قرآن مجید میں سورہ اعراف آیت 54میں ارشاد باری تعالیٰ ہے''یاد رکھو اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا‘‘، سورہ ھود کی آیت نمبر 45میں ارشاد کیاگیا کہ''اورتْو (اللہ تعالیٰ )تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے‘‘، سورۃ التین کی آیت 8میں ہے ''کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں کاحاکم نہیں ہے‘‘، قرآن پاک کی انہی تعلیمات اور احکامات سے راہنمائی لیتے ہوئے پاک وطن کے دستور میں بھی اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور 1973ء کی تمہید میں قراردادِ مقاصد کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے '' چونکہ اللہ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکتِ غیر حاکمِ مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حد کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے۔ مجلسِ دستور ساز جمہور پاکستان کی نما ئندہ ہے ‘جس کی رُو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی‘جس کی رُو سے اسلام کے جمہوریت‘ حریت‘ مساوات‘ رواداری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔ جس کی رُو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ جس کی رُو سے اس امر کا قرارواقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں‘اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے‘عمل کر نے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔ جس کی رو سے وہ علاقے جو اب تک پا کستان میں داخل یا شامل ہو جا ئیں‘‘۔
گزشتہ ستر برسوں کا احاطہ کریں تو ہمارے کسی حکمران نے آئین کی ان چند سطور پرعمل تو درکنار شاید ہی اس بارے میں سوچا بھی ہو گا۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج طاقتورحکمران سابق صدر‘سابق چیف آف آرمی سٹاف‘ سابق چیف ایگزیکٹو‘ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین توڑنے کے الزام میں خصوصی عدالت نے غداری کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے فوجی حکمران ہیں جنہیں آئین توڑنے کے جرم میں آرٹیکل چھ کے تحت سزا سنائی گئی۔ خصوصی عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں پاکستان کی سیاسی تاریخ اور آئین شکنی کی تاریخ کا مفصل احاطہ کیا ہے اور صرف فوجی حکمرانوں کا ہی نہیں بلکہ ان کا ساتھ دینے والے سیاسی رہنماؤں کا بھی محاسبہ کیا ہے۔ خصوصی عدالت نے پاکستان کی طویل سیاسی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان کے دولخت ہونے کی وجوہ بھی بیان کی ہیں۔خصوصی عدالت نے ماضی میں اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے فوجی حکومتوں کو جائز قرار دینے کے فیصلوں کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ فیصلے نظریۂ ضرورت کے تحت دئیے گئے اوریوسف رضا گیلانی کے برطرفی کے فیصلے کے بعدنظریۂ ضرورت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن ہوچکا ہے اور نظریۂ ضرورت کے تحت دئیے گئے فیصلے بھی اب قابلِ تقلید نہیں رہے۔ خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل چھ کو آئین کا محافظ قرار دیا ہے‘جس پر سختی سے عمل ہی ہمارے لیے راہِ نجات ہے۔ خصوصی عدالت نے لکھا ہے کہ آئین عوام اور ریاست کے مابین ایک سماجی معاہدہ (سوشل کنٹریکٹ ) اورایک مقدس دستاویز ہوتی ہے‘ جس پر عمل درآمد سب کا فرض ہے۔
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو پہلے وزیراعظم تھے جنہیں دفعہ 109 یعنی اعانتِ جرم کے الزام میں فوجی دورِحکومت میں پھانسی دی گئی تھی۔ اعانتِ جرم کے الزام میں یہ اپنی نوعیت کی اب تک کی پہلی اور آخری سزائے موت ہے۔ پھر انہی حکمران ( جنرل ضیاالحق) کودیگر کئی سینئر فوجی قیادت کے ساتھ ایک سازش کے تحت جہاز تباہ کرکے شہید کردیا گیا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اور اُمت مسلمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیربھٹو کوبھی راولپنڈی میں قتل کردیا گیا تھا۔ اسکندر مرزا ‘جنرل ایوب خان ‘جنرل یحییٰ خان ‘جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض ہوئے‘ آئین کو ہر بار توڑا گیا‘ہمارا کوئی وزیراعظم بھی مدت پوری نہیں کرسکا۔ وزرائے اعظم ذوالفقارعلی بھٹو‘ محمد خان جونیجو‘ ظفراللہ جمالی‘ بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اوریوسف رضا گیلانی کو ان کے عہدوں سے برطرف کیا گیا ‘خواہ وجوہ کچھ بھی ہوں۔ یہی سلوک صدورِ مملکت کے ساتھ بھی روا رکھا گیا۔ صدر اسکندر مرزا ‘صدر فضل الٰہی چوہدری ‘صدر رفیق تارڑ‘ صدر اسحاق خان‘ صدر فاروق لغاری اور صدر پرویز مشرف بھی باعزت رخصت نہ ہوسکے۔ واحد مثال صدر زرداری ہیں‘ جنہوں نے پانچ سال پورے کئے۔
ہمارے اکثر حکمران ایوانِ اقتدار کے بعد جیلوں میں گئے یا پھر انہیں جلاوطنی‘ خواہ وہ خودساختہ ہی کیوں نہ ہو‘ اختیار کرنا پڑی۔ ہم نے ہمارے قومی ہیرو ‘ پاکستان کی جوہری صلاحیت کے خالق ڈاکٹر قدیر خان کو بھی معاف نہ کیا ‘ انہیں بھی مجرم کی طرح پیش کیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں اور بڑے ہونے کے زعم میں مبتلا باہم دست و گریباں ہمارے سابق حکمران نواز شریف‘ آصف زرداری‘ جنرل پرویز مشرف اور ان سے جْڑے ہوئے لوگ قانون کی گرفت میں ہیں‘ اس وقت قانونِ قدرت کی گرفت میں ہیں‘لیکن ابھی بھی ہم اپنی اصلاح کرنے اور سبق سیکھنے کی بجائے اپنی طاقت کی رعونت میں پاگل ہوئے جارہے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے یوسف رضا گیلانی کیس میں خلیل جبران کی نظم کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا تھا کہ :
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو مذہب کے نام پرقومیت حاصل کرے‘ مگر سچائی‘راست بازی اور احتساب پر کوئی توجہ نہ دے ‘جوکہ ہر مذہب کا لازمی جزو ہے۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو جمہوریت کو اپنا سیاسی نظام مانتی ہے‘ مگر اس کو قطار میں لگ کرووٹ ڈالنے تک محدود رکھتی ہے اورجمہوری اقدار کی نفی کرتی ہے۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو کامیابی اور اقتدار کی عزت کرتی ہے‘جو روحانی اونچائی کو ناپسند جبکہ دنیاوی دکھاوے کو پسند کرتی ہے‘ جو مجرم کو ہیرو جانے‘شرافت کو کمزوری ‘ دانا کو احمق گردانے اور بدکاری کی عزت کرے۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس نے ایسے آئین کا انتخاب کیا جس میں سیاسی مفادات آئین سے بالاتر ہیں۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو سب کے لیے انصاف کا تقاضا کرے ‘مگر جب انصاف اْن کی سیاسی وفاداری کے خلاف ہو تو مشتعل ہو جائے۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے گھر کے خدمت گار (نوکر) دفتر سنبھالنے سے پہلے حلف اُٹھانے کو محض ایک رسمی کارروائی سمجھیں۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو حکمرانوں کو مسیحا کے طور پر چُنے اور پھر اْمید رکھے کہ وہ ہر قانون اپنے محسنوں کے حق میں موڑ دیں گے۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے لیڈر قانون کی نافرمانی میں شہادت تلاش کرتے ہیں نہ کہ قانون کی فتح کی خاطر قربانی دیتے ہیں‘ جو جرم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کی قیادت وہ لوگ کرتے ہیں جو قانون کا مذاق اڑاتے ہیں‘مگر یہ نہیں جانتے کہ آخری فتح قانون ہی کی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ آج ریٹائر ہو جائیں گے‘ ان کا عہد بہت مختصر تھا‘ لیکن ان کے اقدامات اور فیصلے بڑے تاریخی تھے‘ جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔