"RTC" (space) message & send to 7575

Method behind the madness

فرزندِ لال حویلی تو عید کے بعد نیب کے ٹارزن بننے کی خبر دے رہے تھے، جو وکٹ کے دونوں طرف کھیلے گا، حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں اس کی زد میں ہوں گے اور وہ کسی سے رعایت نہیں کرے گا، لیکن وزیر ہوابازی غلام سرور خاں ابھی سے وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا شروع ہو گئے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس کا آخری دن تھا۔ ایک دن پہلے خبر آئی جس کے مطابق وزیر موصوف بھی نیب کے ریڈار پر آ گئے تھے۔ ڈسٹرکٹ کلکٹر سے وزیر صاحب کے علاوہ ان کی صاحبزادی سمیت جملہ اہل خانہ کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کر لی گئی تھیں۔ اجلاس کے اس آخری روز وہ اس پر برہم تھے؛ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی احتساب سے نہیں ڈرتے‘ احتساب ہو اور ہم سب کا ہو‘ اور ان کا بھی ہو جو تین تین بار وزیر رہے (ظاہر ہے ان کا اشارہ اپنے روایتی حریف چودھری نثار علی خاں کی طرف تھا) اس موقع پر حزبِ اختلاف کی نشستوں سے ایک طنزیہ فقرے پر وہ آپے سے باہر ہو گئے۔ امجد خاں نیازی چیئر پر تھے لیکن وزیر صاحب نے انہیں مخاطب کرنے کے بجائے براہِ راست حزبِ اختلاف کی طرف رخ کیا اور دونوں بازو لہرا کر دعوتِ مبارزت دینے لگے۔
وہ سینئر پارلیمنٹیرین ہیں۔ مشرف کے دور میں بھی وزیر رہے، لیکن یہاں وہ کسی نوآموز اور نوجوان کو بھی پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ حزبِ اختلاف کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: چورو! شرم کرو، حیا کرو‘ ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہو، بیڑہ غرق کر گئے ہو۔ ہائوس میں 'فری فار آل‘ کا ماحول تھا۔ چیئر نے فاضل مقرر کے کسی لفظ کو حذف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
گزشتہ شب اس سے بھی زیادہ ''دلچسپ‘‘ صورتِ حال تھی۔ اب وزیر موصوف کا ہدف کابینہ کے اپنے ہی رفقا تھے۔ وزیر اعظم صاحب کی 51 رکنی کابینہ میں 31 وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کے ساتھ 5 مشیر اور 15 معاونین خصوصی ہیں۔ تازہ ترین اضافہ شہباز گل ہیں جو معاونِ خصوصی برائے پولیٹیکل کمیونی کیشن ہیں۔ جناب ایاز امیر حیران ہیں کہ یہ پولیٹیکل کمیونی کیشن کیا ہوتا ہے؟ لیکن اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ کہ نوٹیفکیشن کے مطابق شہباز گل کی یہ پوزیشن اعزازی ہے۔ آئین کے مطابق وزیر اعظم، وفاقی وزیر کی حیثیت (status) کے حامل 5 مشیروں کا تقرر کر سکتے ہیں۔ یہ پارلیمنٹ کی کارروائی میں بھی حصہ لے سکتے ہیں، تقریر بھی کر سکتے ہیں، سوالات کے جواب بھی دے سکتے ہیں، لیکن چونکہ وہ منتخب نہیں ہوتے، اس لیے ''ووٹنگ‘‘ میں حصہ نہیں لے سکتے؛ البتہ معاونین خصوصی کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ جناب حفیظ شیخ مشیر نہیں، معاونِ خصوصی ہیں؛ چنانچہ وہ ایوان میں آنے اور بجٹ پیش کرنے کا استحقاق نہیں رکھتے۔ گزشتہ بار یہ ذمہ داری میاں حماد اظہر کے سپرد تھی، اور نوجوان وزیر مملکت نے اسے اس حسن و خوبی سے نبھایا کہ جناب وزیراعظم نے انہیں اپ گریڈ کر کے وفاقی وزیر بنا دیا۔ عمران خان صاحب کی کابینہ میں عامر کیانی وفاقی وزیر صحت ہوتے تھے، وہ ایک سکینڈل کی زد میں آ کر وزارت سے فارغ ہوئے تو صحت ظفر مرزا کے سپرد ہوئی لیکن وہ معاونِ خصوصی ہیں۔ قومی اسمبلی کا حالیہ اجلاس بنیادی طور پر کورونا کے مسئلے پر تھا، لیکن ظفر مرزا ایوان کے لیے ''اجنبی‘‘ تھے؛ چنانچہ وہ پرائم منسٹر گیلری میں آبزرور کے طور پر بیٹھے تھے۔ جناب اسد عمر، چند ماہ ''گرم پانیوں‘‘ میں رہنے کے بعد اب پھر وفاقی وزیر ہیں۔ مختلف مراحل پر جہانگیر ترین ان کے راستے کی رکاوٹ ہوتے، اب یہ رکاوٹ بھی دور ہو چکی۔ وہ کورونا کے مسئلے پر ہر روز ''نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن‘‘ کے خصوصی اجلاس کی صدارت کرتے ہیں جس میں چاروں صوبوں کے نمائندوں کے ساتھ اعلیٰ سول و عسکری حکام بھی موجود ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں افتتاحی تقریر جناب وزیر اعظم کو کرنا چاہئے تھی (کہ وہ وزیر صحت بھی ہیں) ان کی عدم موجودگی میں یہ ذمہ داری اسد عمر کے سپرد ہوتی کہ وہ کمانڈ اینڈ آپریشن کے انچارج بھی ہیں۔ ادھر ملتان کا سجادہ نشین اپنی اہمیت بنانے اور اہمیت جتانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، یہ موقع بھی اس نے اچک لیا۔ یہاں موصوف کا ہدف کورونا نہیں، پیپلز پارٹی اور سندھ تھے۔ پیپلز پارٹی میں اب وفاق کی خوشبو کی بجائے انہیں صوبائیت کی بدبو محسوس ہو رہی تھی۔ اگلے روز سینیٹ میں تو انہوں نے پنجاب کے بعد سندھ میں بھی پی ٹی آئی کا ''لوہا منوانے‘‘ کا باقاعدہ اعلان کر دیا تھا۔ وہ کراچی کے مینڈیٹ پر بھی اپنا دعویٰ جتلا رہے تھے کہ یہاں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی سے زیادہ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں رکھتی ہے۔ شاہ محمود قریشی موجودہ ایوان میں شیخ رشید کے بعد، شاید سینئر موسٹ پارلیمنٹیرین ہیں۔ وہ عموماً ایسا لب و لہجہ اختیار نہیں کرتے جو اس روز پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں انہوں نے اختیار کیا۔ وہ جو انگریزی کا محاورہ ہے Method behind the madness تو پارلیمنٹ کے کورونا جیسے اہم اور نازک ترین مسئلے پر بلائے گئے اجلاس میں اس طرح کے خطاب کے پس پردہ بھی لگتا ہے کچھ تھا، یہ کیا تھا؟ اس حوالے سے ''حرکت بقدر ہمت‘‘ تھی۔ اس کے مقابلے میں بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اور اگلے روز پریس کانفرنس میں بھی جو لب و لہجہ اختیار کیا، وہ اس امر کا اظہار تھا کہ بی بی کے بیٹے میں سیکھنے کی صلاحیت وافر مقدار میں موجود ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، سیاست میں اس کی رونمائی پر خود آصف زرداری کا کہنا تھا کہ اسے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اس کی سیاسی بلوغت کی عمر دور ہے، لیکن اس نے بلوغت کا یہ مرحلہ جس تیزی سے طے کیا وہ پیپلز پارٹی کے ہم جیسے دیرینہ ناقدین کے لیے بھی خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔
قارئین سے معذرت کہ ہم ایک بار پھر پٹڑی سے اتر گئے۔ بات غلام سرور خاں صاحب کے ٹاک شو کی ہو رہی تھی، جس میں ان کا ہدف جناب وزیر اعظم کے معاونین خصوصی تھے۔ ان کے بقول، یہ وہ ہیں جن کی کوئی شناخت نہیں‘ کوئی اتاپتا نہیں، کوئی آگا پیچھا نہیں، ان کے whereabouts کا کسی کو کوئی علم نہیں‘ ان میں بعض کی دُہری شہریت ہے‘ یہ بریف کیس اٹھا کر آتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ غلام سرور خاں کی اس بات سے ہمیں معین قریشی صاحب یاد آئے، 1993ء میں، ایک معاہدے کے تحت غلام اسحاق خاں اور نواز شریف کے استعفوں کے ساتھ ملک مڈ ٹرم انتخابات کی طرف چلا گیا‘ تو سمندر پار سے جناب معین قریشی نگران وزیر اعظم کے طور پر تشریف لائے۔ وہ کئی عشروں سے عالمی مالیاتی اداروں میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کا قومی شناختی کارڈ بھی پاک سرزمین پر ان کے قدم رنجہ فرمانے کے بعد بنا اور اس پر ایڈریس کی جگہ پرائم منسٹر ہائوس لکھا گیا۔ بطور وزیر اعظم اپنی خدمات کا سلسلہ وسیع تر کرنے کی ان کی خواہش پوری نہ ہو سکی، اور وہ الیکشن کے بعد اپنے لیے کوئی رول نہ پاکر جدھر سے آئے تھے، اُدھر واپس چلے گئے۔ ایک اور مثال شوکت عزیز کی دی جا سکتی ہے لیکن ان کا معاملہ ذرا مختلف رہا۔ وہ بھی امریکہ میں مقیم تھے کہ مشرف کی نگاہِ انتخاب کے نتیجے میں مشرف کابینہ میں وزیر خزانہ ہو گئے۔ قسمت نے مزید یاوری کی، تو جمالی کی جگہ وزیراعظم بن گئے‘ اور ''باس‘‘ کے زوال کے بعد بریف کیس اٹھا کر، بیرونِ ملک چلے گئے۔
وزیر ہوابازی غلام سرور خاں نے کابینہ میں موجود غیرمنتخب معاونین خصوصی کا معاملہ اٹھایا ہے، تو انہیں یہ سوالات کسی اور سے نہیں، جناب وزیر اعظم سے کرنا چاہئیں تھے، جن کا یہ حضرات انتخاب ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے فواد چودھری نے بھی اہم تر فیصلوں میں غیرمنتخب لوگوں کے عمل دخل اور اثرورسوخ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا: ہم منتخب لوگوں کو اطلاع دے دی جاتی ہے‘ فیصلے تو یہی غیرمنتخب لوگ کرتے ہیں۔ کورونا کرائسس پر سؤوموٹو نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے یہ ریمارکس بھی ریکارڈ پر آ چکے کہ (غیر منتخب) مشیر اور معاونین خصوصی کابینہ کے منتخب ارکان پر حاوی نظر آتے ہیں۔ کابینہ غیر مؤثر ہو چکی ہے اور (معذرت کے ساتھ کہ) وزیراعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ 
وہی انگریزی محاورے والی بات، Method behind the madness۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر ہوابازی کا یہ احتجاج بھی اصولی سے زیادہ ذاتی ہے۔ واقفانِ درونِ خانہ کے مطابق کابینہ کے حالیہ اجلاس میں ملک کے چار، پانچ بڑے ایئرپورٹس کو آئوٹ سورس کرنے کی وزیر ہوابازی کی تجویز کی جن ارکان نے مخالفت کی، ان میں زلفی بخاری پیش پیش تھے‘ اور یہی چیز وزیر صاحب کے اس ''اصولی مؤقف‘‘ کے اظہار کا سبب بن گئی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں