منگل کے روز کالم شروع کر رہا تھا کہ 2 بج کر 5 منٹ پر لندن سے بریکنگ نیوز آ گئی، بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی گرفتاری کی خبر۔ سکاٹ لینڈ یارڈ نے تین گھنٹے قبل (تب لندن میں صبح کے سات بجے ہوں گے) انہیں نارتھ لندن والے گھر سے حراست میں لے لیا تھا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ گرفتاری 2016 میں کی گئی ایک نفرت انگیز تقریر (Hate Speech) پر عمل میں آئی۔ میاں صاحب کی تیسری حکومت میں، تب چودھری نثار علی خاں وزیر داخلہ تھے اور انہی کی وزارت نے لندن میں پاکستانی فارن آفس کے ذریعے حکومت برطانیہ کو اس حوالے سے شکایت بھجوائی تھی۔ یہ وہی تقریر تھی جس کے بعد ایم کیو ایم دو حصوں میں تقسیم ہو گئی کہ اب پاکستان میں الطاف حسین کی قیادت والی سیاست کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ ''ایم کیو ایم پاکستان‘‘ نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا تھا۔ تب اس کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار کر رہے تھے۔ مصطفیٰ کمال کی زیر قیادت ایک گروپ پہلے ہی پاک سرزمین پارٹی کے نام سے اپنی راہیں الگ کر چکا تھا۔
یاد آیا 1992 کے آپریشن کے دوران، آفاق احمد اور عامر خان کی زیر قیادت، ایم کیو ایم کے فعال نوجوانوں کے ایک گروپ نے ''حقیقی‘‘ کے نام سے الگ دھڑا بنا لیا تھا۔ 2002 کے الیکشن تک یہ اپنے وجود کا احساس دلاتا رہا۔ تب آخری بار اس کا ایک امیدوار قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا تھا۔ جیل سے رہائی کے بعد عامر خان نے ''حقیقی‘‘ سے ناتہ توڑ کر ''ایم کو ایم‘‘ سے وابستگی اختیار کر لی۔ 2018 کے الیکشن میں مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی کا تو صفایا ہو گیا؛ البتہ ''ایم کیو ایم پاکستان‘‘ کٹ ٹو سائز ہو کر قومی اسمبلی کے 6 ارکان تک محدود ہو گئی۔ یہ اپنے دو وفاقی وزرا فروغ نسیم اور خالد مقبول صدیقی کے ساتھ عمران خان حکومت کی کولیشن پارٹنر ہے۔ فروغ نسیم کے پاس تو وزارت قانون جیسا اہم پورٹ فولیو ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ایم کیو ایم کے وزرا کو اپنی کابینہ کے ''نفیس ترین‘‘ وزراء قرار دیتے ہیں (کابینہ کے باقی ارکان کے لیے قابلِ تقلید مثال)۔
الطاف حسین کی گرفتاری یقینا ایک چونکا دینے والی بات تھی؛ البتہ آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد حمزہ شہباز کا گرفتار ہو جانا یقینی نظر آ رہا تھا۔ سیاسی و صحافتی پنڈت عید کے بعد ہائی پروفائل گرفتاریوں کی خبر دے چکے تھے۔ سدا کے بد گمان، ہمارے بعض دوست اس موقع پر ایک ملاقات کی تفصیلات پر مبنی ایک کالم کا حوالہ بھی دیتے ہیں (اس حوالے سے پیش کی گئی ایک وضاحت کے مطابق کالم کی بعض باتیں سیاق و سباق سے ہٹ کر تھیں اور بعض باتوں کو جس طرح بیان کیا گیا، وہ اس طرح نہیں ہوئی تھیں۔ دوسری وضاحت کے مطابق فاضل کالم نگار سے کوئی ملاقات/ کوئی انٹرویو سرے سے ہوا ہی نہیں تھا)۔
الحمدللہ قدرت نے ہمیں بد ظنی کی لعنت سے بہت حد تک محفوظ رکھا اور خوش گمانی و خوش فہمی کی نعمت وافر مقدار میں عطا فرمائی ہے؛ چنانچہ دونوں وضاحتوں پر ہمارا معاملہ ایک شعر کے اس دوسرے مصرعے والا تھا، ''ہمیں یقین ہوا، ہم کو اعتبار آیا‘‘۔اس ملاقات سے جو باتیں منسوب کی گئی تھیں، اب اگر اسی طرح ہو رہا ہے، تو یہ ''اتفاق‘‘ (Co, incidence) بھی تو ہو سکتا ہے۔ مثلا آصف علی زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کی باتیں اور فریال تالپور کو خاتون ہونے کی وجہ سے رعایت مل جانے کا بیان۔
حمزہ کی یہ پہلی گرفتاری نہیں، وہ برسوں پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں بھی اسیری کا تجربہ کر چکے ہیں۔ یہ ان کا دورِ طالب علمی تھا جب میاں نواز شریف (تب قائد حزب اختلاف) کے سوا شریف فیملی کے سبھی افراد کے خلاف مقدمات درج تھے۔ حمزہ نے اسیری کے وہ ایام راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں گزارے۔ ان دنوں گجرات کے چودھری برادران بھی، نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ کا حصہ تھے اور اڈیالہ جیل میں زیر حراست تھے۔ انہوں نے جیل میں اپنے نوعمر بھتیجے کا خوب خیال رکھا۔ حمزہ نے بھی ہر طرح کی سختی کا بڑی ہمت سے مقابلہ کیا۔ ایک مرحلے پر اس کا کہنا تھا: فولاد کا کاروبار کرنے والے خاندان کا نوجوان ہوں اور آگ اگلتی ''بھٹیوں‘‘ کے درمیان جوان ہوا ہوں۔ اڈیالہ کی گرمی میرا کیا بگاڑ لے گی؟‘‘ انہی دنوں بڑے میاں صاحب (مرحوم) کو بھی گرفتار کرنے سے گریز نہ کیا گیا، یہ الگ بات کہ حکومت، اس پر مختلف حلقوں سے آنے والا دبائو برداشت نہ کر سکی اور دوتین دن کے بعد ہی انہیں رہا کرنے پر مجبور ہو گئی۔ شہباز شریف کمر کے علاج کے لیے لندن میں تھے۔ وہ بھی واپس آئے اور ایئرپورٹ سے سیدھا اڈیالہ پہنچا دیئے گئے۔
جہاں تک زرداری صاحب کا معاملہ ہے، جیل کو وہ اپنا دوسرا سسرال قرار دیتے ہیں۔ کچھ لوگ قسمت میں ''بدنامی‘‘ لکھوا کر لاتے ہیں، اور زرداری صاحب کو بھی آپ انہی میں شمار کر سکتے ہیں۔ان کی نجی اور سیاسی زندگی دکھ سکھ اور نشیب و فراز کے ''دلچسپ‘‘ مراحل سے بھرپور ہے۔ 18 دسمبر 1987 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے شریک سفر بنے۔ 26 جولائی 1955 کی تاریخ پیدائش کے ساتھ تب ان کی عمر ساڑھے 32 سال تھی۔ بے نظیر بھٹو ان سے دو سال بڑی تھیں۔ یہ سو فیصد ارینجڈ میرج تھی۔ دونوں نے جس کا کبھی خواب بھی نہ دیکھا تھا۔ وزیر اعظم جونیجو کی حکومت میں‘ ضیاالحق والی سختیاں باقی نہ تھیں اور پھر قسمت یوں مہربان ہوئی کہ سانحہ بہاولپور (17 اگست 1988) کے بعد بے نظیر بھٹو، پاکستان (بلکہ عالم اسلام) کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔ مختلف دیدہ و نادیدہ ''حدود و قیود‘‘ کے ساتھ محترمہ کا یہ عرصۂ اقتدار صرف 20 ماہ جاری رہا اور 6 اگست 1990 کو صدر غلام اسحاق خاں نے جنرل اسلم بیگ کی آشیرباد کے ساتھ انہیں گھر کی راہ دکھائی دی۔ یہی دور تھا، جب آصف زرداری کو ''مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کا خطاب ملا اور نگران وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کے قائم کردہ مقدمات ہی تھے جن کے باعث آنے والے پونے تین سال انہیں جیل میں گزارنا پڑے‘ لیکن 1990 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے تھے۔ سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خاں، کے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز پر، آصف علی زرداری لانڈھی جیل کراچی سے اسلام آباد لائے جاتے تھے۔ یہ وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے اپوزیشن کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے اور اعلیٰ جمہوری روایات کے فروغ کی خواہش کا عملی اظہار تھا۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نے قائد حزب اختلاف کو وفاقی وزیر کے برابر درجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی سفارت خانے بھی اسے وفاقی وزیر کا پروٹوکول دیتے۔
اسی دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو فارن افیئرز کمیٹی کا بلا مقابلہ چیئرمین بھی منتخب کیا گیا۔ اپریل 1993 میں نواز شریف حکومت کی برطرفی پر، بلخ شیر مزاری کی زیر قیادت عبوری حکومت قائم ہوئی، تو انہی صدر غلام اسحاق خاں نے (جن کے دور میں 1990 میں زرداری صاحب کے خلاف سنگین الزامات میں مقدمات بنائے گئے تھے) زرداری کو جیل سے بلا کر وزارت کا حلف لیا۔ نومبر 1996 میں اپنے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری کے ہاتھوں، محترمہ کی (دوسری) حکومت کی برطرفی آصف کے لیے آزمائشوں کا نیا دور تھا‘ جو جنرل پرویز مشرف دور میں 2004 میں ضمانت پر رہائی تک جاری رہا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد، آصف علی زرداری کے لئے سیاست کا نیا دور شروع ہوا‘ جس میں مملکت کے سب سے بڑے منصب کے 5 سال بھی تھے۔ وہ صدرِ مملکت رہے۔ زرداری صاحب پھر جیل میں ہیں۔ لیکن اب اعصابی لحاظ سے وہ پہلے والے زرداری نہیں۔ غالب کے الفاظ میں قویٰ مضمحل ہو چکے اور عناصر میں اعتدال نہیں۔ لیکن اب ان کے سیاسی وارث کے طور پر جواں سال بلاول موجود ہے اور اس کے دائیں بائیں، بختاور اور آصفہ بھی۔