ہم شہر سے دور جس بستی میں جا بسے ہیں، وہاں اخبار خاصا لیٹ آتا ہے۔ نیٹ پر بھی 12 بجے (دوپہر) کے بعد دستیاب ہوتا ہے البتہ بریکنگ نیوز یا آج کے مضامین اور کالموں سے آپ علی الصبح بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔ ایک قاری نے ایک سوال کیا ہے کہ کیا یہ سچ ہے کہ عمران احمد خان نیازی اور حفیظ اللہ خان نیازی میں تعلقات و معاملات اس مقام پر پہنچ چکے ہیں، جہاں احمد فراز کے الفاظ میں تجدید وفا اور نئے عہد و پیماں کا امکان باقی نہیں رہا؟ ہم نے یہی سوال حفیظ اللہ نیازی سے براہِ راست پوچھ لیا تو ہنستے ہوئے ان کا کہنا تھا: تم جیسے ذمہ دار صحافی نے یہ بات لکھی ہے، تو ٹھیک ہی لکھی ہو گی۔ پھر وہ سنجیدہ ہو گئے، ہم میں جو تعلقات تھے، وہ ٹوٹتے نہیں اور ٹوٹ جائیں تو دوبارہ جڑنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے کچھ ہی دیر بعد، ڈاکٹر علقمہ (بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے سابق وائس چانسلر) کا واٹس ایپ آ گیا: حفیظ اللہ نیازی جن دنوں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے، میں وہاں انٹرنیشنل ریلیشنز کا طالب علم تھا۔ ان کے بقول، حفیظ اللہ نیازی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، تب بھی وہ جارحانہ (اور متشددانہ) سیاست میں یقین رکھتے تھے‘ اب بھی ویسے ہی ہیں (یہاں جناب علقمہ اس بات کو نظر انداز کر گئے کہ حفیظ اللہ شاعر تو ہیں نہیں کہ مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہو۔ ایک پٹھان سے، جس کی فیملی چاہے کئی دہائیوں سے پنجاب میں آ بسی ہو، جارحانہ (اور متشددانہ) ہی کی توقع کی جا سکتی ہے)۔
ایک اور واٹس ایپ میسج بریگیڈیئر (ر) صولت رضا کا تھا۔ بریگیڈیئر صاحب سے ہماری یاد اللہ کا قصہ، نصف صدی سے تھوڑا ہی کم ہے۔ قلم و قرطاس سے ان کا تعلق بھی بہت قدیم ہے، ''عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں‘‘ کہنا غلط نہ ہو گا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے صحافت کے دوران ہی ڈاکٹر مسکین علی حجازی (مرحوم) نے ایک اخبار میں انٹرن شپ دلا دی تھی۔ شاید مشرقی پاکستان کا بحران تھا جس سے متاثر ہو کر فوج میں چلے گئے۔ 1972 میں کاکول سے پاس آئوٹ ہو کر نوجوان لیفٹیننٹ ''توپ خانہ‘‘ میں چلا گیا (کاکول کے دنوں کی دلچسپ روداد وہ ''کاکولیات‘‘ میں قلم بند کر چکے) 1975 میں انہیں آئی ایس پی آر میں بھیج دیا گیا اور پھر یہاں سے بطور بریگیڈیئر ریٹائر ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں 6 سال آئی ایس پی آر لاہور میں رہے۔ تب وہ میجر صولت رضا تھے۔ جنرل صاحب کا لاہور آنا جانا لگا رہتا۔ وہ میڈیا کے بہت شوقین تھے۔ لاہور آمد اور پھر واپسی پر، ایئر پورٹ پر اخبار نویسوں کی موجودگی لازم ہوتی اور اس میں Pick and Choose کا کوئی تصور نہ تھا۔ جنرل صاحب سے نظریاتی و سیاسی اختلاف رکھنے والے ''بائیں بازو کے‘‘ صحافی بھی موجود ہوتے۔ جنرل صاحب جناب نثار عثمانی (مرحوم) کو مخاطب کر کے انہیں ''اٹیک‘‘ اوپن کرنے کا کہتے اور پھر عثمانی صاحب کے جارحانہ ''بائونسروں‘‘ کا بڑے حوصلے سے دفاع کرتے اور کبھی کبھار بال بائونڈری کے باہر بھی پھینک دیتے۔ ایک دن ایئر پورٹ سے واپسی پر عثمانی صاحب کہہ رہے تھے، میں نے اپنی صحافتی زندگی میں اس جیسا Patient Listenerنہیں دیکھا۔ جنرل صاحب کی آمد اور روانگی پر ایئرپورٹ پر میجر صولت رضا کی موجودگی لازم ہوتی۔ یہاں اخبار نویسوں سے ''گھل مل جانا‘‘ ان کے فرائض منصبی کا تقاضا بھی تھا اور ان کے مزاج کا حصہ بھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ''دنیا‘‘ میں ''غیرفوجی کالم‘‘ کے نام سے خامہ فرسائی کرنے لگے (کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی) یہ کالم بھی اسی نام سے کتابی صورت میں آ چکے ہیں۔ ایک دن بتا رہے تھے کہ ان دنوں وہ اپنے کیریئر کی یادداشتیں مرتب کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز کے کالم پر ان کا واٹس ایپ میسج تھا: ''پنجاب یونیورسٹی میں بسر کئے یادگار ایام کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ لاہور میں ایسی مجالس اور محافل کی کمی نہیں، اس کے برعکس راولپنڈی میں نسبتاً سناٹا ہے۔ اسلام آباد جانا آسان ہے لیکن واپسی کا سفر تھکا دیتا ہے۔ آپ کے کالم زیر مطالعہ رہتے ہیں۔ میرا تاثر ہے کہ اکثر معزز لکھاری سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے سیاسی اسباب اور بھارتی مداخلت کا تذکرہ سرسری انداز میں کرتے ہوئے تمام ذمہ داری ایک ادارے پر ڈال دیتے ہیں۔ اس بیانیہ نے سیاستدانوں کی ایک ایسی کھیپ کو جنم دیا جو خود کو جواب دہی سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ کون سے سیاسی اور سماجی عوامل و کردار تھے‘ جو سانحہ مشرقی پاکستان کا سبب بنے۔ ان میں بھٹو کا کردار سب سے نمایاں تھا۔ ہم ان کا ذکر کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ مرحوم نے مشرقی پاکستان کے بعد بلوچستان کو اپنے نشانے پر رکھا اور عطاء اللہ مینگل کی حکومت برطرف کر کے ملٹری آپریشن شروع کر دیا۔ بات طویل ہو جائے گی۔ مختصر یہ کہ آپ کے کالم پڑھ کر بیتے ایام کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں‘‘۔
میجر عامر کال کم کم ہی کرتے ہیں، مہینے میں ایک دو بار، لیکن اس میں پچھلی ساری کسر پوری ہو جاتی ہے۔ گزشتہ صبح کشمیر کا ذکر چھڑا تو وہ پھٹ پڑے: آخر ہم ''ڈپلومیٹک آفینسو‘‘ لانچ کیوں نہیں کرتے؟ وزیر خارجہ یہاں بیٹھ کر ٹیلی فونک رابطوں کی بجائے اہم ملکوں کے دوروں پر کیوں نہیں نکلتے؟ فخر امام صاحب کی کشمیر کمیٹی کیا کر رہی ہے؟ دوسرے ملکوں میں وفود کیوں نہیں بھیجے جاتے؟ وزیر اعظم صاحب کا کہنا ہے، وہ اگلے ماہ جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مقدمہ پیش کریں گے لیکن تب تک دیر نہیں ہو چکی ہو گی؟ کشمیریوں پر تو ایک ایک دن قیامت ہے۔
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
اور اس گفتگو میں انہوں نے بہت اہم انکشاف بھی کیا، یہ یونیسف کے پردے میں ''خود مختار کشمیر‘‘ کا منصوبہ تھا۔
افغان جہاد کے دنوں میں میجر عامر اسلام آباد آئی ایس آئی چیف تھے۔ 1987 میں انہیں اس سازش کی بھنک پڑی۔ تب اسلام آباد میں یونیسف کا سربراہ J.Ordeal امریکن سی آئی اے کے اس منصوبے پر کام کر رہا تھا۔ آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر کی وادی اور گلگت بلتستان پر مشتمل خود مختار کشمیر کا منصوبہ‘ جسے وہ چین اور روس کے خلاف اپنا ''بیس‘‘ بناتے۔ اس سے پاکستان اور چین کے درمیان زمینی رابطہ بھی منقطع ہو جاتا۔ میجر عامر اور ان کی ٹیم نے تعاقب جاری رکھا اور جزئیات تک پہنچ گئے اور تمام تفصیلات صدر غلام اسحاق کے سامنے رکھ دیں۔ انہوں نے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کو بلایا‘ جس نے اس سب کچھ سے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ J.Ordeal کی پاکستان بدری کا فوری اہتمام کرے گا۔
نومبر1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر صاحبہ وزیر اعظم تھیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل کی محترمہ سے ملاقات میں میجر عامر بھی موجود تھے۔ نو منتخب وزیر اعظم کو 9 کائونٹر انٹیلی جنس آپریشنز کی رپورٹ پیش کی گئی (جن میں پاکستان کے خلاف دشمن کی سازشوں کو ناکام بنایا گیا تھا) ان میں سات آپریشن، میجر عامر کی سربراہی میں ہوئے تھے۔ یونیسف کے پردے میں سی آئی اے کے خود مختار کشمیر منصوبے کے خلاف آپریشن کو ''وائٹ سنیک‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس ملاقات میں وزیر اعظم صاحبہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بھی موجود تھے۔ یونیسف کی وکالت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کی سرگرمیوں کو بخوبی جانتے ہیں، وہ اس طرح کے منصوبے نہیں بناتی، جس پر جنرل حمید گل نے قدرے سختی سے کہا، آپ اس کے صرف ظاہری کاموں کو جانتے ہیں، اس کے خفیہ کاموں پر آپ کی نہیں، ہماری نظر ہوتی ہے۔ میجر عامر کا کہنا تھا کہ انقلاب کے بعد تہران میں امریکی سفارت خانے پر پاسداران کے قبضے میں جو خفیہ دستاویزات ہاتھ لگیں (یہ بعد میں کتابی صورت میں منظر عام پر آ گئیں) ان میں امریکی سفیر کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کردہ وہ ٹیلیکس بھی تھا‘ جس میں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے کچھ معلومات تھیں، اس نوٹ کے ساتھ کہ ان معلومات کا سورس کوئی اور نہیں، تہران میں پاکستانی سفیر ہے۔ وہی صاحب اب وزیر اعظم صاحبہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر تھے۔