30جون کے جمہور نامہ ''روشن تیرا نام منور !‘‘ پرجناب ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ جمہور نامہ کے آخری پیرے کی سطور تھیں: ''منور حسن کا دورِ امارت پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دور تھا ۔ اس حوالے سے منور صاحب کا اپنا نقطۂ نظر تھا۔2014ء میں وہ اگلی مدت کیلئے امیر منتخب نہ ہوسکے۔اس حوالے سے بہت سی گفتنی وناگفتنی باتیں کہنے سننے میں آئیں ۔ جناب سراج الحق کے حلف وفاداری میں سید منور حسن کے اس ''مطالبے‘‘ کی گونج دیر تک موجود رہی کہ اس انتخاب کیلئے جاری کئے گئے بیلٹ پیپرز میں سے پانچ ہزار بیلٹ کہاں گئے؟ ‘‘۔ اپنے گرامی نامہ میں جماعت میں طریقِ انتخاب کی تفصیل بیان کرنے کے بعد پراچہ صاحب کا کہنا ہے کہ ''سید منور حسن نے جس معاملے کا اظہار کیا‘ وہ ووٹ کاسٹنگ کا ریٹ تھا‘ یعنی اپنی سُستی ‘ عدم دلچسپی کی وجہ سے ووٹ کا استعمال نہ کرنا۔ اس میں کسی دیگر امکان کا شائبہ تک نہیں‘‘۔
جماعت اسلامی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں دستورِ جماعت کے مطابق ہر پانچ سال بعد امیرِ جماعت کا انتخاب ہوتا ہے ‘جس میں خود کو امید وار کے طور پر پیش کرنے کی کوئی روایت ہے نہ دستورِ جماعت میں اس کی کوئی گنجائش ۔مجلس شوریٰ تین نام تجویز کردیتی ہے۔ ناظمِ انتخاب ان تین ناموں پر مشتمل بیلٹ پیپر‘ ارکانِ جماعت کو ارسال کردیتا ہے۔ اس دوران انتخابی مہم کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ارکانِ جماعت ‘ ان تین ناموں کے علاوہ کسی چوتھے کو بھی ووٹ دینے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ جماعت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ2014ء میں امیرِجماعت دوسری بار منتخب نہ ہوسکے۔سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ1941سے1972ء تک امیر ِجماعت رہے‘تب طریقِ کار یہ تھا کہ ہر رکن جماعت کو ارکانِ جماعت کی فہرست ارسال کردی جاتی۔اس میں سے وہ کسی بھی رکن کو امارت کے لیے تجویز کرسکتا تھا۔جماعت کے متفقین ‘ کارکنوں اور ووٹروں کی تعداد تو لاکھوں میں تھی‘ لیکن ارکانِ جماعت کی تعداد چند سویا چند ہزار تھی‘ ان میں سے بیشتر باہم شنا سا ہوتے تھے۔ ارکان کی تعداد ہزاروں کو پہنچی تو شوریٰ نے اجازت کیلئے تین نام تجویز کرنے کی راہ نکالی‘ اس گنجائش کیساتھ کہ کسی چوتھے کو بھی ووٹ دیا جاسکتا ہے۔ 1972ء میں خرابی صحت کی بنا پر مولانا نے شوریٰ سے درخواست کی کہ آئندہ مدت کیلئے ان کا نام تجویز نہ کیا جائے۔شوریٰ نے جو تین نام تجویز کئے ‘ ان میں میاں طفیل محمد اور پروفیسر خورشید احمد کے علاوہ پروفیسر غلام اعظم بھی تھے۔ پروفیسر غلام اعظم برسوں سے جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے امیر چلے آرہے تھے۔1971 میں بحران کا خطرناک دور بھی وہیں گزارا ۔سیدمودودی اور جماعت کے دیگر رہنماؤں سے مشاورت کیلئے نومبر1971ء میں مغربی پاکستان آئے ۔ 22نومبرکو ڈھاکہ کیلئے محو پرواز تھے کہ مشرقی محاذ پر جنگ چھڑ جانے کے باعث ڈھاکہ کا ایئر پورٹ بند ہو گیا؛ چنانچہ سری لنکا سے ہوتے ہوئے جدہ پہنچ گئے۔ 16دسمبر کے المیے کی خبر لاہور میں سنی۔جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کیلئے ان کا نام کئی نوجوان کارکنوں کیلئے جذباتی مسئلہ بن گیا۔ یہ پہلا موقع تھاکہ جماعت کی روایت اور دستوری پابندی کے خلاف پروفیسر غلام اعظم کیلئے (محدود سطح پر ہی سہی)انتخابی مہم چلی‘ میاں طفیل محمد منتخب ہوگئے۔پروفیسر غلام اعظم 1974ء تک یہیں رہے اور پھر برطانیہ چلے گئے۔ 1978ء میں ڈھاکہ پہنچے‘ بنگلہ دیش کی شہریت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔11جنوری 2012ء کو حسینہ واجد کی حکومت نے 1971ء کے جنگی جرائم کے الزام میں گرفتار کر لیا۔15جولائی 2013ء کو سپیشل ٹربیونل نے 90سال قید کی سزا سنادی۔ 23اکتوبر 2014ء کو جیل میں دل کا دورہ پڑا اور 91سال کی عمر میں اگلے جہان سدھار گئے ؎
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بیقراری کو قرار آ ہی گیا
میاں طفیل محمد مسلسل تین بار امیرِ جماعت منتخب ہوئے ‘ یہاں تک کہ1987ء میں انہوں نے شوریٰ سے درخواست کی کہ نئی مدت کیلئے ان کا نام تجویز نہ کیا جائے۔ان کے جانشین قاضی حسین احمد چار بار منتخب ہوئے۔ 2009ء میں شوریٰ سے معذرت کرلی۔ نئے انتخاب کیلئے شوریٰ کے تجویز کردہ ناموں میں سید منور حسن‘ لیاقت بلوچ‘ اور سراج الحق تھے۔ منور صاحب منتخب ہوگئے۔ کہاجاتا ہے کہ 2014ء میں 73سالہ منور حسن نے اگلی بار کیلئے معذرت کی لیکن شوریٰ نے اسے منظور نہ کیا۔یہ چیز جماعت سے باہر کے تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں کیلئے بھی حیرت کا باعث تھی۔یہ شفافیت کا دور ہے؛ چنانچہ یہ بات بھی چھپی نہ رہی کہ تقریباً30ہزار بیلٹ پیپرز میں سے پانچ ہزار واپس نہیں آئے۔جماعت کے کیڈر سسٹم میں‘ ''رکنِ جماعت ‘‘اعلیٰ ترین کیڈرمیں آتا ہے ۔ اس سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ امیر جماعت کے انتخاب میں رائے دہی کے اہم ترین فرض میں کوتاہی کا مرتکب ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ جماعت کے الیکشن میں بھی سو فیصد ووٹنگ کبھی نہیں ہوئی۔ اس میں بیرونِ ملک ہونے کی معذوری ہوسکتی ہے‘ علالت یا کوئی اور ناگزیر مصروفیت بھی آڑے آسکتی ہے (رکنِ جماعت کو اس کی تحریری وضاحت کرنا پڑتی ہے )لیکن 30ہزار میں سے پانچ ہزار بیلٹ پیپرز کا واپس نہ آنا‘ ایک غیر معمولی بات تھی۔ منور صاحب کا دورِامارت پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دور تھا۔ اس حوالے سے منور صاحب کا اپنا نقطہ نظر تھا جس کے اظہار میں وہ کسی مصلحت‘ حکمت یا تکلف سے کام نہ لیتے( اس مسئلے پر ایک ٹاک شو میں تو خاصی گرما گرمی بھی ہوگئی تھی ) چنانچہ دور کی کوڑی لانے والوں نے پانچ ہزار بیلٹ پیپرز کی عدم واپسی کو اس حوالے سے بھی دیکھا اور بیان کردیا۔ نئے امیر جماعت کی حلف وفاداری میں ‘ منور صاحب نے بھی پانچ ہزار بیلٹ پیپرز کی بات کردی۔ اب ان کے انتقال پر لکھے گئے کالموں میں‘ ایک بار پھر یہ بات آ گئی۔ پراچہ صاحب نے اس کی وضاحت فرمادی ہے تو ہم اپنی رائے میں اصرار کیوں کریں۔ہمیں یقین ہوا‘ ہم کو اعتبار آیا۔
''جولائی کی وہ رات‘‘ شامی صاحب کا کالم آپ پڑھ چکے ۔ ائیر مارشل اصغر خان نے اپنی کتاب ''My Political Struggle‘‘میں چار جولائی 1970ء کی جو روداد بیان کی‘ اس پر بھی ایک نظر ڈال لیں: سردار عبدالقیوم خان کے ہاں ڈنر کے بعد میٹنگ ہوئی جس میں آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں شدید اختلاف رائے سامنے آیا۔ میری اور مولانا نورانی کی رائے تھی کہ ہمیں مذاکرات کے خاتمے اور ازسرنو تحریک شروع کرنے کا اعلان کردینا چاہے۔ سردار شیر باز مزاری کو بھی اس سے اتفاق تھا ۔پیر صاحب پگارا کی کوالیفائیڈسپورٹ بھی اسے حاصل تھی۔ دوسری رائے یہ تھی کہ بھٹو سے جو بھی Concessionsمل رہی ہیں ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاہدے پر دستخط کردیئے جائیں۔ میاں طفیل محمد اور پروفیسر غفور احمد کا مؤقف بھی یہی تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جماعت کسی نئی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی۔ میں نے واضح کردیا کہ بھٹو کے ساتھ مزید مذاکرات کی صورت میں کونسل کی کسی میٹنگ میں شریک نہیں ہوں گا۔ رات گئے پریس کانفرنس میں بھٹو نے اگلے روز پی این اے کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کی خواہش کا اظہار کردیا جبکہ اس سے پہلے وہ یہ کہہ کر مذاکرات کے خاتمے کے اعلان کر چکے تھے کہ ان کے پاس پی این اے کو دینے کیلئے مزید کچھ نہیں۔
5جولائی کے حوالے سے پی این اے کے مقبول ترین لیڈر نے لکھا: چکلالہ میں کورکمانڈر ہیڈ کوارٹر کے میس میں ہمیں بتایا گیا کہ آرمی نے ٹیک اوور کرلیا ہے...''اقتدار کے حریص ایک پاگل آدمی کے ساڑھے پانچ سالہ گندے دور کا یہ انجام ناگزیر تھا‘‘۔