اس بات میں کتنا مبالغہ ہو گا؟ زیادہ سے زیادہ ایک، آدھ فیصد کہ 1971ء کے سانحہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد، پاکستان کو اپنی تاریخ کے ایک اور سنگین ترین چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ صورتِ حال ایک بار پھر مثالی قومی اتحاد اور ملی یک جہتی کی متقاضی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے خلاف نریندر مودی کی تازہ جارحیت پر ایک ردِ عمل پاک فوج کی کورکمانڈرز کانفرنس میں سامنے آیا، کچھ فیصلے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں ہوئے۔ 22 کروڑ پاکستانی عوام کے اجتماعی مؤقف کی ایک صورت پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کی قرارداد کی تھی۔ یہاںبعض مواقع پر ہونے والی نوک جھونک میں ہمارے خیال میں تشویش کی کوئی بات نہیں تھی۔ ایک کثیر جماعتی پارلیمان میں اس طرح کے ''بحث مباحثے‘‘ کو معمول کی کارروائی کے طور پر لینا چاہیے۔ اصل چیز قومی جذبات و احساسات کی مظہر متفقہ قرارداد تھی۔ قومی تاریخ کے اس نازک مرحلے پر ملی یکجہتی کے اس ماحول کے تادیر قائم رہنے کی ضرورت تھی لیکن بدقسمتی سے دیکھتے ہی دیکھتے یہ شبنم کے قطروں کی طرح بخارات بن کر اڑ گیا۔
اپوزیشن پر غداری اور قومی مفادات سے روگردانی کے الزامات، اپنی تاریخ کی دیرینہ روایت ہے، (پھر ان میں ''کرپشن‘‘ کا بھی اضافہ ہو گیا) لیکن جب بھی قومی مفاد کا تقاضا ہوا، اپوزیشن کو لبیک کہنے میں کوئی عار نہ تھی۔
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے۔
جنگ ستمبر1965 کی مثال اس کالم میں ایک سے زائد بار بیان کی جا چکی۔ 2 جنوری 1965کے صدارتی انتخاب میں، مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی شکست کے لیے ہر حربہ اور ہتھکنڈا روا رکھا گیا تھا۔ نواب زادہ (مرحوم) کے بقول جس کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان اور اپوزیشن لیڈر ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہ تھے (مادرِ ملت کے غصے کا تو یہ عالم تھا کہ انہوں نے ''نومنتخب‘‘ صدر، ایوب خان کی حکومت کو مسترد کرکے ''متوازی‘‘ حکومت کے اعلان کی تجویز بھی پیش کردی تھی) 6ستمبر کو ہندوستانی حملے کے بعد ایوب خان نے اپوزیشن کو اعتماد میں لینے اور ان کا تعاون حاصل کرنے میں لمحہ بھر تاخیر نہ کی۔ ان کے خیال میں قومی سلامتی کا معاملہ ذاتی انا (پرسنل ایگو) سے کہیں بڑھ کر تھا۔ ادھر اپوزیشن بھی اسی جذبے سے سرشار تھی۔ اگلے ہی روز ایوب خان ایوانِ صدر میں اپوزیشن رہنمائوں نواب زادہ نصراللہ خاں، سید ابوالاعلیٰ مودودی، چودھری محمد علی اور چودھری غلام عباس کا خیر مقدم کررہے تھے۔ جنگ کے باعث مشرقی اور مغربی پاکستان میں فضائی رابطہ معطل تھا؛ چنانچہ مشرقی پاکستان کی اپوزیشن لیڈرشپ ڈھاکہ کے گورنرہائوس میں موجود تھی۔ عظیم تر قومی مفاد کے لیے بدترین سیاسی مخالفت اور سنگین ترین کشیدگی کو بالائے طاق رکھ دینے کی ایک اور مثال: بھٹو صاحب جنگی قیدیوں کی رہائی سمیت 1971کی جنگ کے مسائل پر اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لیے شملہ روانہ ہوئے، تو جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد بھی انہیں الوداع کہنے کے لیے لاہور ایئرپورٹ پر موجود تھے۔
پاکستان کی موجودہ اپوزیشن قیادت نے بھی، ماضی کی شاندار روایات کا تسلسل قائم رکھا۔ اس نے ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لیے ''میثاقِ معیشت‘‘ کی فراخدلانہ تجویز پیش کی اور جواب میں ''NRO مانگ رہے ہیں‘‘ کا طعنہ سن کر بھی بدمزہ نہ ہوئی۔
اب مقبوضہ جموں وکشمیر کے خلاف مودی کی تازہ جارحیت پربھی اس کا رویہ ایک ذمہ دار اور قومی تقاضوں کا احساس اور ادراک رکھنے والی سیاسی قیادت کا تھا۔ لیکن اُدھر فریقِ ثانی کا رویہ کیاتھا؟ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کایہ دوسرا دن تھا جب مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسماعیل کو گرفتار کرلیا گیا، وہ ایل این جی کیس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ''شریک ملزم‘‘ ہیں۔ اس پر پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خاں کا معصومانہ سا جواب تھا کہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے، اس کی کارروائیوں اور اس کے فیصلوں سے حکومت کا کیا تعلق؟ لیکن اسی سہ پہر جب مشترکہ اجلاس کی قرارداد کی نوک پلک سنواری جارہی تھی، وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب جناب شہزاد اکبر ایک پریس کانفرنس میں نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف ایک نئے ریفرنس (چودھری شوگر ملز) کی تیاری کی نوید دے رہے تھے۔
اگلے روز پارلیمان کی متفقہ قرارداد کی بازگشت ابھی ماند نہیں پڑی تھی کہ حکومت اور اپوزیشن میں کشیدگی کلائمیکس کو پہنچ گئی۔ یہ جمعرات کو کوٹ لکھپت جیل میں قیدی نوازشریف سے اہل خانہ کی ہفتہ وار ملاقات کا دن تھا‘ اور اسی روز مریم نواز کو چودھری شوگر ملز میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے جوابات کے لیے نیب کے صوبائی ہیڈ کوارٹر طلب کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے، مریم نے اس روز حاضری سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے، اس کے لیے کوئی اور تاریخ دینے کی درخواست کی تھی۔ نیب کو یہ درخواست منظور نہ تھی تو تین بجے سہ پہر تک انتظار کرلیا ہوتا۔ انہوں نے حاضری سے معذوری کا اظہار کیا، تو انہیں کوٹ لکھپت جیل سے گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور چیئرمین نیب کے جاری کردہ وارنٹ کے ساتھ نیب کی ٹیم کوٹ لکھپت پہنچ گئی، جہاں مریم اپنے والد سے ملاقات کر رہی تھیں۔ مریم کی چھوٹی صاحبزادی ماہ نور، بیٹا جنید اور کزن یوسف عباس بھی موجود تھے۔ شہباز شریف ہفتہ وار ملاقات کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس چھوڑ کر آئے تھے۔ کہا جاتا ہے، نیب حکام لیڈی اہلکار کے ساتھ ملاقات کے اس کمرے میں پہنچے اور مریم کو گرفتاری دینے کے لیے کہا۔ مریم کے ''مطالبے‘‘ پر انہیں وارنٹ گرفتاری بھی دکھا دیئے گئے۔ مریم کا اگلا سوال تھا کہ وہ انکوائری میں تعاون کررہی ہیں، تو اس گرفتاری کا کیا جواز؟ لیکن نیب ٹیم، ملزمہ کے ہر سوال کا جواب دینے کی پابند تو نہیں تھی... نیب کے صوبائی ہیڈکوارٹر میں، خواتین ملزمان کے لیے کوئی سیل نہیں؛ چنانچہ مریم کے لیے ''ڈے کیئر سنٹر‘‘ میں انتظام کردیا گیا۔ یوسف عباس کے لیے مردانہ حصے میں حمزہ شہباز کے سیل سے اگلا سیل مخصوص تھا۔ اسی روز مرحوم عباس شریف کے دوسرے صاحبزادے (اسی کیس میں شریک ملزم) عزیز عباس کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپہ مارا گیا، لیکن وہ ہاتھ نہ آئے۔ ادھر شہباز شریف کی رہائش گاہ 96-H ماڈل ٹائون پر بھی چھاپہ مار ٹیم پہنچی، وہ ان ملزمان کی گرفتاری کے لیے گئی تھی جنہوں نے کچھ عرصہ قبل حمزہ شہباز کی گرفتاری میں مزاحمت کی تھی۔
مریم کی گرفتاری نے سارا منظر، سارا فوکس بدل دیا تھا۔ اب مودی کی جارحیت کی بجائے، تبصروں اور تجزیوں کا موضوع یہ گرفتاری تھی۔ اس پر ہر نوع کا تبصرہ اور تجزیہ ہوچکا۔ یہ کارروائی ناگزیر تھی تو کیا اسے کچھ دنوں کے لیے ملتوی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ قومی اتحاد ویک جہتی کی فضا متاثر نہ ہوتی۔ مریم کی سرگرمیاں قومی مفاد کے لیے خطرہ بن رہی تھیں تو انہیں محترمہ فریال تالپور کی طرح گھر پر بھی تو نظر بند کیا جاسکتاتھا۔
کہا جاتا ہے، مریم نے گرفتاری سے ایک دن قبل سرگودھا میں اپنے جلسے کو کشمیر ریلی کا نام دے دیا تھا، جہاں اس نے کشمیری بہن بھائیوں کی بھرپور حمایت کے ساتھ، وزیر اعظم پر کشمیر کو Sell out کرنے کا الزام بھی لگا دیا تھا۔ انہیں 15 اگست کو مظفرآباد بھی جانا تھا۔وہ آخری بار 5 فروری 2018 کو میاں نوازشریف کے ساتھ مظفر آباد گئی تھیں۔ میاں صاحب سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد نیب کورٹس میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس، فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنسز کا سامنا کر رہے تھے۔ مظفر آباد میں، میاں صاحب نے ایک عجیب فیصلہ کیا جو مریم کے لیے بھی غیر متوقع تھا، میاں صاحب کے بعد مریم کے خطاب کا فیصلہ۔ تو کیا یہ اس امر کا اشارہ تھا کہ قومی سیاست میںان کے بعد مریم ہوں گی۔ اپنے خطاب میں مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں سے مریم کا کہنا تھا آپ کے جسموں پر لگنے والے زخم، ہمارے دلوں پر بھی لگتے ہیں۔ نوازشریف کی بیٹی ہونے کے ناتے میری رگوں میں بھی کشمیری خون ہے۔ آج ہم آزاد کشمیر میں آزادی کا دن منا رہے ہیں۔ ان شاء اللہ وہ دن بھی آئے گا جب ہم سری نگر میں غلامی سے نجات کا دن بھی منائیں گے۔ وقت بدل چکا، اب بندوقوں سے آزادی کی آواز کو نہیں دبایا جا سکتا۔
میاں نوازشریف کے بعد مریم کا خطاب بھی لوگوں نے اسی توجہ اور اسی جوش وخروش سے سنا۔ کوئی ایک آدمی بھی اٹھ کر نہیں گیاتھا۔ نوازشریف کے اس یقین میں اضافہ ہوگیا تھا کہ ان کے بعد، مریم کی آواز بھی لوگ اسی طرح سنیں گے۔