لال حویلی والے شیخ صاحب کو میڈیا سے گفتگو (اور عام جلسوں جلوسوں میں بھی) یہ تاثر دینے میں کوئی عار نہیں ہوتی کہ ''پنڈی والوں‘‘ کے مزاج اور موڈ کو ان سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا (کیا چکری والے چودھری صاحب سے بھی زیادہ؟) مولانا کا ''آزادی مارچ‘‘ بھی شیخ صاحب کے تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بنا رہا اور یہ فقرہ تو ٹیپ کا بند تھا کہ مولانا کے آگے کھائی اور پیچھے کنواں ہے؛ چنانچہ مولانا جیسا زیرک سیاستدان اسلام آباد آنے کی غلطی نہیں کرے گا۔ ( انگریزی میں اس کے لیے Between the devil and the deep seaکا محاورہ ہے) اس حوالے سے ان کا تازہ ترین انکشاف یہ تھا کہ آزادی مارچ کو روکنے کے لیے مولانا کے ساتھ بات چیت کا آغاز ہو چکا اور یہ بات وہ کر رہے ہیں‘ جنہیں اس کا طریقہ اور سلیقہ بھی آتا ہے اور جن کی بات سُنی اور سمجھی بھی جاتی ہے۔ جناب شیخ کا اشارہ واضح تھا۔
سرکاری ترجمانوں کے دعوے اپنی جگہ، حقیقت یہ ہے کہ قومی معیشت کے سنبھلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ گزشتہ دنوں سیلانی ٹرسٹ کے لنگر خانے کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم یہ طعنہ دیئے بغیر نہ رہے کہ عوام میں صبر نہیں۔ ابھی سال، سوا سال ہی تو ہوا ہے اور وہ پوچھ رہے ہیں کہ نیا پاکستان کہاں ہے؟ (یاد آیا، 1914 کے دھرنے میں، امپائر کی انگلی کا انتظار طویل ہوا تو خان صاحب نے یاد دلایا کہ وہ فاسٹ بائولر رہے ہیں اور فاسٹ بائولر میں صبر نہیں ہوتا) غیر ملکی بینکوں میں، پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر کے افسانے کی حقیقت تو خود جناب اسد عمر نے اپنی وزارتِ خزانہ کے دنوں میں یہ کہہ کر کھول دی تھی کہ وہ محض سنی سنائی بات تھی اور ایف بی آر کے چیئرمین جناب شبر زیدی نے تو گزشتہ دنوں اصل اعداد و شمار بھی بتا دیئے کہ 200 ارب نہیں، یہ صرف 6 ارب ڈالر ہیں‘ اور یہ بھی منی لانڈرنگ کے ذریعے نہیں بلکہ قانونی طریقے سے (بینکنگ چینل کے ذریعے) گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ سے زیادہ پندرہ، بیس فیصد واپس لائے جا سکتے ہیں؛ اگرچہ یہ بھی آسان نہ ہو گا۔ یہ وہی 200 ارب ڈالر ہیں جن کے متعلق تحریک انصاف والوں کے دعوے تھے کہ اِدھر خان آئے گا‘ اُدھر اگلے ہی ہفتے یہ 200 ارب ڈالر واپس پاکستان پہنچ جائیں گے، ان میں سے 100 ارب ڈالر، بیرونی قرض خواہوں کے منہ پر دے ماریں گے اور باقی 100 ارب ڈالر سے ملک کی قسمت سنور جائے گی (سنا ہے، گزشتہ دنوں زیر حراست شاہد خاقان عباسی کو دوران تفتیش جب یہ بتایا گیا کہ سنگا پور کے ایک بینک میں نواز شریف کے ایک ارب ڈالر اور لندن میں 300 جائیدادوں کا کھوج ملا ہے تو نواز شریف کے یارِ طرح دار کا جواب تھا کہ آپ صرف دس لاکھ ڈالر اور صرف ایک جائیداد کے ثبوت لا دیں، میں نواز شریف کے خلاف آپ کی مہم میں شامل ہو جائوں گا) یہاں جناب فواد چودھری کا شکریہ بھی واجب ہے کہ انہوں نے ایک کروڑ نوکریوں کے وعدوں اور دعووں کے سراب سے نجات دلا دی اور یہ بات کہہ گزرے کہ نوکریاں دینا حکومت کا کام نہیں، وہ تو کفایت شعاری کے لیے چار سو سرکاری محکمے بند کرنے پر غور کر رہی ہے (وہ جو برسرِ روزگار ہیں، انہیں بھی بے روزگار کرنے کا منصوبہ) دانشور وزیرِ با تدبیر کے بقول روزگار کی فراہمی نجی شعبے کا کام ہے، جس کے لیے حکومت کی ذمہ داری صرف سازگار ماحول کی فراہمی ہے (یہ سوال اپنی جگہ کہ اس سال، سوا سال میں حکومت نے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے کیا کِیا؟ یہاں تو اچھے خاصے چلتے ہوئے کاروبار بھی بند ہونے لگے ہیں)
قومی دفاع اور سلامتی کے ذمے داروں کے لیے اس صورتِ حال سے لا تعلق رہنما ممکن نہیں۔ خود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی گزشتہ روز اسی حقیقت کا اظہار کر رہے تھے کہ قومی معیشت اور ملکی دفاع و سلامتی میں چولی دامن کا ساتھ ہے سیاسی استحکام جس کے لیے شرط اوّل ہے؛ چنانچہ بزنس لیڈرز سے ملاقات میں بیشتر وقت یہ یقین دلانے میں صرف ہوا کہ موجودہ حکومت کہیں نہیں جا رہی اور یہ اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔
دعووں اور پیش گوئیوں کی صداقت کے حوالے سے شیخ صاحب کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں؛ تاہم ان کا یہ دعویٰ قرین حقیقت لگتا ہے کہ ''جنہیں بات کرنے کا طریقہ اور سلیقہ آتا ہے اور جن کی بات سنی اور سمجھی بھی جاتی ہے، مولانا سے بات کا آغاز کر چکے ہیں‘‘۔ ادھر ایک اور ''باخبر‘‘ کا دعویٰ ہے کہ جناب شیخ کا اشارہ جن کی طرف ہے انہوں نے تو مولانا کی طرف سے مارچ (اور دھرنے) کا اعلان ہوتے ہی سلسلہ جنبانی شروع کر دیا تھا، جو مختلف سطحوں سے ہوتا ہوا اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ کر ناکام ہو گیا۔
اب تازہ ترین خبر کے مطابق وزیر اعظم نے تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں، آزادی مارچ کے سیاسی مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ ذمہ داری وزیر دفاع پرویز خٹک کو سونپی ہے۔ جہاندیدہ اور سردوگرم چشیدہ پرویز خٹک پانچ سال خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ رہے۔ مولانا فضل الرحمن کے بھائی سینیٹر مولانا عطاء الرحمن سے ان کا دوستانہ بھی ہے۔ یہ الگ بات کہ سیاسی معاملات میں ذاتی دوستیاں زیادہ کام نہیں آتیں اور یہاں تو ویسے بھی مولانا فیصلہ کن معرکے کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔
کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی کا کہناتھا کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے سیاسی مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی خواہش بھی رکھتی ہے اور صلاحیت بھی۔ سیاسی مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی ضرورت اور اہمیت کایہ احساس اور اعتراف غنیمت ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ یہ عقل سلیم کے بروئے کارآنے کا نتیجہ ہے، یا ''یہاں تک تو پہنچے وہ مجبور ہو کر؟‘‘
ادھر ہٹ کے پکے مولانا کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے جسے آنا ہے، وزیر اعظم عمران خان کا استعفیٰ ساتھ لے کر آئے۔ وہ وزیر اعظم کے استعفے اور ازسرِ نو انتخابات ہی کو موجودہ بحران کا حل قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے انہیں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے علاوہ کے پی کے اور بلوچستان کی نیشنلسٹ پارٹیوں کی تائید بھی حاصل ہے۔ بدھ کی سہ پہر، جب تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں مولانا (اور اپوزیشن جماعتوں) سے مذاکرات کا فیصلہ ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال، پنجاب سے مسلم لیگی ارکانِ اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اس عزم کا اعادہ کر رہے تھے کہ وزیر اعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے لیے کسی بھی تحریک میں، مسلم لیگ ہراول دستے کا کردار ادا کرے گی۔ (مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں شہبازشریف سے ملاقات اور حتمی لائحہ عمل کے تعین کے لیے آج (جمعہ کو) لاہور آرہے ہیں) اُدھر لاڑکانہ میں بلاول بھٹو، ''نیازی حکومت کو گھر بھیجنے‘‘ کے لیے مولانا کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کررہے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ مولانا کی گرفتاری کی صورت میں وہ خود اس تحریک کی قیادت کریں گے۔ اسلام آباد میں مولانا کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کا اعلان کررہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت نے راستہ روکنے کی کوشش کی تو ایسا جمہوری ہنگامہ کھڑاہوگاکہ جام حکومت، جام ہو جائے گی۔ اس جذباتی ماحول میں بھی اچکزئی سنجیدہ ہوگئے، وہ موجودہ خطرناک صورت حال سے نکلنے کے لیے گول میز کانفرنس کے انعقاد پر زوردے رہے تھے، جس میں تمام ''سٹیک ہولڈرز‘‘ شریک ہوں، اور خود مولانا کا کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد دھاندلی سے مسلط کی گئی، جعلی اور نااہل حکومت کے خلاف ہے، ہم کسی ادارے سے تصادم نہیں چاہتے؛ تاہم کسی غیرآئینی اقدام کی صورت میں بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ جناب شاہ محمود قریشی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کی نوید بھی دی، غیر جماعتی بنیادوں پر ان انتخابات کا پہلا مرحلہ اگلے سال فروری میں مکمل ہوگا۔ یاد آیا، 1977 میں بھٹو صاحب کے خلاف تحریک زور پکڑ رہی تھی، 9 اپریل اس تحریک کے سیاہ ترین دنوں میں ایک دن تھا، لاہور کی مال روڈ پر جنگ کا سماں تھا، 30 افراد جاں بحق اوراڑھائی سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ بھٹو صاحب اس روز لاہور میں تھے۔ ''تاریخ کا گہرا شعور رکھنے والا لیڈر‘‘ اپوزیشن کی تحریک کا رخ موڑنے کے لیے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کررہاتھا۔