یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ بدترین حالات میں‘ جب مایوسی و نا امیدی جاں تک اتر جانے کو ہو‘ اپنے رب پر ایمان اور اعتماد انسان کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ مصطفی زیدی کی ''کوہ نِدا‘‘ کی آخری چند سطور یاد آئیں؎
رات بھر جاگتے رہتے ہیں دکانوں کے چراغ
دل وہ سنسان جزیرہ کہ بجھا رہتا ہے
لیکن اس بند جزیرے کے ہر اک گوشے میں
ذات کا بابِ طلسمات کھلا رہتا ہے
اپنی ہی ذات میں پستی کے کھنڈر ملتے ہیں
اپنی ہی ذات میں اک کوہِ ندا رہتا ہے
صرف اس کوہ کے دامن میں میسّر ہے نجات
آدمی ورنہ عناصر میں گھرا رہتا ہے
اور پھر ان سے بھی گھبرا کے اٹھاتا ہے نظر
اپنے مذہب کی طرف اپنے خدا کی جانب
ایہا النّاس چلو کوہِ ندا کی جانب
دلِ درد مند رکھنے والے انور مسعود کی شدت کا اصل سبب‘ پنجابی میں ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری ہے‘ لیکن وہ اردو میں بھی کمال کے شعر کہہ گئے ہیں؎
شدتِ درد میں ہونٹوں پہ دعا کا ہونا
ثابت اس سے بھی تو ہوتا ہے خدا کا ہونا
ہم جدّہ میں تھے تو پاکستان سے کسی اچھی یا بری خبر کے سنتے ہی حرمِ مکّی کا رخ کرتے (یہ چالیس پینتالیس منٹ کا فاصلہ ہے) اچھی خبر پر طواف کے ساتھ شکرانے کے نفل ادا کرتے۔ بری خبر ہوتی‘ تو اپنے رب سے توبہ استغفار کے ساتھ اصلاحِ احوال کے لیے دعائیں کرتے۔ (ہمارے سبھی دوستوں کا یہی معمول تھا۔)
کورونا کی خبروں کے ساتھ سر زمینِ حرمین میں مسجدوں کی بندش اور حرمین میں داخلے کے سلسلے میں پابندیوں کی خبروں پر دل ڈوب ڈوب گیا۔
ادھر اپنے وطن میں بھی اہلِ وطن کی بھاری اکثریت کا رویہ‘ اپنی تمام تر بے عملیوں (یا بداعمالیوں) کے باوجود رجوع الی اللہ کا ہوتا ہے۔ وہ مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق خانقاہوں اور مزاروں کی طرف بھاگتے ہیں۔ اپنے گھروں کی چھتوں پر اذانیں دیتے ہیں۔ (بھٹو صاحب کے خلاف 1977ء کی تحریکِ نظامِ مصطفی یاد آئی۔ اب کورونا کے عذاب میں بھی بعض علاقوں میں‘ چھتوں پر اذانیں دی جانے لگیں (بال کی کھال اتارنے والے چند احباب اس کی شرعی حیثیت کا سوال بھی اٹھانے لگے۔)
سوشل Distancing کو ماہرین احتیاطی تدابیر میں اہم ترین قرار دیتے ہیں؛ چنانچہ ''لاک ڈائون‘‘ کے سلسلے میں مساجد کے حوالے سے بھی سوالات اٹھنے لگے جہاں اہلِ اسلام پانچ وقت‘ نماز با جماعت کی صورت میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ نماز جمعہ میں مسجد کا ہال اور صحن تنگ پڑ جاتے ہیں اور صفیں باہر سڑک تک آ جاتی ہیں۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
جانے ان میں سے کون کون‘ کورونا کا وائرس کیریئر ہو اور اس ایک سے‘ یہ سلسلہ آگے سے آگے کہاں تک پہنچ جائے۔تو کیا مملکتِ خداداد میں اللہ کے گھروں پر تالے پڑ جائیں گے؟ مسجدوں کو کعبۃ اللہ کی بیٹیاں قرار دیا گیا‘ تو کیا کعبۃ اللہ کی طرح یہاں بھی داخلہ روک دیا جائے گا؟ محراب و منبر کلمۃ اللہ کے لیے ترس جائیں گے؟ میناروں سے اللہ کی کبریائی اور نبی آخر الزماںﷺ کی رسالت کی گواہی اور صلاح و فلاح کی طرف آنے کی پکار بھی بند ہو جائے گی...
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
بے عمل معاشرے میں‘ روحِ بلالی کے بغیر بھی‘ یہ رسمِ اذاں غنیمت ہے‘ تو کیا اب کورونا کا خوف ہمیں اس سے بھی محروم کر دے گا؟
لیکن الحمد للہ اپنے ہاں‘ سبھی مسالک میں دین کا حقیقی مدعا اور اس کی اصل روح کا فہم و ادراک رکھنے والے موجود ہیں‘ اپنے اپنے فقہی مکاتب فکررکھنے والوں کے ہاں بھی‘ ان کا احترام پایا جاتا ہے‘ ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے... اپنے ہاں کا دین بیزار (مٹھی بھر) طبقہ انہیں لاکھ مطعون کرتا رہے‘ لیکن آزمائش کی کسی بھی گھڑی میں‘ رہبری و رہنمائی کے لیے بروئے کار آنے میں انہوں نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد‘ یہاں مطالبہ دستورِ اسلامی کی مہم کے جواب میں اپنے ہاں کے سیکولر عناصر نے ''کون سا اسلام؟ کس کا اسلام؟‘‘ کی پھبتی کسی تو شیعہ‘ سُنّی‘ دیو بندی و بریلوی اور اہلِ حدیث کے 31 جیّد علما نے 22 متفقہ نکات پیش کر دیئے... فقہی اختلافِ رائے کے ساتھ‘ دین کے مشترکہ نکات پر اتفاق رائے اور اشتراک عمل کی متعدد مثالیں ہیں‘ جو پیش کی جا سکتی ہیں‘ لیکن اس کی ضرورت ہے‘ نہ گنجائش... بس یہی کافی ہے کہ کورونا کے اس بحران میں بھی علما کرام نے قوم کو مایوس نہیں کیا... یہ فیصلہ کہ ''سوشل گیدرنگ‘‘ سے اجتناب کے لیے جمعہ سمیت تمام نمازیں گھروں پر پڑھی جائیں‘ البتہ مساجد پر تالے نہیں پڑیں گے‘ اللہ کے گھروں کے دروازے کھلے رہیں گے‘ میناروں سے پنج وقتہ اذان کی صدائوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا... (البتہ سوشل Dsitancing کے احتیاطی تقاضے کے پیش نظر نماز با جماعت میں پانچ سے افراد شریک نہیں ہوں گے... 27 مارچ کی نماز جمعہ بھی اسی طرح ادا ہوئی۔ 5 اپریل تک باقی پنج وقتہ نمازوں میں بھی یہی معمول ہوگا...
ہر جنگ اور جہاد کے اپنے اپنے ہیرو ہوتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنے ہیروز کی جرأت و بہادری‘ ان کی جانثاری و جاں سپاری کے اعتراف اور اس پر خراج تحسین پیش کرنے میں‘ کسی کوتاہی‘ کسی بخل سے کام نہیں لیتیں۔ پاکستانی قوم تو اس حوالے سے دیگر کئی اقوام سے کہیں آگے ہے... کورونا کے خلاف جنگ شاید باقی تمام جنگوں سے زیادہ خطرناک ہے‘ بلکہ اسے جہاد کہنا چاہیے ... اور اس میں کیا شک ہے کہ اس جہاد کے ہیرو ہمارے ڈاکٹر ہیں‘ ہماری نرسیں ہیں‘ دیگر پیرامیڈیکل سٹاف ہے۔ اس میں‘ اس مرض کے علاج اور علاج گاہوں سے وابستہ سبھی خواتین و حضرات ہیں... یہ سبھی ہمارے ہیرو ہیں... وہ جو اقبالؔ نے کہا تھا؎
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
تو کورونا کے خلاف اس جہاد کے ''سپاہیوں‘‘ کی کیفیت بھی مختلف نہیں تھی۔ انہوں نے بے سرو سامانی کے عالم میں‘ اس جنگ کا آغاز کیا... حفاظتی کٹس اور دیگر ضروری ساز و سامان کے بغیر وہ اپنے ہم وطنوں کو بچانے کے لیے ''دشمن ‘‘ کے خلاف سینہ سپر ہو گئے۔ یہ محاورتاً نہیں‘ واقعتاً اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھنے والی بات تھی۔ گلگت بلتستان کے ڈاکٹر اسامہ ریاض بلا شبہ ''کورونا جہاد ‘‘ کے پہلے ''شہید‘‘ ہیں۔
ہمارے ڈاکٹرز اور ان کے معاونین حفاظتی کٹس اور دیگر ضروری ساز و سامان کے بغیر اپنے ہم وطنوں کو بچانے کے لیے ''دشمن ‘‘ کے خلاف سینہ سپر ہو گئے۔ یہ محاورتاً نہیں‘ واقعتاً اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھنے والی بات تھی۔ گلگت بلتستان کے ڈاکٹر اسامہ ریاض بلا شبہ ''کورونا جہاد ‘‘ کے پہلے ''شہید‘‘ ہیں۔