جواب، مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت کے لیے سندِ توصیف سے کم نہ تھا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے مسلم لیگ (ن) پر ملک کو قرضوں میں ڈبو دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، لیکن وزیر مملکت حماد اظہر کے جواب میں تصویر کا دوسرا رخ بھی چمک رہا تھا جس کے مطابق گزشتہ حکومت نے 2013-14 سے 2017-18 تک (پانچ سال کے دوران) سال بہ سال جو غیر ملکی قرضے واپس کئے، ان کی کل مالیت 28 ارب ، 94 کروڑ،51 لاکھ ڈالر بنتی ہے۔
سات مئی کی شب، جاتی امرا سے کوٹ لکھپت جیل تک، ریلی نے مریم نواز کو ایک بار پھر قومی سیاست میں مسلم لیگ (ن) کی سینٹر سٹیج پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس سے دو دن قبل، مسلم لیگ (ن) کی تنظیم نو کی جو فہرست منظر عام پر آئی اس میں ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ نائب صدور میں، ایک مریم بھی تھیں (یہ پہلا موقع تھا کہ انہیں مسلم لیگ میں کوئی باقاعدہ عہدہ ملا) لیکن وہ جو کہا جاتا ہے، دشمن آپ کو، آپ سے زیادہ جانتا ہے تو مریم کے بارے میں بھی یہ بات غلط نہیں۔ مریم کی نائب صدارت کے خلاف پی ٹی آئی الیکشن کمیشن جا پہنچی ہے کہ (ایون فیلڈ ریفرنس میں) سزا یافتہ خاتون کی کسی سیاسی عہدے پر موجودگی خلافِ قانون ہے۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری جنرل کنور دلشادکا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت (اور سزا کی معطلی) کے بعد مریم کی پوزیشن ''مجرم‘‘ کی نہیں، ''ملزم‘‘ کی ہو گئی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ مریم کو (اپنے والد کے بیانیے والی) سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے کیا پارٹی میں کسی رسمی عہدے کی ضرورت ہے؟