وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ امریکہ کے نتیجے میں کیا کیا برآمد ہو گا اور کن کن امور پر کیا کیا معاملات طے پائے‘ اس بارے میں اطلاعات آہستہ آہستہ منظرعام پرآئیں گی‘ لیکن دونوں اطراف سے انتہائی مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ پاکستان کا دفتر خارجہ تو اس دورے کو کامیاب اور مفید قرار دے چکا ہے لیکن امریکی محکمہ خارجہ بھی عمران ٹرمپ ملاقات کو پاک امریکہ تعلقات کی نئی شروعات قرار دے رہا ہے حالانکہ یہ وہی امریکی محکمہ خارجہ ہے‘ جس نے چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا تھا اور امریکی محکمہ کے اس بیان پر شریف فیملی نے خوب بغلیں بجائی تھیں۔
وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ پر تو سب کی نظریں تھیں لیکن خاص طور پر عمران ٹرمپ ملاقات کے نتائج کے سب منتظر تھے اور پاکستان اور امریکہ کے کسی بھی صحافی کے پاس اس ملاقات سے نکلنے والی کسی بریکنگ نیوز کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ یہاں تک کہ ملاقات ختم ہوتی ہے اور دونوں رہنما میڈیا کے نمائندوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔
امریکی صدر نے اچانک بتایا کہ دو ہفتے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقات ہوئی‘ اور بھارتی وزیراعظم نے مجھ سے درخواست کی کہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کام کروں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جواباً بھارتی وزیر اعظم سے پوچھا کہ ثالثی کس مسئلے پر؟
نریندر مودی نے ڈونلڈٹرمپ سے کہا ''کشمیر کے مسئلے پر‘‘۔ صدرٹرمپ نے پیشکش کی کہ بھارتی وزیراعظم ان سے کہہ چکے ہیں‘ اگر پاکستان بھی راضی ہو تو وہ کشمیر کے معاملے پر ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ گزشتہ ستر برسوں میں شاید یہ پہلاموقع ہے کہ بھارت نے کسی تیسرے فریق اور وہ بھی دنیا کی سپر پاور کے سربراہ سے کہا ہو کہ وہ تنازعہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے۔ اس سے قبل ثالثی کی خواہش ہمیشہ پاکستان کی طرف سے آتی تھی لیکن بھارت ہمیشہ اسے دوطرفہ مسئلہ کہہ کر کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو مسترد کر دیتا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ کی پیشکش کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ستر سال پُرانے تنازعہ کشمیر کو حل کرنے میں کردار ادا کرنے سے انسانیت کی خدمت ہوگی اور کشمیریوں کی دعائیں بھی ملیں گی۔ اس بریکنگ نیوز کا مقبوضہ کشمیر کی تمام کشمیری قیادت نے بھرپور خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ہوا کا تازہ جھونکا کہا‘ جبکہ بزرگ ترین حریت رہنما سید علی گیلانی نے عمران خان کا شکریہ ادا کیا۔ دوسری جانب بھارتی اپوزیشن نریندر مودی کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے کہ بتایا جائے‘ بھارت کی کشمیر پالیسی میں یہ تبدیلی کب آئی۔ بھارتی دفترخارجہ کی ڈھیلی ڈھالی تردید کے باوجود امریکی حکام اپنی بات پر قائم ہیں اور جب صدرٹرمپ کے اکنامک ایڈوائزر لیڈ کڈلو سے امریکی صدر کے اس بیان پر پوچھا گیا تو انھوں نے بھی دوٹوک انداز میں کہا کہ صدر ٹرمپ نے جو کہنا تھا‘ کہہ چکے اور امریکی صدر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑتے نہیں ہیں۔ نریندر مودی نے فی الحال چُپ سادھی ہوئی ہے۔ وہ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ ''بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘ دوسری جانب پاکستان میں بھی کشمیر پر اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے دورہ امریکہ پر انتہائی سنجیدہ ردعمل کا اظہارکیا لیکن مریم صاحبہ نے ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر پر بات پاکستان کی طرف سے آنی چاہئے تھی جو اب کے طور پر نہیں۔ اس ٹویٹ پر مجھے ان کے والد نواز شریف یاد آ گئے جو ایک زمانے میں دائیں بازو کے بڑے رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ خاص طور پر کشمیری عوام اور دونوں طرف کی کشمیری قیادت ان سے بہت پیار کرتی تھی۔ پانامہ کیس کے دوران ایک روز مجھے سری نگر سے ایک حریت لیڈر کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ آپ لوگ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کا بھی تذکرہ کرتے رہا کریں‘ اس سے ہمیں کچھ حوصلہ ملتا ہے اور ہم ریلیف محسوس کرتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ حریت قیادت تو نواز شریف سے بھی رابطے میں ہے‘ آپ لوگ ان سے بھی رجوع کریں۔ حریت لیڈر نے درد بھرے لہجے میں کہا کہ میاں نواز شریف اب وہ والے نہیں رہے۔ حریت رہنما نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے کچھ لوگ میاں نواز شریف سے لندن میں ملے تھے اور انہیں درخواست کی تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بار پھر وزیراعظم بنا دیا ہے تو اب آپ کشمیر کا مسئلہ حل کرانے میں اپنا کردار ضرور ادا کریں۔ حریت رہنما نے بتایا کہ نواز شریف کا جواب سن کر ہم سب سکتے میں آ گئے تھے۔ نواز شریف صاحب نے کہا تھا کہ کشمیر کے معاملے میں اب آپ لوگ ادھر ادھر دیکھنا چھوڑ دیں اور اپنا مستقبل دہلی کے ساتھ مل کر تلاش کریں۔ حریت رہنما نے بتایا کہ اس جواب کے بعد انہوں نے میاں نواز شریف سے امیدیں لگانا چھوڑ دی ہیں۔
نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کو دعوت نامہ دیا گیا۔ پاکستان میں متعین بھارتی ہائی کمشنر نے دفتر خارجہ میں دعوت نامہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ دعوت نامہ مشروط ہے کہ پاکستانی وزیراعظم دہلی کے دورے کے دوران صرف حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوں گے اور کشمیری قیادت سے ملاقات نہیں کریں گے۔ اسلام آباد کے دفتر خارجہ اور دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے میاں نواز شریف کو تجویز دی کہ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ شرمناک ہے‘ اس لیے آپ دہلی نہ جائیں اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو بھیج دیں۔ میاں نواز شریف نے اس تجویز سے اتفاق نہ کیا اور نریندر مودی کو مبارکباد دینے دہلی جا پہنچے۔ اس وقت ممبئی حملوں‘ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس‘ پٹھانکوٹ جیسے واقعات کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات واجبی سے تھے۔
میاں نواز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد بھارت کو یکطرفہ طور پر انتہائی پسندیدہ قوم (موسٹ فیورٹ نیشن) کا درجہ دینے کی بھی کوشش کی‘ جس میں وہ ناکام رہے تاہم ان کے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ذاتی تعلقات میں گرمجوشی بڑھی۔ دہلی میں متعین رہنے والے ایک پاکستانی ہائی کمشنر نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک روز دہلی ہائی کمیشن کو ان (نواز شریف) کے سٹاف نے موبائل فون پر بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف آپ سے فوراً فون پر بات کرنا چاہتے ہیں آپ فوری اپنے دفتر پہنچیں۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے بتایا کہ وہ انتہائی ضروری سفارتی کام چھوڑ کر دہلی ہائی کمیشن اپنے دفتر میں پہنچے۔ وزیراعظم آفس کو اطلاع دی گئی کہ ہائی کمشنر وزیراعظم سے بات کرنے کے لیے دستیاب ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کا فون آتا ہے اور وہ تحکمانہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ آپ بھارت کے فلاں فلمسٹار کو پاکستان کا ویزہ کیوں نہیں دے رہے؟ ہائی کمشنر کا سارا جوش و جذبہ ہوا ہو جاتا ہے اور وہ جواب دیتے ہیں کہ جناب وزیر اعظم ابھی تو اس فلمسٹار نے ویزے کے لیے درخواست ہی نہیں دی‘ انہیں کہیں کہ ویزے کے لیے اپلائی کریں۔ اس پاکستانی ہائی کمشنر نے بتایا کہ وہ فون کال سن کر وہ کئی دن صدمے سے نہیں نکلے کیونکہ جس بھارتی فلمسٹار کو پاکستانی ویزہ جاری کرنے کا وزیراعظم نواز شریف حکم دے رہے تھے وہ پاکستان کیخلاف میڈیا میں خوب ہرزہ سرائی کر رہا تھا۔ یہ واقعات بطور حوالہ پیش کیے گئے کہ ماضی میں کشمیر کا تنازعہ اور کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی ظلم و ستم کو ہم نے ذاتی تعلقات پر قربان کر دیا تھا۔
بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے نتیجے میں دو بھارتی طیارے گرانے اور ابھی نندن کو گرفتار کرنے کے بعد اسے اس کے ملک کے حوالے کرنے کے بعد بھارت ایک شکست خوردہ ملک تھا۔ وہ اپنی تمام تر دھمکیوں اور منصوبہ بندی کے باوجود پاکستان کو کوئی بھی نقصان نہ پہنچا سکا۔ بھارتی طیارے گرانے اور ابھی نندن کی گرفتاری کے بعد پاکستان اور بھارت خطرناک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ اس کشیدگی کو ختم کرانے میں دوست ممالک نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ شاید وہی لمحہ تھا جب عالمی برادری کے سامنے تنازعہ کشمیر ایک بار پھر اجاگر ہوا۔
پٹھانکوٹ اور بالاکوٹ واقعات کے حوالے سے جو سکرپٹ انڈیا اور اس کے حواریوں نے لکھا تھا اس کا رد عمل اس کے برعکس آیا۔ بالاکوٹ میں بھارتی جارحیت کی کوشش کے بعد پاکستان کو دبائو میں لانے کی جو کوشش کی گئی وہ بارآور ثابت نہ ہو سکی‘ اور عالمی دبائو کے برعکس پاکستان نے24 گھنٹے کے اندر بھارت کو اس کے میدان میں مارا۔ ایک بند کمرے کے اجلاس میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے جو اہم ترین فیصلہ کیا تھا وہ بھارت اور اس کے حواریوں کو معلوم ہوا تو اس کے بعد صورتحال کو ڈی فیوز کرنے کے لیے دوست ممالک نے اہم کردار کیا اور دونوں ملکوں کو خوفناک جنگ سے بچایا۔
اس پس منظر میں امریکی صدر ٹرمپ سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی درخواست سمجھ میں آتی ہے اور امریکہ کی دلچسپی بھی اس خطے میں اس کے اپنے مفادات کی وجہ سے ہے۔ امریکہ کو افغانستان میں پاکستان کی مدد کی اشد ضرورت ہے جبکہ سی پیک ایران‘ افغانستان اور امریکہ کو یہ احساس دلانے میں کافی ہیں کہ فی الوقت پاکستان خطے کا اہم ترین ملک ہے۔
بھارت کی یو این سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست کی خواہش اور مقبوضہ کشمیر میں روز بروز بگڑتی صورتحال نے بھارت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی تحریک حریت کی دہلی نواز کشمیری قیادت کو بھی یو ٹرن لینے پر مجبور کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی رپورٹس نے بھی عالمی برداری کا ضمیر جھنجھوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان حالات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش سے پاکستان کو بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے اور کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اور تعلقات کو توڑنے اور نبھانے میں امریکہ جیسا بے رحم ملک اور کوئی نہیں ہے۔ روس کی شکست کے بعد امریکہ نے پاکستان کو نہ صرف ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کیا بلکہ دنیا کی واحد سپر پاور بننے کے بعد سب سے زیادہ پابندیاں بھی اپنے طویل ترین حلیف پاکستان پر ہی عائد کیں۔
ہماری بہتر خارجہ پالیسی اور منظم حکمت عملی ہی بہتر نتائج دے سکتی ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ آئندہ امریکی صدارتی انتخاب بھی ڈونلڈ ٹرمپ جیتیں گے اور وہ آئندہ سال امریکی صدارتی انتخاب سے پہلے پہلے افغانستان کی ''فتح‘‘ کا جشن بھی منانا چاہتے ہیں۔