"RTC" (space) message & send to 7575

نااہلی اور نالائقی پر اجماعِ امت ؟

''نظریہ ضرورت‘‘ ایک بار پھر بروئے کار آیا، لیکن اس بار معاملہ دو سو کیس یا مولوی تمیزالدین کیس میں جسٹس منیر کے فیصلوں سے مختلف ہے۔ تب ''نظریہ ضرورت‘‘ طالع آزمائوں کی آئین شکنی کے جواز میں تھا، اب یہ آئینی نظام کے تسلسل کیلئے استعمال میں آیا حتمی فیصلہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا گیا، جس سے پارلیمنٹ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا اور اس کی بالا دستی کی توثیق و تصدیق ہوئی۔ جناب وزیر اعظم کے لیے ایک تجزیہ کار کا مشورہ بے جا نہ تھا کہ گزشتہ ویک اینڈ پر انہوں نے دو چھٹیاں کی تھیں، اب تین چھٹیاں کریں... اور تخلیے میں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ان ریمارکس پر غور کریں، جو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے، ایک حساس ترین قومی معاملے میں، ان کی وزارتِ قانون (زیادہ صحیح الفاظ میں خود پرائم منسٹر آفس) کی کارکردگی کے حوالے سے دیئے اور میڈیا میں ان تبصروں اور تجزیوں کا بھی جائزہ لیں، خود خان صاحب کے خیر خواہ دانشور اور تجزیہ نگار بھی جن کا اظہار کئے بغیر نہ رہے۔
اپوزیشن ''سلیکٹڈ‘‘ کا سابقہ تو روزِ اوّل سے استعمال کر رہی تھی، اب اس نے اس کے ساتھ ''نالائق‘‘ اور ''نااہل‘‘ کا اضافہ بھی کر دیا تھا، اور ان تین دنوں میں تو یوں لگا جیسے اس پر ''اجماعِ امت‘‘ ہو گیا ہو... جنرل (ر) امجد شعیب اور ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف نے اپوزیشن (خصوصاً نواز شریف) کے لیے اپنی ناپسندیدگی چھپانے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی۔ جناب وزیر اعظم (اور ان کی پی ٹی آئی) کے لیے ان کی چاہت بھی قدیم ہے۔ لیکن ان تین دنوں میں اپنی ممدوح حکومت کے لیے ان کے پاس بھی ''نالائقی‘‘ اور ''نااہلی‘‘ کے سوا کوئی الفاظ نہ تھے۔ انہیں ''ادارے‘‘ کی جگ ہنسائی (اور خصوصاً سرحد کے اس پار مودی کے بھارت میں ہونے والی سبکی) کا بھی دکھ تھا۔ 
اس سنسنی خیز کہانی کا آغاز 19 اگست کو سوشل میڈیا پر ایک ''اعلان‘‘ سے ہوا، یہ پرائم منسٹر کے لیٹر ہیڈ پر جناب عمران خان کے دستخط کے ساتھ جاری ہونے والے، انگریزی زبان میں 36 الفاظ کا ایک آرڈر تھا، جس کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کو، (ان کی موجودہ ٹرم کی تکمیل پر) تین سال کی ایک اور ٹرم کے لیے چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا گیا تھا۔ سلامتی کی علاقائی صورتِ حال کو اس فیصلے کا سبب قرار دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے ابتدائی تین ماہ میں ہی جناب قمر جاوید باجوہ کو ایک اور ٹرم دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جنرل صاحب کی جمہوریت پسندی اور آئینی نظام سے کمٹمنٹ اس کا سبب تھی۔ جنرل امجد شعیب کے بقول، آرمی چیف سکیورٹی امور کے علاوہ قومی معیشت اور خارجہ معاملات میں بھی موجودہ حکومت کیلئے مددگار ثابت ہوئے تھے۔ چین سمیت بعض دوست ممالک میں، پاکستان کے حوالے سے پیدا ہونے والی شکایات کے ازالے اور باہم اعتماد کی بحالی میں جنرل باجوہ نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ کے ساتھ معاملات کی نئی استواری میں بھی وہ بروئے کار آئے۔ جنرل امجد شعیب نے اس حوالے سے جولائی میں جنرل صاحب (اور ان کے رفقاء) کے دورہ امریکہ کا بھی ذکر کیا جب پینٹاگان میں پاکستان کی عسکری قیادت کی غیر معمولی پذیرائی کی گئی۔ اکیس توپوں کی سلامی کوئی معمولی اعزاز نہ تھا۔ انہی دنوں وزیر اعظم عمران خان بھی امریکہ کے دورے پر تھے۔ جنرل باجوہ صدر ٹرمپ کے ساتھ پاکستانی وفد کی ملاقات میں بھی موجود تھے۔ بزرگ اور با خبر عسکری دانشور کے بقول، جناب قمر جاوید باجوہ کیلئے تین سال کی مزید مدت کا فیصلہ، وزیر اعظم نے دورہ امریکہ کے بعد کیا تھا۔
اعجازالحق گزشتہ شب ایک ٹاک شو میں بتا رہے تھے کہ سوشل میڈیا پر اس ''تقرر نامے‘‘ کو انہوں نے کسی کی شرارت سمجھا۔ فوجی معاملات (تقرریوں اور تبادلوں کے طریقِ کار) کے حوالے سے اعجاز کی معلومات تو گھر کی بات تھی، ہم جیسوں نے بھی اس تقرر نامے کو جعلی سمجھا تھا کہ آرمی چیف کے تقرر (یا توسیع) جیسے اہم آرڈر اس طرح تھوڑی جاری ہوتے ہیں۔ آئینی طور پر، یہ وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار سہی، لیکن طریق کار یہ ہے کہ اس کیلئے پرائم منسٹر ہائوس کی طرف سے، ایوان صدر کو ایڈوائس جاتی ہے اور جناب صدر اس کی توثیق فرماتے ہیں، جس کے بعد اس کا نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے۔ 12 اکتوبر 1999 کی شام وزیر اعظم نواز شریف، (جنرل پرویز مشرف کی برطرفی اور) جنرل ضیاء الدین کی آرمی چیف کے طور پر تقرری کی فائل لے کر خود ایوانِ صدر گئے تھے۔ شجاع آباد کے جلسے سے واپسی میں وزیر اعظم کو تاخیر ہو گئی۔ تب صدر رفیق تارڑ، دفتری امور نمٹا کر گھر جا چکے تھے، چنانچہ وزیر اعظم جناب صدر کے گھر گئے، وہیں فائل پر دستخط ہوئے۔ اس کے بعد ہی جنرل ضیاء الدین کے تقرر (اور جنرل پرویز مشرف کی برطرفی) کا اعلان ہوا۔ سپریم کورٹ کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک فیصلے میں قرار دے چکی کہ وزیر اعظم (اور حکومت) سے مراد وفاقی کابینہ ہے؛ چنانچہ وفاقی حکومت کے اہم فیصلوں کیلئے کابینہ کی منظوری لازم ہے۔ 19 اگست 2019 کو جو کچھ ہوا، خود سپریم کورٹ اسے گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنے کے مترادف قرار دے چکی ہے۔ جناب وزیر اعظم کی طرف سے آرمی چیف کی نئی ٹرم کے فیصلے کا اعلان پہلے ہوا اور (غلطی کا احساس ہونے پر) اسے صدر کے دستخط کیلئے بعد میں بھیجا گیا۔ کابینہ کی منظوری بھی ''سرکولیشن‘‘ کے ذریعے حاصل کی گئی؛ چنانچہ بعض وزرا کی عدم دستیابی کے باعث ان کے دستخط حاصل نہ کئے جا سکے۔ جنابِ صدر کے ٹی وی انٹرویوز میں ادلتا بدلتا موقف بھی دلچسپ تھا۔
ان تین دنوں کے دوران جو کچھ ہوا، اس میں حکومت کے لیے خجالت کا وافر سامان تھا اور دلچسپ المیہ یہ کہ سپریم کورٹ کے بار بار توجہ دلانے اور رہنمائی کرنے کے باوجود ہر نئے دن نئی غلطیوں کا ارتکاب ہوتا رہا۔ شفیق الرحمن کی ''حماقتیں‘‘ اور ''مزید حماقتیں‘‘ قارئین کو یاد ہوں گی۔ یہاں بھی حماقتیں اور مزید حماقتیں اور غلطیاں در غلطیاں والا معاملہ تھا۔ 
تیسرے دن(جمعرات کو) پیش کئے گئے تیسرے نوٹیفکیشن میں بھی سپریم کورٹ تین نئی غلطیوں کی نشاندہی کر رہی تھی۔ جناب چیف جسٹس، اس موقع پر یہ کہے بغیر نہ رہے کہ سمری درست کروانا آرمی چیف کا کام نہیں تھا، آپ کی کوتاہی پر آرمی چیف کو مشاورت میں شریک ہونا پڑا۔ وہ ملکی دفاع پر نظر رکھیں یا آپ کے ساتھ بیٹھ کر قانونی غلطیاں دور کریں۔ اس سے ایک روز قبل چیف جسٹس کو فاضل اٹارنی جنرل کی اصلاح کرنا پڑی جب وہ جنرل کیانی کو جسٹس کیانی کہہ رہے تھے۔ اس سے ایک روز قبل جناب چیف جسٹس وزارتِ قانون کی اہلیت کے حوالے سے ریمارکس دے چکے تھے کہ ''آرمی چیف کو شٹل کاک بنا دیا گیا، ایسے تو اسسٹنٹ کمشنر کا تقرر بھی نہیں ہوتا۔ وزارتِ قانون نے بڑی محنت سے کیس خراب کیا‘‘۔ چیف جسٹس صاحب اتنے بد مزہ تھے کہ یہ کہے بغیر نہ رہے کہ ان کی ڈگریاں چیک ہونی چاہئیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا جب ایچ ای سی نے ڈگریاں چیک کرنے کا سلسلہ شروع کیا، تو اچھے خاصے معززین کی جعلی ڈگریوں کی نشاندہی ہوئی۔ ان میں بیرون ملک کی پی ایچ ڈی کے ڈگری ہولڈر بھی تھے۔ ''مانٹی سیلو‘‘ نامی ایک امریکن یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی تھی جسے خود امریکی عدالت اس جعل سازی پر سزا سنا چکی تھی۔
جمعرات کو اندرون و بیرون ملک کروڑوں کان اور آنکھیں ٹی وی اور سمارٹ فونز کی سکرینوں پر لگی ہوئی تھیں۔ سپریم کورٹ کا تین صفحے کا حکم نامہ، آئین کی کارفرمائی اور جمہوریت کی بقا و استحکام میں دلچسپی رکھنے والے کروڑوں پاکستانیوں کے لیے تسکینِ قلب و جان کا سامان بن گیا تھا۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی گئی تھی۔ اس دوران حکومت کو اس حوالے سے ضروری قانونی تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ 
حیرت ہے کہ جناب وزیر اعظم اس پر سکھ کا گہرا سانس لینے، خدا کا شکر ادا کرنے اور قومی معاملات میں اپنی ہینڈلنگ کو بہتر بنانے کی بجائے ''اپوزیشن‘‘ پر برس پڑے، وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو اندرونِ ملک ''مافیا‘‘ کی سازش کی ناکامی قرار دے رہے تھے، جو بیرون ملک اپنی دولت کو بچانے کیلئے ملک کے اندر عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا تھا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے (کسی بھی متوقع) فیصلے پر غوروخوض اور آئندہ لائحہ عمل کیئے اپنی پارلیمانی پارٹی کا ہنگامی اجلاس بھی بلا رکھا تھا۔ دور دراز علاقوںسے آئے ہوئے ارکان اسمبلی کو گلہ تھا کہ وزیر اعظم فارن آفس میں ڈپلومیٹس کی میٹنگ میں تو شریک ہوئے لیکن اپنی پارلیمانی پارٹی میں شرکت کا وقت نہ نکال سکے۔ کیا بعض ارکان کی تند خوئی سے گریز اس کا سبب تھا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں