"RTC" (space) message & send to 7575

سینیٹ میں ’’سیاسی تعویذ‘‘؟؟؟

جمعرات کی سہ پہر یہ سطور قلم بند کی جا رہی تھیں کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ آ گیا۔ اپوزیشن مطلوبہ 53 ووٹ حاصل نہ کر سکی اور 3 ووٹوں کی کمی سے ہار گئی۔ کارروائی شروع ہوئی تو 104 کے ایوان میں 100 ارکان موجود تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے اسحاق ڈار 2 سال سے لندن میں ہیں، چودھری تنویر احمد بھی ہارٹ سرجری کے باعث وہیں ہیں۔ جماعت اسلامی نے اس کارروائی میں ''غیر جانبدار‘‘ رہنے کا فیصلہ کیا تھا؛ چنانچہ اس کے دو سینیٹرز، امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق اور مشتاق خاں (ان کا تعلق بھی KPK سے ہے) ایوان میں موجود نہیں تھے۔ نمبر گیم واضح طور پر اپوزیشن کے حق میں تھی، لیکن شیخ رشید کے بقول حکومت کے پاس ''سیاسی تعویذ‘‘ بھی ہوتا ہے۔ اور اس تعویذ نے اپنا اثر دکھا دیا۔
اس دوران حکومت نے چیئرمین سنجرانی کو بچانے کیلئے پورا زور لگایا۔ اْدھر اپوزیشن کو صرف اپنے ''گھوڑوں‘‘ کی حفاظت کرنا تھی، ایک دن اسے قدرے ندامت کا سامنا ہوا، جب اس کے دو ارکان (جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا) چیئرمین صادق سنجرانی کے عشائیے میں پائے گئے۔ مسلم لیگ ان کی اس وضاحت پر مطمئن ہو گئی کہ عشائیے میں ان کی شرکت اس غلط فہمی کی بنا پر تھی کہ چیئرمین کی طرف سے یہ عشائیہ تمام ارکان کیلئے ہے۔ 
چیئرمین شپ کے لیے اپوزیشن کے امیدوار میر حاصل بزنجو بھی گزشتہ شب ایک ٹاک شو میں اعتراف کر رہے تھے کہ ہارس ٹریڈنگ یا ارکان پر کسی دیدہ و نادیدہ دبائو کی کوئی شکایت ان کے علم میں نہیں۔ گویا عدم اعتماد کے اس مرحلے پر ماحول مارچ 2018 میں سینیٹ (اور اس کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے) انتخاب والے ماحول سے مختلف تھا، جب امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق صاحب کے بقول پرویز خٹک نے انہیں صادق سنجرانی کو ووٹ دینے کیلئے کہا اور بتایا کہ وہ ''اوپر والوں‘‘ کی ہدایت پر یہ بات کہہ رہے ہیں۔ بعد میں پرویز خٹک نے وضاحت کی کہ ''اوپر والوں‘‘ سے ان کی مراد جناب عمران خان تھے۔
اپنے مطلوبہ ہدف کے لیے سیاسی کوشش ہر سیاسی جماعت کا حق ہے؛ چنانچہ اس کے لیے حکمران جماعت کو مولانا فضل الرحمن کے ہاں حاضری میں بھی کوئی عار نہ تھی۔ سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی زیر قیادت یہ وفد مولانا کے پاس اس درخواست کے ساتھ گیا کہ ایوان بالا کے وقار کی خاطر وہ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی واپسی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس سے ایک شب پہلے وزیر اعظم عمران خان واشنگٹن کے جلسۂ عام میں، نواز شریف اور زرداری کے کمروں سے اے سی اتروانے اور ٹی وی نکالنے کے علاوہ، مولانا فضل الرحمن کو جیل بھجوانے کا اعلان کر چکے تھے‘ لیکن مولانا نے اس کا حوالہ دینے کی بجائے شائستگی سے معذرت کر لی کہ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ تو خود ان کی زیر صدارت اپوزیشن کے اجلاس میں اتفاق رائے کے ساتھ ہوا تھا، اب وہ اسے واپس لینے کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں؟ (اسی سے ملتا جلتا جواب میر حاصل بزنجو کا تھا) یہ الگ بات کہ مولانا نے پشاور میں یوم سیاہ کے جلسے میں کہا کہ وہ مجھ سے صادق سنجرانی اور وزیر اعظم عمران خان کے لیے NRO مانگنے آئے تھے‘ لیکن میں نے انکار کر دیا۔ مولانا کے ہاں اس حاضری پر جناب وزیر اعظم کی طرف سے شبلی فراز اور وفد میں شامل پی ٹی آئی کے دیگر ارکان کی گوشمالی کی خبریں بھی آئیں۔ جس پر شبلی فراز کا موقف تھا کہ وہ کوئی درخواست لے کر نہیں، بلکہ مولانا کو انتباہ کرنے گئے تھے کہ وہ ہارس ٹریڈنگ سے باز رہیں۔ جبکہ وزیر اعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ چونکہ چیئرمین صادق سنجرانی کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے، اس لیے وہ اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کی طرف سے مولانا کو یہ احساس دلانے گئے تھے کہ سنجرانی کے خلاف کارروائی سے، بلوچستان کے احساسِ محرومی میں اضافہ ہو گا۔
''بلوچستان کارڈ‘‘ کو غیر موثر بنانے کے لیے اپوزیشن میر حاصل بزنجو کو لے آئی، یہ فیصلہ میاں نواز شریف کا تھا۔ صادق سنجرانی کی جگہ نئے چیئرمین کے لیے، اپوزیشن نے تین نام میاں صاحب کو بھجوائے تھے، راجہ ظفرالحق، سردار یعقوب ناصر اور میر حاصل بزنجو۔ یعقوب ناصر کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے، میاں نواز شریف اور مسلم لیگ سے ان کی وابستگی دیرینہ ہے۔ وہ میاں صاحب کی 1997ء والی کابینہ میں بلوچستان سے واحد وزیر تھے۔ کابینہ میں ردوبدل کی زد میں وہ بھی آ گئے۔ جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس پر میاں صاحب سے ''احتجاج‘‘ کیا‘ لیکن خود یعقوب ناصر کو اس پر ذرہ برابر ملال نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا، میاں صاحب ہمارے کپتان ہیں، اور اپنی ٹیم میں ردوبدل کا اختیار رکھتے ہیں۔ ''بلوچستان کارڈ‘‘ کے پیش نظر میاں صاحب چیئرمین سینیٹ کے لیے یعقوب ناصر کو بھی تجویز کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے بلوچ نیشنلسٹ میر حاصل بزنجو کے حق میں فیصلہ دیا۔
پنجاب سے شکایات کے خاتمے اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے چھوٹے صوبوں کے نیشنلسٹوں کی دل جوئی، نواز شریف کی سیاست کا ہمیشہ اہم نکتہ رہی ہے۔ اپنی پہلی دونوں حکومتوں میں ولی خان (مرحوم) اور ان کی اے این پی سے میاں صاحب اور مسلم لیگ کے تعلقات نہایت خوشگوار رہے۔ بلوچستان میں محمود خان اچکزئی کو پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور، میر حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی کے ساتھ بھی ان کے تعلقات ''دوستانہ‘‘ سے بھی بڑھ کر ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد انہوں نے بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ کے پہلے اڑھائی سال، بزنجو صاحب کی نیشنل پارٹی کو دے دیئے (وزیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد مالک) حالانکہ بلوچستان میں سنگل لارجسٹ پارٹی مسلم لیگ (ن) تھی اور گورنرشپ محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو دے دی (جو ایوان میں دوسرے نمبر پر تھی) سردار عطااللہ مینگل کی بی این پی کے ساتھ بھی میاں صاحب کا یارانہ رہا۔ 1997ء میں سردار اختر مینگل مسلم لیگ (ن) کی حمایت کے ساتھ وزیر اعلیٰ بنے، یہ الگ بات کہ خود بلوچستان کے بعض مسلم لیگیوں کی ''بغاوت‘‘ کے باعث، وہ پانچ سالہ مدت پوری نہ کر سکے، جس کا میاں صاحب کو افسوس رہا۔ اب بھی بی این پی (مینگل) سے مسلم لیگ (ن) کی معقول ورکنگ ریلیشن شپ موجود ہے۔ مارچ 2018ء میں چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں بی این پی نے بلوچستان کے صادق سنجرانی کی بجائے، مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفرالحق کی حمایت کی تھی۔
بلوچستان میں حکمران، بلوچستان عوامی پارٹی جولائی 2018 کے انتخابات میں ایک نوزائیدہ پارٹی تھی۔ اس کے قیام کے حوالے سے ایک دلچسپ کہانی، بلوچستان قاف لیگ کے صدر جعفر خان مندوخیل کے حالیہ انٹرویو میں سامنے آئی۔ قاف لیگ کے ارکان اسمبلی کی بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ چند دوست چھائوں کی تلاش میں اْدھر (BAP میں) چلے گئے۔ انہیں گن پوائنٹ پر شامل کرایا گیا تھا‘ میں نے مزاحمت کی‘ جس کی سزا بھگت رہا ہوں۔ (جعفر خاں مندوخیل 1993ء میں پہلی بار آزاد امیدوار کے طور پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ جس کے بعد وہ ناقابلِ شکست رہے، جولائی 2018 میں پہلی بار شکست کھائی) ان کے بقول دوستوں نے پیشگی بتا دیا تھا کہ اس بار آپ کو ہروا دیا جائے گا۔ BAP کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کے قیام میں ان کے دیرینہ دوستوں کا سیاسی تجربہ اور بھاگ دوڑ ضرور شامل تھی‘ لیکن اسے بنایا کسی اور نے۔
پس نوشت: احباب میں بعض خوش قسمت فریضۂ حج کی سعادت کے لیے سرزمین حرمین پہنچ چکے، ایس ایم ایس اور واٹس ایپ وغیرہ پر ان سے رابطہ رہتا ہے۔ ان میں ڈاکٹر حافظ محمد اشرف بھی ہیں۔ برسوں والٹن سول سروس اکیڈمی میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، یوں موجودہ بیوروکریٹس میں خاصی بڑی تعداد ان کے شاگردوں کی ہے۔ اپنے تازہ واٹس ایپ میں لکھا: ''واٹس ایپ پر آپ کے کالم کی موصولی، آپ کی یاد اور حرم میں آپ کے لیے دعا کا باعث ہوتی ہے۔ آپ کا تازہ کالم ''میرے ہاتھ میں قلم ہے‘‘ بیت اللہ میں پڑھا اور اسی وقت آپ کے لیے، بالخصوص مرحومہ بہن کے لیے دعا کی۔ اللہ حافظ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں