"RTC" (space) message & send to 7575

وفا کا نام بھی زندہ ہے‘میں بھی زندہ ہوں

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر لیڈر شپ میںجو دوتین لوگ گرفتاری سے بچے ہوئے تھے ان میں ایک خواجہ محمد آصف بھی تھے اور وہ بھی منگل کی شب آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں دھر لئے گئے ؎
اک دسترس سے تیری حالی بچا ہوا تھا
اس کو بھی تونے ظالم چرکہ لگا کے چھوڑا
وہ اسلام آباد میں احسن اقبال کی رہائش پر مسلم لیگ (ن) کے ایک غیر رسمی مشاورتی اجلاس میں شریک تھے (مریم نواز بھی موجود تھیں)۔ ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں شرکت کے لیے انہوں نے اجازت چاہی اور گلی کی نکڑ پر پکڑ لئے گئے۔ اجلاس کے بعد ہونے والی میڈیا بریفنگ کے لیے ٹی وی کیمرے پہلے سے موجود تھے۔ ٹائی اور تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے خواجہ نے میڈیا والوں کو سرکاری گاڑی سے الوداع کہا اور روانہ ہوگئے۔کوروناماسک کے باوجود مسکراہٹ عیاں تھی۔ شام کے بعد‘ ایک غیر رسمی اجلاس میں اس اہتمام کے ساتھ شرکت بظاہر عجیب سی بات محسوس ہوتی ہے لیکن خواجہ صاحب کے قریبی احباب کا کہنا ہے کہ اس اہتمام کی ایک خاص وجہ تھی۔ خواجہ صاحب کو اندازہ تھا کہ انہیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ یہ سوٹڈ بوٹڈ ہونا بھی اسی کا حصہ تھا کہ وہ گرفتاری کے لمحات کو شاندار اور باوقار ربنا سکیں۔کہا جاتا ہے کہ تفتیش کیلئے نیب میںپیشی پر بھی وہ اپنا اٹیچی کیس گاڑی میں ساتھ لاتے کہ حراست کی صورت میں ضروری سامان گھر سے نہ منگوانا پڑے۔ 
سید مشاہد حسین نے راقم سے ایک انٹرویو میں 18اپریل1993ء کی شب کا واقعہ بیان کیا تھا۔ وزیر اعظم نوازشریف ایک شب قبل(17اپریل)کو قوم کے نام معرکہ آرا خطاب کرچکے تھے جس میں اپنے خلاف ایوانِ صدر میں ہونے والی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ مقابلہ کریں گے‘ ڈکٹیشن لیں گے‘ نہ استعفے دیں گے اور نہ قومی اسمبلی توڑنے کے لیے ''سفارش‘‘ کریں گے۔ مشاہد حسین وزیر اعظم نوازشریف کے سخت ناقدین میں شمار ہوتے تھے‘ وہ اپنے اخباری مضمون میں انہیں ''ہریسہ وزیر اعظم‘‘ لکھا کرتے ۔ وزیر اعظم کا یہ نیا روپ ان کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا ۔ وزیر اعظم کے اس خطاب کو ''اعلانِ بغاوت‘‘ تصور کرتے ہوئے‘ صدر غلام اسحاق خان انہیں مزید ڈھیل دینے کو تیار نہیں تھے۔ وزیر اعظم کے خلاف کارروائی کے لیے ایوانِ صدر میں آخری تیاریاں جاری تھیں ۔ قائد حزب ِاختلاف محترمہ بے نظیر بھٹو لندن سے اسلام آباد پہنچیں اور ایئر پورٹ سے سیدھے ایوانِ صدر کا رخ کیا کہ جنابِ صدر کو وزیر اعظم کے خلاف کارروائی کے لیے اپنی حمایت کا یقین دلا سکیں۔ جناب صدر کی تقریر تیار کی جارہی تھی۔ پرائم منسٹر ہائوس ایوان ِ صدر کی ان سرگرمیوں سے بے خبر نہ تھا۔ اپریل کے تیسرے ہفتے کی اس خوشگوار شب‘ پرائم منسٹر ہائوس کے لان میںوزیر اعظم اپنے رفقا کے ساتھ موجود تھے‘ مطمئن ‘ ہشاش بشاش اور پراعتماد۔ مشاہد حسین کا کہنا تھاکہ وہ بھی اس بیٹھک میں پہنچ گئے۔ اس سوال پر کہ آپ کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہوگا؟ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پرائم منسٹر ہائوس سے سیدھا جیل جانے کو بھی اور اس کے لیے ان کا اٹیچی کیس تیار ہے۔
ہم خواجہ آصف کی بات کررہے تھے‘ ان کے اٹیچی کیس سے نوازشریف کے اٹیچی کیس کی بات یاد آگئی۔ منگل کی شب خواجہ آصف کی گرفتاری پر اپنے شدید ردِ عمل میں مریم نواز اسے ''اغوا کی واردات‘‘ قرار دے رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا‘ خواجہ صاحب نے انہیں یہ بات بتائی تھی کہ چندروز قبل ''کسی‘‘ نے ان سے ملاقات میں مشورہ دیا کہ وہ نوازشریف کو چھوڑ دیں (یا ان کے بیانیے سے اختلاف کا اظہار کریں )تو پندرہ ‘ بیس روز میں ان کے خلاف تمام کیس ختم ہوجائیں گے۔ یہی بات خود خواجہ صاحب نے بھی نیب عدالت میں ریمانڈ کے لیے پیشی پر میڈیا سے گفتگو میں کہی۔ سابق سپیکر ایاز صادق نے اس مصرع طرح پر گرہ لگائی کہ خواجہ صاحب کے علاوہ انہیں اور کچھ دوسرے ساتھیوں کو بھی اسی قسم کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس سوال پر کہ خواجہ سے یہ بات کس نے کہی‘ مریم کا کہنا تھا کہ وہ یہ نام اس لیے نہیں بتا سکتیں کہ یہ خواجہ صاحب کی امانت ہے۔ مریم(یا خواجہ صاحب اور ایاز صادق) نام نہ بھی بتائیں ‘ جہا ںتک اس ''پیشکش‘‘ کا تعلق ہے‘ اس میں ''خبر‘‘ والی کیا بات ؟ بھٹو صاحب کے دور میں ادا کارہ ممتاز کو ایک ثقافتی تقریب میں رقص کے لیے لاڑکانہ چلنے کو کہاگیا۔ اس میں شاید رعب اور دبدبہ کا عنصر کچھ زیادہ تھا‘ جس پر اداکارہ کی عزتِ نفس نے انگڑائی لی اور اس نے انکار کردیا ۔ اس پر جالب کی ایک نظم بہت مشہور ہوئی۔
لاڑکانے چلو‘ ورنہ تھانے چلو
''رقص زنجیرپہن کر بھی کیا جاتاہے‘‘ والی شہرہ آفاق نظم بھی جالب ہی نے لکھی تھی۔یہ فیلڈ مارشل ایوب خاں کا زمانہ تھا۔ نواب آف کالا باغ مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ پڑوسی ملک کے ایک شہنشاہ کے لیے گورنر ہائوس میں استقبالیہ تقریب تھی‘ جس میں ثقافتی شو بھی تھا۔ یہ اداکارہ نیلو کے عروج کا دور تھا۔ کہا جاتا ہے‘ اس پروگرام میں شرکت سے انکار پر‘ اسے زبردستی گورنر ہائوس لے جایا گیا جس پر جالب نے یہ نظم لکھی ؎
تو کہ ناواقفِ آدابِ شہنشاہی تھی 
رقص زنجیر ِپہن کر بھی کیا جاتا ہے
یہ گیت بعد میں اداکارہ نیلو پرفلمایابھی گیا۔ فلم ''زرقا‘‘ میں اس کا رول آزادی کے لیے برسرِ پیکار ایک فلسطینی مجاہدہ کا تھا۔ نیلو کے شوہر ‘ ریاض شاہد اس فلم کے ڈائریکٹر تھے۔ 
ایک ہی کالم میں قلم کی دوبارہ آوارہ خرامی پر قارئین سے پھر معذرت۔ مقدمات سے بچنے کے لیے نوازشریف (یااس کے بیانیے) سے لاتعلقی کی پیش کش ایک ایسی بات ہے جس میں سیاست میں دلچسپی رکھنے و الے کسی بھی شہری کے لیے کوئی ''خبر‘‘ نہیں۔ یہ تو ''صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے‘‘والی بات ہے۔
لیکن اب دنیا بدل چکی ‘ راتوں رات خانہ ساز پارٹیاں بننے (اور بنانے ) کا عمل اب آسان نہیں رہا۔ نوازشریف کو اقتدار سے محروم ہوئے‘ ساڑھے تین سال ہوچکے ‘ وہ سزایافتہ( اور زندگی بھر کے لیے کسی منصب کے لیے نااہل ) بھی قرار پاچکے۔ اس دوران انہوں نے جیل بھی کاٹ لی ۔وہ اب بھی علاج کے لیے بیرون ملک ہیں۔ ڈیڑھ ماہ بعد ان کے پاسپورٹ کے خاتمے کی خبریں بھی آچکیں۔ ان کی صاحبزادی بھی ضمانت پر ہے ۔ایون فیلڈ کیس میں وہ بھی سات سال قید اور الیکشن کے لیے نااہلی کی سزا یافتہ ہیں‘ لیکن پی ڈی ایم کے جلسوں میں سب سے زیادہ ''کرائوڈ پُلر‘‘وہی ہیں۔ 
اس میں کیا شک کہ مسلم لیگ (ن) میں سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے دونقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ شہبازشریف کو مفاہمانہ نقطہ نظرکا حامل قرا ردیا جاتاہے‘ خواجہ آصف بھی ''اِسی گروپ‘‘ میں شمار ہوتے ہیں‘ لیکن وہ اس کے باوجود ''پارٹی پالیسی‘‘ کے پابند ہیں اور یہ پارٹی پالیسی کیا ہے؟ وہی نوازشریف کا بیانیہ ۔ شہباز شریف اپنے بھائی سے بے وفائی پر آمادہ ہیں‘ اور نہ خواجہ آصف ‘ اس شخص سے لاتعلقی اختیار کرنے پر تیار ‘ جس سے ان کی دوستی کالج کے دور سے چلی آرہی ہے اور جس سے ان کی سیاسی رفاقت کو بھی چار عشرے ہونے کو ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں غالب اکثریت کا یہی معاملہ ہے۔ نواب زادہ صاحب شعر پڑھا کرتے تھے ؎
رہیں نہ رند‘ یہ واعظ کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے‘ دو‘ چار‘ دس کی بات نہیں
وفاداری پر مصطفی زیدی یاد آئے ؎
وفا کا نام بھی زندہ ہے‘ میں بھی زندہ ہوں
تو اپنا حال سنا‘ مجھ کو بے وفا میرے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں