آئیے آج ماضی کی سیر کرتے ہیں۔ گزرے دور کے ایک باب پر نظر ڈالتے ہیں۔ ان واقعات میں جھانکتے ہیں جو صدر جنرل ضیا الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے مابین پیدا ہونے اور بڑھنے والے اختلافات کا باعث بنے اور جو آج تاریخ کا حصہ ہیں۔
صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے 7 اپریل 1988 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک بار پھر یاددہانی کرا دی تھی کہ ''میں نہ ایوب خان ہوں نہ فضل الٰہی چودھری، نہ امریکی صدر ہوں، نہ ملکہ برطانیہ۔ اس وقت پاکستان کو جو صدردستیاب ہے، وہ اپنے حالات کا پیدا کردہ ہے‘‘۔
محمد خان جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ میں جو نظام چل رہا تھا، صدر جنرل ضیاء الحق متعدد بار اس پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار کر چکے تھے۔ انہوں نے اپنی یہ رائے چھپانے کی ضرورت کبھی محسوس نہ کی کہ پارلیمانی جمہوری نظام، غیروں کا نظام ہے، اور یہ وہ پودا جس کے لیے ہماری سرزمین اور آب و ہوا ساز گار نہیں۔ اس وقت صدر اور وزیر اعظم کے مابین ابھرنے والے تضادات اور اختلافات ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ تب بعض سیاست دان (اور خاص طور پر نواب زادہ نصر اللہ خان) کھل کر یہ کہنے لگے تھے کہ جنرل ضیاء الحق اس لولی لنگڑی جمہوریت سے بھی نجات کی فکر میں ہیں۔ لیکن یہ خیال خاصا محال نظر آتا تھا کہ صدر اس پودے کو یوں اچانک اکھاڑ پھینکیں گے جس کے متعلق وہ بڑے فخر سے کہتے رہے تھے کہ وہ اسے اپنے خون جگر سے سینچ رہے ہیں۔ 7 اپریل کے خطاب میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ برطانوی حکومت کو ملکہ کی سند کی ضرورت ہو تو ہو لیکن ہماری حکومت کو صدر کی سند یا ضیاء الحق کے ٹھپہ کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کا صدر ''ماسٹر آف سچوایشن‘‘ ہے، نہ ''ہز ماسٹرز وائس‘‘ تاہم انہوں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ موجودہ صدر آئینی سربراہ کے علاوہ نظام دہندہ اور اس نظام کا محافظ اور نگران بھی ہے۔
صدر جنرل ضیاء الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے اپنے اپنے ''حلقہ انتخاب‘‘ تھے؛ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مابین اختلافات و تضادات کا ابھرنا فطری تھا۔ غیر جماعتی انتخابات سے قائم ہونے والے ''سول نظام‘‘ کے حوالے سے صدر کے اپنے تصورات اور اپنی خواہشات تھیں جو فروری 85 میں اسمبلیوںکے قیام کے کچھ ہی دنوں بعد مجروح ہونا شروع ہو گئی تھیں۔
قومی اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو خواجہ محمد صفدر صدر ضیاء الحق کے امیدوار تھے، لیکن ارکان قومی اسمبلی‘ جنہیں باہر بیٹھی ہوئی اپوزیشن ''ربڑ کی مہریں‘‘ اور ''ریت کی بوریاں‘‘ قرار دے رہی تھی، اپنی آزادی و خود مختاری کے اظہار پر تل گئے اور جناب صدر کے امیدوار خواجہ صفدر (جو ان کی شوریٰ کے چیئرمین بھی رہے تھے) نوجوان فخر امام کے ہاتھوں ہار گئے۔ یہ پہلا صدمہ تھا، جو صدر کو اس اسمبلی کے ہاتھوں اٹھانا پڑا۔ صدر نے انتخابات غیر جماعتی کروائے تھے۔ وہ اس بارے میں اپنا ایک الگ فلسفہ بھی رکھتے تھے لیکن بنیادی سوچ یہ تھی کہ ایک غیر جماعتی ایوان کو وہ بہ آسانی اپنی پسند کے مطابق چلا سکیں گے لیکن وزیر اعظم نے اسے جماعتی ایوان بنا دیا اور اس طرح صدر کے غیر جماعتی فلسفے کی نفی ہو گئی۔
پھر پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں فلور کراسنگ پر پابندی کی شق نے جماعتی ایوان میں، جناب جونیجو کو ایک طاقت ور وزیر اعظم بننے میں خاصی مدد دی۔ جنرل مجیب الرحمن کی وزارت اطلاعات کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے علیحدگی کو بھی سول وزیر اعظم کی پیش رفت اور جناب صدر کے ''رفقائ'' کار کی پسپائی سے تعبیر کیا گیا۔
ممکن ہے جناب جونیجو اتنے تیز نہ چلتے اور ٹھنڈی کر کے کھاتے لیکن ان پر اسمبلیوں سے باہر بیٹھی ہوئی اپوزیشن کا نفسیاتی و اعصابی دبائو تھا جو مسلسل یہ پراپیگنڈہ کر رہی تھی کہ نیا نظام بھی مارشل لا ہی کا تسلسل ہے اور جونیجو ایک بے اختیار وزیر اعظم ہیں‘ جن کی حیثیت ایک شو پیس سے زیادہ نہیں۔ اس پراپیگنڈے کو باطل ثابت کرنے کے لیے جناب جونیجو ضرورت سے زیادہ سرگرمی دکھانے لگے تھے۔ انہوں نے 14 اگست 1985ء کو مینار پاکستان پر جلسۂ عام میں 31 دسمبر سے پہلے پہلے مارشل لاء کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ صدر کے 13 اگست 1983ء کے سیاسی ڈھانچے میں نیشنل سکیورٹی کونسل بھی موجود تھی لیکن جونیجو صاحب نے صدر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں اعلان کر دیا کہ نیشنل سکیورٹی کونسل قائم نہیں کی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ دونوں اعلانات صدر کی پیشگی منظوری کے بغیر کر دیئے تھے۔
وقت کے ساتھ صدر اور وزیر اعظم کے درمیان تضادات کا دائرہ پھیلتا گیا۔ افغان مسئلے پر وزیر اعظم جونیجو کی دعوت پر بے نظیر بھٹو سمیت تمام اپوزیشن رہنمائوں کی گول میز کانفرنس کو سیاسی طور پر صدر ضیاء الحق کو تنہا کر دینے کی کارروائی قرار دیا گیا جس کے نتیجے میں جناب جونیجو سیاسی لحاظ سے بہت طاقتور ہو گئے تھے۔ افغان مسئلے پر جونیجو حد سے زیادہ خود اعتمادی اور آزاد روی کا مظاہرہ کر رہے تھے اور ضیاالحق کے معتمد وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کی چھٹی اور ان کی جگہ زین نورانی کے تقرر سے خارجہ معاملات میں اپنے خود مختار ہونے کا تاثر دے چکے تھے۔ افغان مسئلے پر گول میز کانفرنس کو ہوشیار سیاستدانوں نے ضیاء الحق اور جونیجو کے درمیان شکوک و شبہات کو وسیع تر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ وہ جونیجو کو جناب وزیر اعظم کہہ کر مخاطب کرتے اور پھر صدر ضیاء الحق کو خوب خوب رگڑا دیتے۔ مولانا نورانی تو کھانے کی میز پر صدر کے بارے میں لطیفے بھی سناتے رہے۔ یوں بھی ہوا کہ افغان مسئلے پر پارلیمنٹ کے اجلاس میں زین نورانی نے صدر کی موجودگی کے باوجود اپنی تقریر کے آغاز میں انہیں مخاطب کرنا ضروری نہ سمجھا اور جناب وزیر اعظم کہہ کر تقریر شروع کر دی۔ اوجڑی کیمپ واقعہ کے متعلق وزیر اعظم اور ان کے قریبی رفقا کی سوچ اور متوقع فیصلے، صدر اور ان کے رفقاء کے لیے ناقابلِ قبول بلکہ ناقابلِ برداشت تھے۔ ایسے ہی کچھ اور واقعات نے اونٹ کی کمر پر آخری تنکے کا کام کیا۔
ان دنوں میں وفاقی دارالحکومت میں یہ خبریں بھی عام تھیں وزیر اعظم جونیجو نے اپنے آخری دنوں میں 85 سر بر آوردہ شخصیات کے ٹیلی فون پر ٹیپ لگوا دیئے تھے اور ان کی سرگرمیوں کی لمحہ لمحہ رپورٹ تیار ہوتی تھی۔ ان میں صدر کے علاوہ بعض وفاقی وزراء اور خاص طور پر وفاقی وزیر داخلہ بھی شامل تھے۔ ایوان وزیر اعظم سے ملنے والی بعض خفیہ فائلوں کے مطابق وزیر اعظم 30 مئی کو صدر کے دورۂ چین کے دوران بعض حساس شعبوں کے سربراہوں کی سبکدوشی کے علاوہ صدر کی بطورآرمی چیف خدمات کے خاتمے کی سفارش بھی کرنے والے تھے۔ 30 مئی کی صبح وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد صبح گیارہ بجے ایک پریس کانفرنس میں ان ''سفارشات‘‘ کا اعلان کیا جانا تھا۔ صدر نے اس سے ایک روز قبل (29 مئی کی شام) وزیر اعظم سے نجات کے لیے آئین کے آرٹیکل 58/2B کے تحت ان کی برطرفی اور قومی اسمبلی کی تحلیل کا جو راستہ اختیار کیا‘ اس نے خود ان کے لیے سخت مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا کر دی تھیں۔ قاضی حسین احمد کے بقول، وہ ملک کو ایک بار پھر زیرو سکور میں لے گئے تھے۔ ایئر مارشل نور خان کے الفاظ میں صدر نے خود اپنا سیاسی بازو توڑ دیا تھا۔ خود معزول وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جس اسمبلی کو صدر نے توڑ ڈالا، اس سے زیادہ ''وفادار‘‘ اسمبلی انہیں نصیب نہیں ہو گی۔
محمد خان جونیجو سے نجات کے لیے یہ آئینی راستہ بھی موجود تھا کہ صدر انہیں قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہتے۔ اس صورت میں ارکان اسمبلی کی اکثریت صدر کے پسندیدہ نئے وزیر اعظم کو منتخب کر لیتی بلکہ شاید اس کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ خود محمد خان جونیجو کے بقول اگر صدر انہیں استعفے کا کہتے تو وہ سیاسی نظام کو بچانے کے لیے اپنی ذات کی قربانی سے گریز نہ کرتے۔