کورونا کا معاملہ اب بھی بے قابو ہے اور یہ معاملہ اب سیاسی رنگ اختیار کرتا جارہا ہے۔وفاقی حکومت اور سندھ حکومت آمنے سامنے آچکے ہیں اور وفاقی اور صوبائی وزرا ایک دوسرے کے خلاف سرعام پریس کانفرنسز کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس دوران سپریم کورٹ آف پاکستان بھی سو موٹو نوٹس لے چکی ہے ‘جس کی پہلی سماعت گزشتہ روز ہوچکی ہے ‘جو صوبائی اور خاص طور پر وفاقی حکومت کے لیے کڑے سوالات پر مبنی تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد کا یہ پہلا سو موٹو نوٹس ہے‘ جس کی سماعت کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے اور یہ بات انتہائی اہم ہوتی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ اسی وقت تشکیل دیا جاتا ہے جب معاملہ انتہائی اہمیت کا ہو‘ جبکہ معمول کے مقدمات کے لیے تین رکنی بینچ کی تشکیل ہی کافی سمجھی جاتی ہے۔
گزشتہ روز پہلی سماعت کے موقع پر لارجر بینچ کی طرف سے اُٹھائے جانے والے سوالات اور استفسارات غیر معمولی اور اہم ترین نوعیت کے تھے۔چیف جسٹس گلزار احمد صاحب نے اٹارنی جنرل سے جو سوالات پوچھے وہ کْچھ یوں تھے: فاضل عدالت نے حکومتی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ پارلیمان کے اجلاس کے انعقادسے متعلق بتائیں‘ بریفنگ دینے والی کمیٹی سے ہم نے پانچ سوال پوچھے تھے ‘لیکن ایک کا جواب بھی نہیں ملا‘ آپ کی ٹیم کیا کام کر رہی ہے‘ ہمیں نہیں معلوم۔حکومت کی معاونین خصوصی کی فوج ہے‘ 50 لوگوں پرمشتمل بڑی کابینہ ہے ‘ان 50 لوگوں پرمبینہ طور پر جرائم میں ملوث ہونے کے بھی الزامات ہیں‘ ہم ریمارکس دینے میں بہت احتیاط برت رہے ہیں‘اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت اس بات کومدنظر رکھے کہ کورونا کی صورتحال پر کوئی ملک تیار نہیں تھا‘ جسٹس قاضی امین نے واضح کیا کہ ہمارے خدشات بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں ‘ مشیروں کووفاقی وزراکادرجہ دے دیا‘مبینہ طورپرکرپٹ لوگو ں کومشیررکھاگیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا سر آپ ایسا نہ کہیں‘ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ میں نے مبینہ طورپران کوکرپٹ کہاہے۔عدالت نے استفسار کیاکہ ا س وقت ظفرمرزاکیاہیں اوران کی کیاصلاحیت ہے ۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ ہم نے حکم دیا تھا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرے‘پوری دنیا میں پارلیمنٹ کام کررہی ہیں‘عدالت کے سابقہ حکم میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب بھی نہیں آئے‘ظفرمرزانے عدالتی ہدایات پر عمل نہیں کیا‘ وزیراعظم نے خودکولوگوں سے دوکیاہوا ہے‘مشیروں اور معاونین خصوصی کی ٹیم نے وفاقی کابینہ کوغیرمؤثرکررکھاہے‘کابینہ کاحجم دیکھیں49ارکان کی کیا ضرورت ہے‘مشیراورمعاونین نے پوری کابینہ پر قبضہ کررکھاہے‘اتنی کابینہ کامطلب ہے وزیراعظم کچھ جانتے ہی نہیں‘ہم آپ کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کررہے‘ہم چاہتے ہیں معاملات حل ہوں‘ہم بریفنگ میں کہہ چکے تھے کہ ہم مداخلت نہیں کررہے۔ ہمار امقصد آرٹیکل 9کا اطلاق ہے‘پارلیمنٹ کے اجلاس کے بارے میں تو پارلیمنٹ ہی طے کرے گی‘ حکومت قانون سازی کے مراحل میں ہے‘ صوبائی حکومتیں کچھ اورکر رہی ہیں مرکز کچھ اورکام کررہاہے ۔
اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ ایسا اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو اختیار دیا گیا ہے۔جنابِ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بھوک سے مرنے والوں کی تعداد نہیں بتائی جا رہی‘ہم لوگوں کو بھوک سے مرنے نہیں دیں گے‘ریاستی مشینری کواجلاسوں کے علاوہ بھی کام کرنے ہوتے ہیں‘حکومتی مشیران اوروزرا ئے مملکت پرکتنی رقم خرچ کی جارہی ہے؟مشیران اوروزراپر اتنی رقم کیوں خرچ کی جارہی ہے؟مشیران اورمعاونین کابینہ پر حاوی ہوتے نظرآرہے ہیں‘یہ کیاہورہاہے؟کابینہ کے فوکل پرسن بھی رکھے گئے مشیران ہیں‘کیا پارلیمنٹیر ینز پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں‘وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے اپنے اپنے راستے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سیاسی لوگوں کے بیانات پرنہ جائے۔جناب جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایشوعوام کی آزادی اورصحت کاہے‘ہسپتالوں میں ڈاکٹرکوغذابھی غیرمعیاری فراہم کی جارہی ہے‘ویڈیو دیکھی ڈاکٹرعام آدمی سے حفاظتی کٹس مانگ رہے ہیں۔جناب جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پارلیمنٹ ریاست کی طاقت ہوتی ہے‘ اس کی نمائندگی کرتی ہے‘لوگوں کوگھروں میں بندکر دیا گیا ہے ‘حکومت ان تک پہنچے۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ کورونا سے ہمارے سیاسی نظام کو بھی خطرہ ہے‘ صدر مملکت پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس کیوں نہیں بلاتے؟اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس لیے وزیر اعظم کچھ کاروباری شعبوں کو کھولناچاہتے ہیں۔حکومت کورونا سے تحفظ کا آرڈیننس بھی لا رہی ہے‘ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے سنی سنائی باتوں پرکراچی کے کئی علاقے بندکردیے‘کل کو پورا کراچی بند کردیں گے‘قومی رابطہ کمیٹی کے آج کے اجلاس سے کیا ہوگا‘ وقت آرہا ہے کراچی میں پولیس اورسرکاری گاڑیوں پر ہجوم حملے کریں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت لوگوں کوسماجی فاصلے سے متعلق ہدایات دے سکتی ہے‘فاضل جج صاحبان نے کہا کہ حکومت کو خودعوام تک رسائی یقینی بنانی ہوگی۔فاضل عدالت نے سوال کیا کہ ظفرمرزاکے خلاف ایف آئی آر میں جوانکوائری چل رہی ہے وہ کیاہے ؟سوالات صرف سندھ نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے لیے ہیں‘مشیروں اور معاونین کی فوج سے کچھ نہیں ہونا‘وزیراعظم کی ایمانداری پر کوئی شک و شبہ نہیں‘ وزیراعظم صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے ساتھ موثرحکمت ِعملی وضع کریں گے۔حکومت سے گزشتہ روز ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات بھی طلب کی گئیں‘ جبکہ کراچی میں گیارہ یونین کونسلز کو سیل کرنے کی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی۔سندھ حکومت کو سیل کی گئی یونین کونسلز میں متاثرہ افراد کی تعداد کابھی علم نہیں‘ سیل شدہ یونین کونسلز میں کھانا اور طبی امداد فراہم کرنے کا بھی کوئی منصوبہ نہیں۔سندھ حکومت آٹھ ارب کاراشن تقسیم کرنے کے شواہد بھی نہ پیش کرسکی۔سندھ حکومت کی کارکردگی افسوسناک ہے‘ سندھ بھر سے کھانا نہ ملنے کی شکایت پہنچ رہی ہیں۔فاضل عدالت نے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ کتنا راشن کس کو دیا ‘سندھ حکومت بتائے‘ نیز یہ بھی بتایا جائے کہ راشن کہاں سے اورکتنے میں خریدا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹروں کی ضروریات پوری کریں۔ڈاکٹروں کو کھانا نہ ملنے کی شکایات کے بھی فوری ازالے کا حکم دیا گیا۔ انتظامیہ اورپنجاب حکومت سے کوروناپراقدامات اورامدادی کام کی تفصیل بھی طلب کرلی گئیں ۔
سپریم کورٹ نے سماعت پیر 20 اپریل تک ملتوی کردی‘ لیکن جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کا تعلق گورننس ‘طرزِ حکومت اور مجموعی حکومتی مزاج سے ہے۔غیر منتخب لوگوں کے ذریعے حکومت چلانے کی صدا سپریم کورٹ تک پہنچ چکی ہے‘ اگر سپریم کورٹ نے ان سب لوگوں کی شہریت کے بارے میں ریکارڈ طلب کرلیا تو پھر سوچیے کیا ہوگا‘کیونکہ سو موٹو نوٹس سے پہلے ایک لارجر بینچ تشکیل کیے جانے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاملہ آئینی اور اہم نوعیت ہے‘ کیونکہ آئین سب سے بالاتر ہے اور آئین ہی میں طرزِ حکومت اورطرزِ سیاست سمیت تمام امور واضح ہیں۔ پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ اور ارکانِ پارلیمنٹ ہی بنیادی کردار ہوتے ہیں‘ لیکن اس وقت نظام عمل پارلیمانی نہیں ہے‘ بلکہ کابینہ میں ایک بہت بڑی تعداد معاونین خصوصی کی ہے اور ان کو وزرا کا درجہ دیا گیا ہے اور وہی کابینہ میں بااثر ہیں۔ منتخب ارکان کابینہ میں اپنے آپ کو غیر مؤثر سمجھتے ہیں اور اگر ایسے غیر منتخب ارکان کی شہریت بھی پاکستان کی نہ ہو اور انہیں اہم ترین ذمہ داریاں سونپ دی جائیں اور پارلیمان بھی ربڑ سٹمپ بنا دی جائے تو پھر صحیح راستہ دکھانے کے لیے آئینی اداروں ہی کو کردار ادا کرنا پڑتا ہے‘اور تمام معاملات میں آئین کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ ہی کو حاصل ہے۔