NNC (space) message & send to 7575

2019ء ،کیا کھویا کیا پایا؟

2019ء کے بیت جانے میں چند گھنٹے باقی ہیں۔ یہ سال پاکستان اور اہل وطن کیلئے بہت سے حوالوں سے اچھا اور حوصلہ افزا رہا۔سال کے آغاز میں ہی ازلی دشمن بھارت کے جارحانہ عزائم کا سامنا کرنا پڑا اور پلوامہ ڈرامہ کو بنیاد بنا کر بالاکوٹ کے قریب ایک ناکام سرجیکل سٹرائیک کرنے کی کوشش کی گئی اور ایک پہاڑ پر دو میزائل گراکر فرارہوا ۔پاکستان نے امریکی دباؤ مسترد کرتے ہوئے جوابی حملہ کیا اور بھارت کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ دو بھارتی جنگی طیاروں کو پاکستانی فضائی حدود میں نشانہ بنایا۔ ایک بھارت میں گرا‘ دوسرا بھارت میں‘ جبکہ پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کیا ۔پاک فضائیہ کے دونوں پائلٹس کو فوجی اعزازوں سے نوازا گیا۔عالمی عدالتِ انصاف میں کلبھوشن یادیو کے مقدمے میں بھارت کو شکست ہوئی اور پاکستان کو فتح۔
لیکن یہ سال مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کیلئے ایک قیامت ثابت ہوا۔ کشمیریوں کی شناخت چھین لی گئی بھارت نے تمام معاہدوں اور عالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے اپنے تسلط کو جواز بخشا اور گزشتہ پانچ ماہ سے کشمیری اپنے گھروں میں قید ہیں۔نہ عالمی ضمیر جاگا اور نہ ہی اُمت مسلمہ کو کچھ خیال آیا۔ترکی ‘ملائیشیا اور چین نے بھارت کی مذمت کی‘ وزیراعظم عمران خان نے بھی اقوام متحدہ میں بھرپور آواز اٹھائی ‘لیکن بدقسمتی سے مجموعی طور پر ہمارا مؤقف انتہائی کمزور اور بودا رہا۔اندرونی سیاسی چپقلشوں کی وجہ سے کشمیر جیسے اہم قومی مسئلے پر پاکستان کی سیاسی قیادت نہ ایک چھت تلے جمع ہوسکی اور نہ ہی کوئی متفقہ مؤقف اختیار کیا جاسکا۔عالمی برادری کو متحرک کرنے کیلئے بیرون ملک پارلیمانی وفود بھیجنے کا سلسلہ تاحال شروع نہیں ہوسکا‘ جس کی وجہ سے نہ بھارت کی صحت پر کوئی منفی اثر پڑا اور نہ ہی مظلوم و مقید کشمیریوں کو ریلیف ملا۔
بھارت کے مسلمانوں کیلئے بھی یہ سال اچھا ثابت نہیں ہوا اور متنازع شہریت ایکٹ نافذ کرکے مستقبل میں مسلمانوں کیلئے بھارت کے دروازے بند کردئیے گئے ۔ بھارت میں قیام پذیر مسلمانوں کی اکثریت کی شہریت منسوخ کرنے کا کالا قانون نافذ کردیا گیا۔ بدقسمتی سے اس معاملے میں بھی بڑے بڑے نام نہاد مسلم ممالک اپنے مالی اور تجارتی فائدوں کی وجہ سے خاموش رہے اور سوائے پاکستان‘ ترکی اور ملائیشیا کے کسی کو بھارت کی مذمت کرنے کی جرأت نہ ہوسکی ‘بلکہ کوالالمپور سمٹ کو بھی سبوتاژ کیاگیا اور یوں مسلم ممالک کا گروپ سیون بنتے بنتے رہ گیا۔
اس سال کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاکستان کے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا اور اپنی ریٹائرمنٹ( بیس دسمبر) تک عدل و انصاف کے عظیم مقاصد میں مصروف رہے۔انہوں نے ماڈل کورٹس قائم کیں‘ مقدمات برق رفتاری سے نمٹانے گئے‘ عدالتی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا‘ ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمات کی سماعت کا آغاز کیا اور ایک سال کی قلیل مدت میں پاکستان بھر کی عدالتوں میں اکتیس لاکھ مقدمات کا فیصلہ ہوا۔ اعلیٰ عدالتوں‘ خاص طور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس نے اپنا وجود منوایااور بلا خوف و خطر بڑے بڑے فیصلے دئیے‘ جن میں سب سے اہم مقدمہ آرمی چیف کی تقرری اورتوسیع سے متعلق ہے‘ جس کے خلاف نظرثانی کی اپیل بھی دائر کردی گئی ہے‘ جس کا فیصلہ پہلے سے بھی زیادہ اہم ہوگا۔ خصوصی عدالت نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی آرمی چیف کو آئین شکنی کے جرم میں سزائے موت سنائی۔اعلیٰ عدالتوں نے احتساب اور منشیات کے الزام میں گرفتار سیاسی رہنماؤں شہباز شریف‘ آصف زرداری‘ فریال تالپور‘ مفتاح اسماعیل اور رانا ثنااللہ سمیت بہت سوں کو ضمانتوں پر رہائی اور نواز شریف کو بیرون ملک جانے کے حق میں فیصلے سنائے۔ 
اس سال نیب اور چیئر مین نیب جسٹس جاوید اقبال کا خوف طاری رہا اور بیشمار تگڑے تگڑے سیاسی رہنما‘ تاجر اور بیوروکریٹس کو جیلوں میں جانا پڑا‘لیکن جب انہوں نے ہواؤں کے رخ بدلنے کا اعلان کیا تو اس کے پَر بھی کاٹ دئیے گئے۔اس سال پاکستان میں سیاسی خلفشار اور ہیجان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ یہ سال احتساب کے فلک شگاف نعروں سے شروع ہوا اورانسدادِ احتساب کے نیب ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ پراختتام پذیر ہوا‘ جس کے نتیجے میں بہت سے مالی بدعنوانی کے مقدمات اور معاملات نیب کی دسترس سے نکال دئیے گئے اور بیوروکریٹس‘ تاجروں اور عوامی عہدوں پر فائز لوگوں کا احتساب کرنے کا عمل مزید مشکل بنا دیا گیا۔عمران خان کی حکومت نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کرکے اپنے بائیس سالہ بیانیے کی نفی کردی اور کرپٹ مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے اور احتساب کے جاری عمل کو رول بیک کرنے کے عمل کا آغاز کردیا۔احتساب کا عمل ایک خودمختار ادارے نیب سے لے کر اسے ایگزیکٹو اتھارٹی کے ماتحت کردیا‘ جسے فی الوقت خوش آئند اقدام کہا جارہا ہے‘ جبکہ اس کے بھیانک منفی اثرات اس وقت آئیں گے جب اس کا سیاسی استعمال‘ اور وہ بھی بے دریغ ہوگا۔ اب کسی کا گلا دبانے کے لیے ایس ای سی پی‘ ایف بی آر‘ ایف آئی اے کا ایک افسر ہی کافی ہوگا۔ جھوٹی ایف آئی آر اور پٹ گرفتاری اور چھاپے۔بالواسطہ کرپشن اور مال بنانا اب جرم نہیں ہوگا۔نیت کی خرابی ظاہر کرنا ضروری ہوگا۔عام عوام اس اقدام کو ایک بڑے این آر او کا نام دے رہی ہے اور مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہے کہ ملک کے غریب عوام کو مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بجلی ‘پانی اور گیس کے بلوں میں این آر او دیا جائے‘ کیونکہ رواں سال کم آمدنی کے طبقے کیلئے مہنگائی میں کوئی کمی نہ لاسکا۔
حکمران جماعت کی طرح اپوزیشن جماعتیں بھی اس سال اپنے منشور‘ اپنے موقف اور اپنے بیانیے پر قائم نہ رہ سکیں۔ ہرجماعت اور ہر اتھارٹی نے بلاامتیاز اپنااصولی مؤقف ترک کرکے وصولی مؤقف پر زور دیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی جدوجہد اپنی سندھ حکومت بچانے اور اپنی قیادت کو جیل سے رہائی دلانے تک محدود رہی اور ایک حقیقی اپوزیشن جماعت کے طور پر عوامی مسائل اُجاگر کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔مسلم لیگ نواز نے بھی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا اور عوامی مسائل پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں ناکام رہی ‘البتہ اپنا مزاحمتی بیانیہ ترک کرکے میاں نواز شریف کی رہائی پر توجہ مبذول رکھی۔ شہباز شریف کابیانیہ مریم صفدر نے اختیار کیا اور خاموشی اختیار کرلی؛ البتہ اس سال وہ بیروں ملک جانے میں ناکام رہیں۔مولانا فضل الرحمن جلوس لے کر آئے اور کچھ یقین دہانیوںکے بعد خالی ہاتھ واپس چلے گئے۔تمام تر دعوؤں اور کوششوں کے باوجود عمران خان کی حکومت نہ گرائی جاسکی۔پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا میں محمود خان کو ہٹانے کی کوششیں بھی بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔بلاول بھٹو زرداری نے جاتے جاتے ایم کیو ایم کو عمران حکومت چھوڑکر سندھ میں اتحادی جماعت بننے کی پیشکش کرکے ایم کیو ایم کومخمصے میں ڈال دیا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ اس پیشکش پر کیا ردعمل آتا ہے؟اپوزیشن کو سمجھنا چاہیے کہ جب تک امپائر کو نیوٹرل نہیں کیا جاتا تب تک اس کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ‘کیونکہ چیئر مین سینیٹ کو ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن امپائر نے اس کوشش کو پذیرائی نہیں بخشی۔موجودہ پارلیمانی نظام کو امپائر کی مرضی و منشا کے بغیر ہلایا نئی جاسکتا؛البتہ سال 2020ء کے آغاز سے ہی ایک نیا کھیل شروع ہوگا۔آئندہ سال کا آغاز سپریم کورٹ کے بھرپور فعال کردار سے ہوگا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد سال 2020ء میں نمایاں رہیں گے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں