نوخیز وزیر اعظم عمران خان اور تجربہ کار چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ واشنگٹن پہنچ چکے ہیں۔ انہیں اس دورے کی دعوت وائٹ ہائوس نے دی تھی۔ وفاقی وزرا، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور دیگر اعلیٰ حکام بھی وزیر اعظم کی معاونت کے لیے ان کے ہمراہ ہیں۔ اس تحریر کی اشاعت تک وزیر اعظم پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کر چکے ہوں گے‘ جس کا اہتمام پاکستان تحریک انصاف نے اپنی مدد آپ کے تحت کیا ہے۔
ماضی کے برعکس یہ پہلا موقع ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف ایک کمرشل فلائٹ کے ذریعے مختصر ترین وفد کے ساتھ واشنگٹن گئے ہیں۔ ان کے ساتھ نہ رشتہ دار ہیں اور نہ ہی غیر ضروری وزرا جبکہ میڈیا نمائندگان بھی اپنے خرچے پر واشنگٹن پہنچ چکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس وقت آزادیٔ اظہارِ رائے کو ایک مسئلے کے طور پر بیان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تمام اخبارات شائع ہو رہے ہیں‘ تمام ٹی وی چینلز اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں‘ ٹاک شوز پر بحث و مباحثہ جاری ہے‘ لیکن ایک مخصوص گروپ کی طرف سے یہ پروپیگنڈا مسلسل کیا جا رہا ہے کہ میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ماضی میں جب بھی صدر مملکت یا وزیر اعظم بیرون ملک دوروں پر جاتے تھے تو مخصوص میڈیا نمائندگان بھی سرکاری خرچے پر سفر، قیام و طعام اور سیر سپاٹے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
جولائی 2008 میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے امریکہ کا دورہ کیا‘ تو وزرا کی خاصی بڑی تعداد ان کے ساتھ تھی۔ اس دورے کا بنیادی مقصد جنرل پرویز مشرف سے چھٹکارہ حاصل کرنا تھا‘ جس کی منظوری سید یوسف رضا گیلانی نے امریکی حکام سے حاصل کی تھی‘ اور ان کی وطن واپسی تک پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ یوں این آر او کے ذریعے پاور شیئرنگ کا فارمولہ طے کرنے والے پرویز مشرف کو ایوانِ صدر چھوڑنا پڑا۔
وزیر اعظم نواز شریف اکتوبر 2015 میں صدر اوبامہ کی دعوت پر واشنگٹن گئے تو دورے سے پہلے امریکی حکام سے جو سب سے بڑی خواہش کی گئی‘ وہ تھی بلیئر ہائوس میں قیام‘ جو پوری کر دی گئی۔ اس دورے میں نواز شریف کے ساتھ ان کی اہلیہ، بیٹی مریم اور ان کے بچے بھی تھے‘ جبکہ دانشوروں کا ایک وفد بھی کوریج کے لیے موجود تھا۔ اس دورے کی خاص بات وائٹ ہائوس میں مریم نواز کی مشعل اوبامہ سے ملاقات اور تقریب سے خطاب تھا‘ جس میں مریم نواز نے مشعل اوبامہ کو بتایا کہ جنرل پرویز مشرف اور فوج نے ان کے والد نواز شریف پر بڑے ظلم کیے اور اب وہ سول حکمرانی کے لیے پاکستان میں مستقبل کی آواز ہیں۔ مریم بی بی یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آبدیدہ بھِی ہو گئی تھیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو بھی بلیئر ہائوس میں قیام کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے پاکستان ہائوس میں رہنے کو ترجیح دی۔ عمران خان کا بلیئر ہائوس میں قیام نہ کرنا حکمت عملی کا تقاضا بھی تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے امریکہ جانے کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ ماضِی میں جب معاملات انتہائی حساس ہوتے تھے تو جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف نے بھی سول قیادت کے ساتھ امریکہ اور سعودی عرب کے دورے کیے تھے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ دورۂ امریکہ انتہائی اہم نوعیت کا ہے۔ اگر یہ کامیاب رہا تو اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے اور پاک امریکہ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ایک نئی سوچ اور نئی حکمت عملی کے تحت ہو گا‘ جن میں دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ ایک دوسرے کے مفادات اور خطے میں پائیدار قیام امن کے لیے باہم مل کر کام کر سکیں گے‘ اور ان باہمی تعلقات کا مقصد خطے میں کسی دوسرے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانا نہیں ہو گا۔
امریکہ یہ سمجھتا تھا کہ افغانستان میں پاکستان نے اس کا بھرپور ساتھ نہیں دیا‘ بلکہ افغانستان میں امریکی شکست کی ذمہ داری بھی وہ پاکستان پر ڈال رہا تھا۔ جبکہ عمران خان نے 2013 میں ہی کہہ دیا تھا کہ طالبان سے بات چیت کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری بھی پاک امریکہ تعلقات کو خراب کرنے کی ایک بڑی وجہ تھی‘ جس کو سبوتاژ کرنے کیلئے امریکہ نے افغانستان اور انڈیا سے مل کر بھرپور کوششیں کیں۔
ایران امریکہ تنازع میں بھی امریکہ پاکستان کو اپنے بلاک میں شامل کرنا اور خطے میں بالخصوص افغانستان میں بھارت کو ایک بھرپور کردار دینے کا خواہاں تھا۔ امریکہ کی خواہش ہی نہیں بلکہ پاکستان پر دبائو تھا کہ وہ افغان طالبان کو کان سے پکڑ کر امریکہ کے سامنے مذاکرات کی میز پر بٹھا دے اور جو امریکہ کہتا ہے وہ تمام باتیں افغان طالبان تسلیم کریں۔
اور امریکہ نے ایک اور خواہش کا بھی اظہار کیا تھا کہ عام انتخابات 2018 میں ان کی ہم خیال جماعتوں کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کی جائے تاکہ مستقبل میں ان کے سیاسی تجربے سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
ان ''خواہشات‘‘ کی امریکہ کے اصول کے مطابق ''عدم تعمیل‘‘ کے نتیجے میں پاک امریکہ تعلقات کشیدہ تر ہوتے گئے جبکہ اس دوران ڈان لیکس نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جنرل باجوہ نے متعدد بار عسکریت پسند گروپوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ایک موثر بیانیہ دیا‘ لیکن نواز حکومت نے ہر بار یہ کہہ کر روک دیا کہ اس سے ہمیں سیاسی نقصان ہو گا۔ ان حالات میں امریکہ نے پاکستان سے سیاسی کے ساتھ ساتھ دفاعی تعلقات بھی توڑنا شروع کر دیئے اور تمام تر امداد بند کر دی‘ یہاں تک کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی واجب الادا رقم بھی دینے سے انکار کر دیا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیاسی سماجی، عسکری سفارتکاری جاری رکھی اور اس بیرونی دبائو کا صبر و تحمل سے سامنا کیا۔ اس دوران عام انتخابات ہوئے اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے‘ جس کے بعد سول ملٹری تعلقات نہ صرف بحال ہو گئے بلکہ تمام امور مملکت ایک قومی سوچ اور قومی مفادات کو سامنے رکھ کر سرانجام دیئے جانے لگے۔ پاکستان نے ایران امریکہ، ایران سعودی، قطر سعودی عرب تنازعات میں ایک متوازن اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کیا‘ جبکہ سی پیک کے منصوبوں کو بھی خاموشی سے جاری رکھا اور وہ یہاں تک پہنچ گئے کہ اب سی پیک کو پیک نہیں کیا جا سکتا۔
خطے میں چین، روس، ایران، ترکی، سعودی عرب کے ساتھ علاقائی سطح پر باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک میکنزم موجود ہے۔ افغانستان کے مسئلے پر روس، چین، پاکستان اور ایران انٹیلی جنس سربراہان بھی ایک مشترکہ پلان رکھتے ہیں اور باہمی طور پر کئی بار مل چکے ہیں۔
افغانستان میں امریکی پالیسی اور اثرورسوخ ختم ہونے کے قریب ہے اور وہ افغانستان سے ''باعزت‘‘ فیس سیونگ کے لیے ایک محفوظ راستہ چاہتا ہے جس کا راستہ اسلام آباد سے ہو کر گزرتا ہے۔ خطے میں بھارتی ''سپرمیسی‘‘ مسلط کرنے کا منصوبہ ناکام ہو چکا ہے۔ بالا کوٹ کے بعد بھارتی جارحیت کا جو منہ توڑ جواب پاکستان کی طرف سے دیا گیا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔
پاکستان عظیم قربانیاں دے کر آپریشن راہ راست، ضرب عضب اور ردالفساد کی کامیابی کے بعد قبائلی اضلاع کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر چکا ہے۔ قبائلی اضلاع میں تاریخ کے پرامن ترین انتخابات منعقد ہو چکے ہیں اور علاقہ غیر کہلانے والے علاقے اب قومی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں۔ قبائلی اضلاع کو علاقہ غیر اور الگ صوبہ بنانے کا منصوبہ ناکام ہو چکا ہے۔ پاک افغان ڈیورنڈ لائن کا نام نہاد بیانیہ دم توڑ چکا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کے ذریعے پاکستان کو دھمکیاں دے کر دبانے اور جنوبی ایشیا کے بارے میں یکطرفہ پاکستان مخالف پالیسی غیرکارآمد ثابت ہو چکی ہے اور پاکستان دوست ممالک کے تعاون سے سخت ترین معاشی دبائو سے قدرے نکل چکا ہے۔
پلوامہ، بالا کوٹ کے بعد بھارت عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ ہار چکا ہے اور کلبھوشن یادیو کو بھارتی جاسوس اور دہشت گرد تسلیم کرکے بھارتی ریاستی دہشتگردی بھی تسلیم شدہ تصور کر لی گئی ہے۔
ان حالات میں عمران خان کا دورہ امریکہ اور بھی اہم ہے۔ اس دورے سے پہلے بیک ڈور چینل پر دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام کم از کم مشترکہ نکات پر اتفاق کر چکے ہیں‘ جن کا اعلان اور اقدامات دورے کے بعد نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ امریکی سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔ بڑے بڑے کارپوریٹ سیکٹر اور مالیاتی اداروں کے راہنمائوں اور پالیسی سازوں سے بھی ملاقات کے دو سیشن ہوں گے ۔ وائٹ ہائوس میں ہونے والے سیشن میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وفد کے دیگر ارکان بھی وزیر اعظم کی معاونت کے لیے موجود ہوں گے۔ اس دورے میں پاکستان دو طرفہ تعاون، معیشت کی بحالی، مالیات، ٹیکنالوجی، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، سائنس، تعلیم اور ٹیکنالوجی، قانون نافذ کرنے اور انسداد دہشت گردی، دفاع، سکیورٹی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا۔
امریکہ پاکستان کے بڑے کاروباری شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ پاک امریکہ تجارتی حجم 6.26 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ امریکہ میں پاکستان کی بڑی برآمدات میں ٹیکسٹائل، ملبوسات، جراحی آلات، زیورات وغیرہ شامل ہیں جبکہ پاکستان کی بڑی بڑی درآمدات میں اناج، بیج، کپاس وغیرہ شامل ہیں۔ امریکہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروں میں اہم ترین ہے۔ امریکی براہ راست سرمایہ کاری میں مشروبات، کیمیکل،مالیاتی کاروبار‘ تیل اور گیس کی تلاش سمیت تعمیر، مواصلات اور پاکستان کے الیکٹرانک شعبوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اس دورے میں پاکستان امریکی کمپنیوں کو اقتصادی زون میں سرمایہ کاری کی دعوت دے گا۔
امریکی شہریوں کے لیے پاکستان سیاحتی ویزوں میں پہلے ہی نرمی کر چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نیشنل ایکشن پلان پر موثر عملدرآمد شروع کر چکی ہے‘ جس کے نتیجے میں عسکریت پسند تنظیموں پر پابندی اور انہیں قومی دھارے لانے کے منصوبے پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ، انسدادِ دہشت گردی کے لیے کئے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کر چکا ہے اور افغانستان میں پائیدار قیام امن اور امریکی فوج کے باعزت انخلا پر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے مفادات اور تحفظات کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کی مدد سے کام کرنے والی دہشتگرد تنظیم بی ایل اے پر امریکہ پہلے ہی پابندیاں عائد کر چکا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی سول اور ملٹری لیڈرشپ کا یہ دورہ پاک امریکہ تعلقات کی ایک نئی شروعات کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک طرف عمران خان سول لیڈرشپ‘ سول سوسائٹی اور دیگر حکام سے سفارتی میدان میں کھیلتے نظر آئیں گے‘ تو پینٹاگون کا محاذ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی ٹیم سنبھالے گی۔ سول ملٹری لیڈرشپ مل کر ایک خوبصورت کمبی نیشن کے ساتھ کھیلے گی تو یقیناً اس کا فائدہ پاکستان اور عوام کو ہی ہو گا کیونکہ گزشتہ ایک سال سے پاکستان کی سول ملٹری لیڈرشپ کے داخلی و خارجی سطح پر اہداف بڑے واضح ہیں۔ قبائلی اضلاع اور کراچی میں بد امنی پر قابو پایا جا چکا ہے‘ جبکہ بلوچستان میں صورت حال دن بدن بہتر ہو رہی ہے۔ جنرل محمد ضیاالحق کے دور میں روس افغان معاملات کے حوالے سے شروع کی جانے والی پالیسی کو 180 کے زاویے سے ریویو کیا جا رہا ہے۔ دینی مدارس کو قومی دھارے میں قومی تعلیمی نظام کے ساتھ منسلک کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ان حالات میں پاکستان سے کوئی نیا مطالبہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ دیکھتے ہیں ریسلنگ رِنگ کے باہر لڑنے والے ٹرمپ اور کرکٹ کے میدان میں لڑنے والے عمران خان کی ملاقاتوں سے کیا برآمد ہوتا ہے؟
پاکستانی ہونے کے ناتے ہمیں خیر کی توقع ہی کرنی چاہیے۔ اپنے سیاسی، ذاتی، عناد، بغض، انتقام، حسد اور جلن کی آگ میں جلتے ہوئے قومی مفاد کی سرخ لائن عبور کرنے کے بجائے اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے۔