کورونا آیا اور سب کے اعصاب پر ایسا چھایا کہ جو اپنے آپ کو جتنا بڑا طاقتور سمجھتا تھا وہ اس بے جان وبائی جرثومے کے سامنے اتنا ہی زیادہ بے بس دکھائی دیا اور خوف زدہ بھی۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکر م سے پاکستان بالخصوص اور جنوبی ایشیا بالعموم اس وبائی مرض کی تباہ کاریوں سے اب تک محفوظ ہے اور دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل آئندہ بھی برقرار رکھے ‘لیکن اس کے لیے یہ لازم ہے کہ ہم بحیثیت ِقوم ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور حفاظتی تدابیر پر ازخود عمل کریں۔
کورونا کے پس منظر میں سندھ حکومت اور وفاق کے مابین اختلافات کی بازگشت سپریم کورٹ تک پہنچ چکی ہے اوراب عدالتِ عظمیٰ لاک ڈاؤن ہونے یا نہ ہونے کے بارے گائیڈ لائنز فراہم کررہی ہے۔سپریم کورٹ نے کورونا کے نام پر خرچ ہونے والے اخراجات پر سوالات اٹھا دئیے ہیں لیکن پوری قوم اور ریاستی مشینری کی توجہ بظاہر کورونا پر مرکوز ہے‘ لیکن پس پردہ بہت تیزی سے امورِ مملکت کو آگے بڑھانے کے لیے کام جاری ہے۔مکالمہ بھی ہورہا ہے اور ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے یہ تو ''بھلا‘‘ ہو کورونا کا جس نے بہت سے ''اقدامات‘‘کو ہونے سے فی الوقت روک دیا‘ ورنہ معلومات تک رسائی رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مئی نے بہت سوں کے لیے کتنا بھاری ثابت ہونا تھا اور کچھ کے لیے مئی خوشیوں کا پیامبر بھی بن رہا تھا‘لیکن انسانوں کی منصوبہ بندی اپنی جگہ‘ مگر سب سے بڑی منصوبہ ساز‘ کارساز صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے اور پروردگارِ عالم کی اپنی ٹائم لائن ہے جس سے کوئی واقف نہیں اور اس ٹائم لائن میں کوئی تبدیلی بھی نہیں ہوتی ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ایسے موقعوں سے انسان کو فائدہ اٹھانا چاہئے اور اسے مہلت جانتے ہوئے اپنے اعمال درست کرنے چاہئیں‘ لیکن قرآن مجید میں ہی انسان کی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک سورہ انبیاء کی آیت سینتیس اور سورہ بنی اسرائیل کی آیت گیارہ میں ہے کہ انسان جلد باز ہے ‘اس لئے ہمارے بااختیار طبقے ‘زعما اور اشرافیہ کا حال بھی کْچھ ایسا ہی رہا ہے کہ پہلے تو وہ عمر بھر جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں کہ عوام انہیں مسندِ اقتدار عطا کریں تو وہ وطن عزیز میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے اور اخلاق کے اعلیٰ معیار قائم کردیں گے اورمملکت کو اسلامی و فلاحی مملکت بنایا جائے گا‘لیکن جیسے ہی اختیار ملتاہے تو صاحبان ِاختیار کے مزاج بدل جاتے ہیں اور پھر نمک کی کان میں آکر سب ایک جیسے ہوجاتے ہیں۔فلاحی ریاست بنانے کے دعوے پسِ پشت ڈال کر نظریاتی اساس کو اپنی مرضی اور غیروں کی منشا کے مطابق سرجری کرنے میں لگ جاتے ہیں‘ نناوے فیصد کے فکر و فلسفہ کو دس فیصد کے تابع کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے اور پھر ایک فیصدبھی کہیں کم والوں کے حقوق کا درد اس انداز سے جاگ اٹھتا ہے کہ بس ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ یہی ہے اور باقی نناوے فیصد عوام کے نہ تو جذبات ہوں گے اور نہ ہی کوئی ردعمل آئے گا۔ پھر جمہوریت کے اس اصول کو بھی بھلا دیا جاتا ہی کہ اکثریت کی رائے کا احترام کیا جائے گا۔
ہمارے ہاں اللہ کا شکر ہے کہ تمام اقلیتیں اپنی فکر کے مطابق زندگی گزار رہی ہیں اور ہمارا عدالتی نظام اتنا مضبوط ہے کہ یہاں مذہب کی بنیاد پر کوئی کسی کا استحصال نہیں کرسکتا اوراگر ایسا ہوتا ہے تو ریاستی ادارے تحفظ کے لیے موجود ہوتے ہیں‘ لیکن نہ جانے کیوں ہر آنے والے زعما کو یہ خیال آتا ہے کہ طے شدہ امور کو بلا ضرورت اور بغیر کسی مطالبے کے چھیڑا جائے اور یہ زعما یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ ان صاحبانِ اختیار کے اٹھائے گئے اقدامات عوام کی نظروں سے اوجھل رہیں گے۔مگراکیسویں صدی کا پہلا کوارٹر گزر رہا ہے‘ یہ ففتھ جنریشن ہائی برِڈ وار اور سوشل میڈیا کا انقلابی زمانہ ہے ‘اب اپنی آواز اٹھانے کے لیے نہ تو اخبار کی ضرورت ہے نہ صحافی کی اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹیلی ویژن کی‘ اب ہر شخص چلتا پھرتا ٹی وی ہے‘ بس ایک موبائل فون کی ضرورت ہوتی ہے‘ خود ہی ریکارڈ کیا اور اپنی آواز اپنی ویڈیو کسی بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ڈال دی جو پلک جھپکنے میں ہی پوری دنیا میں وائرل ہوجاتی ہے۔آج کل ایسی بہت سی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں جو تعلیمی نصاب میں تبدیلی سے متعلق ہیں‘ ایک تو پنجاب حکومت کے ذمہ دار افسر کی ہے جبکہ دوسری عام لوگوں کی ہی جس میں اسلامیات کے نصاب میں تبدیلی کی نشاندہی کی گئی ہے ۔پنجاب حکومت تبدیل شدہ نصاب واپس لے چکی ہے جس کا کریڈٹ پاکستان مسلم لیگ ق کو جاتا ہے جنہوں نے یہ معاملہ نوٹ کیااور حکومت نے اسے واپس لیا اور دوسرا صوبہ خیبرپختونخواسے متعلق ہے جس کی نشاندہی ہونے کے باوجود اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ایسا ہی معاملہ اقلیتی کمیشن کے قیام پر ہوا جسے مسلم لیگ ق نے بروقت آواز اٹھا کر سنبھالا اور پھر پنجاب اسمبلی نے قرارداد منظور کرکے اقلیتوں کے مسائل حل کرنے اور خاص طور پر قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل نہ کرنے کا راستہ دکھایا۔
افغانستان پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ‘وہاں امن قائم ہوتا ہے تو ہمارے لئے بہت بڑا ریلیف ہوگا‘ ماضی بعید کے زمانے کی باتیں ہیں کہ ہماری مغربی سرحدیں ہمیشہ محفوظ رہیں اور وہاں پر ہمیں دفاعی اعتبار سے کوئی خرچہ کرنے اور فکر مند ہونے کی نوبت نہیں آئی‘ لیکن افغانستان میں روس کے خلاف جہاد سے لے کر آج تک گزشتہ چالیس برسوں میں ہماری مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہی نہیں پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والی سرزمین بن گئی ہیں‘ سوائے درمیان کے چندسال کے جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی۔اب خدا خدا کرکے افغانستان میں صورتحال بدل رہی ہے اور عبداللہ عبداللہ نے اپنا وجود بالآخر منوالیا ہے‘ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیاں پاور شیئرنگ کا فارمولا طے ہوچکا ہے جس کے تحت عبداللہ عبداللہ کے نامزد لوگ اشرف غنی کابینہ میں شامل ہوں گے اور افغان طالبان کے سا تھ امن مذاکرات کرنے والی سپریم کونسل کے سربراہ بھی عبداللہ عبداللہ ہوں گے۔اس پاور شیئرنگ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے لیے افغان امن عمل کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ چونکہ اشرف غنی طالبان کے ساتھ امن عمل شروع کرنے میں حیل و حجت سے کام لے رہے تھے اور افغانستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار بھی طالبان کو ٹھہرا رہے تھے لیکن امریکہ نے خود اشرف غنی کے اس دعوے کی نہ صرف نفی کی بلکہ بتایا کہ دہشت گردی کے واقعات میں داعش ملوث ہے۔ پھر سابق صدر حامد کرزئی کا بیان آیا کہ افغانستان میں بھارت سے دہشت گردی آتی ہے۔دراصل اشرف غنی اور بھارت دونوں ہی افغان امن عمل کی کامیابی نہیں چاہتے کیونکہ دونوں فریق جانتے ہیں کہ امن عمل کی کامیابی کا مطلب اشرف غنی کی سیاسی موت اور بھارت کے لیے اجیت ڈوول ڈاکٹر ائن کی موت ہے ۔اب بھارت امن عمل میں شریک ہوکر افغان طالبان کے سا تھ رابطے قائم کرنا چاہتا ہے اور اس نے امریکہ سے خواہش ظاہر کی ہے کہ ہماری بھی انٹری ڈلوادیں‘ لیکن امریکہ نے کورا جواب دے دیا اور زلمے خلیل زاد نے بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ براہ راست افغان طالبان سے بات کریں۔ ابھی یہ خبر'دی ہندو اخبار‘ کی زینت ہی بنی تھی کہ افغان طالبان کے اہم رہنما اور چیف ثالث نے بتادیا کہ چالیس سال سے بھارت نے ہمیشہ جھوٹ کاساتھ دیا اور یہ کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کا انحصار بھارت کے مثبت کردار پر ہوگا۔ نائن الیون کے بعد عالمی طاقتوں نے جو سوچا تھا کہ وہ نہ ہوسکا اور پاکستان نے اس پرائی لڑائی میں بے پناہ قربانیاں دیں‘ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اب مغربی سرحدوں سے بھی مستقبل میں خوشگوار ہوا کے جھونکوں کی امید کی جاسکتی ہے‘ بشرطیکہ ہمارے ہاں سیاسی استحکام اور تسلسل ہو۔