NNC (space) message & send to 7575

مجرموں کے طرفدار

موٹروے زیادتی کیس اس وقت خبروں میں سب سے آگے ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس بارے لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کی جارہی ہے‘ جائے وقوعہ کا معائنہ کم وبیش تمام بڑے ٹی وی چینلز کی ٹیمیں کرچکی ہیں‘ حکومت حرکت میں آچکی ہے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ پولیس اپنی جگہ پر متحرک نظر آتی ہے جبکہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ تک بھی پہنچ چکا ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد بھی ایسے واقعات بارے اپنی تشویش سے آگاہ کرچکے ہیں اور خاص طور پر پولیسنگ سسٹم اور پولیس افسروں کے ترقی و تقرروتبادلوں میں سیاسی مداخلت پر کڑی تنقید کرچکے ہیں ۔
ہمارے ہاں اب یہ معمول بن چکا ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت پورا سسٹم پرو پری ایکٹو نہیں رہا بلکہ پوسٹ ایکٹو ہوچکا ہے‘ یعنی جرم ہونے کے بعد ہم جاگتے ہیں اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ معاملہ ذرائع ابلاغ میں آجائے یا پھر مدعی خود اتنا باہمت ہو کہ ہار نہ مانے۔دوسری صورت میں ہمارا نظام اتنا بوسیدہ اور بے حس ہوچکا ہے کہ انصاف کا حصول اور اپنا جائز حق لینے کے لیے بھی عمریں بیت جاتی ہیں۔ پولیس کا نظام ہو یا عدالتی نظام ہم آئے روز معاشرے میں ہونے والے ظلم وستم دیکھتے ہیں‘ سب سے خطرناک رجحان یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جرائم مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ نہ صرف خواتین سے زیادتی بلکہ نو عمر بچے اور بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جنسی بے راہ روی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ بن بیاہے کے نتیجے میں ہونے والے نومولود بچوں کو مار دیا جاتاہے یا پھر انہیں پھینک دیا جاتا ہے۔ ایسے اکثر جرائم اور واقعات نہ ہی رپورٹ ہوتے ہیں اور نہ ہی ہماری مقامی کمیونٹی اس پر کوئی توجہ دیتی ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ ایسے جرائم کی پشت پناہی کی بنیاد پولیس اور بااثر لوگ بنتے ہیں اور اگر کوئی بھولے بھٹکے قانون کی گرفت میں آجائے تو کمزور پراسیکیوشن عدم ثبوت اور ناقص عدالتی نظام اور رشوت ستانی کی وجہ سے مجرم بچ نکلتے ہیں۔ ہمارے نظام میں بیرونی مداخلت کی وجہ سے بھی سزا اور جزا کا نظام مؤثر نہیں رہا۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ایسے گھناؤنے مجرموں کو سزائیں دینے کے خلاف نام نہاد مغربی کارندے اور غیر انسانی حقوق کے علمبردار انسانی حقوق کا لبادہ اوڑھ کر ان مجرموں کو سزاؤں سے بچانے کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ ایسے عناصر اپنی این جی اوز کے ذریعے مالی منفعت بھی حاصل کرتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں مجرموں کو سخت سزائیں دینے کے خلاف نہ صرف مہم چلاتے ہیں بلکہ ایسے عناصر اقتدار کی راہداریوں تک پہنچ کر قانون سازی اور پھر قانون پر عملداری کو بھی روکتے ہیں۔
جنسی بے راہ روی کو اس منظم انداز میں کیا جارہا ہے کہ اب یہ جرم تعلیمی اداروں‘ دفاتر اور عام معاشرے میں سرایت کرچکا ہے۔ جدید ترین سمارٹ فونز آنے کے بعد جنسی بے راہ روی اور اس ضمن میں ہونے والی بلیک میلنگ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک پہنچ چکی ہے۔ اس نوعیت کے جرائم میں اکثر بااثر لوگ پشتی بان ہوتے ہیں۔ سزا اور جزا دینے کے معاملے ادھر کے رہے نہ اُدھر کے ہم۔ہمارے ڈراموں اور تفریحی چینلز پر بھی ایسے ہی موضوعات کو پر کشش بنا کر پیش کیاجاتا ہے جس سے معاشرے میں ایسے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ بہت پہلے لاہور میں جاوید اقبال نامی مجرم سو بچوں کے قتل اور زیادتی کے جرم میں پکڑا گیا‘ لیکن اس سے پہلے کہ وہ انکشاف کرتا جیل میں پراسرار طور پر مارا گیا۔ بلدیہ ٹاؤن کراچی میں اڑھائی سو بے گناہ مزدوروں کو زندہ جلا کر ہلاک کردیا گیا‘ لیکن آج تک کسی کو سزا نہ ہوسکی ۔پورا سسٹم اورسسٹم کو چلانے والوں نے ایک مافیا کا کردار ادا کیا۔ ایسی بے حسی کہ جیسے کُچھ ہوا ہی نہیں۔ لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن‘جب دن دہاڑے سرکاری مشینری سرکاری سرپرستی میں لوگوں کو شہید کردیا گیا سزا نہ ہوسکی اور اب تک نتیجہ صفر ہے ۔
دیہاتوں اور مرکزی شہروں سے دور دراز علاقوں میں تو حالات اور بھی ابتر ہیں کہ وہاں سے اٹھنے والی آواز میڈیا تک بھی نہیں پہنچ پاتی وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میں ایڈیشنل سیشن جج جہانگیر اعوان کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس منصف کو بھی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ایسے گھناؤنے جرائم کے بارے میں قانون سازی اور سرعام سزائیں دینے کا مطالبہ پارلیمان تک پہنچتا ہے تو وہاں سے نام نہاد لبرلز مخالفت کرتے ہیں اور مجرموں کو سزائیں دینے کو متشددانہ پالیسی گردانتے ہیں‘جبکہ ہم محض چند مراعات کی خاطر سزائے موت پر عملدرآمد روک دیتے ہیں تاکہ یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کا تمغہ نہ جاتا رہے‘ جبکہ مغربی معاشروں میں قانون کی عملداری اور جلد از جلد انصاف کی فراہمی پر سختی کی پالیسی پر عمل کیاجاتا ہے۔ برطانیہ میں بلوہ اور فساد کے مجرموں کو عبرتناک سزا دینے کے لیے وزیراعظم تمام مصروفیات ترک کرکے لندن پہنچتے ہیں اور دن رات عدالتیں لگتی ہیں اور مجرموں کو جیل میں ڈالا جاتا ہے۔ ابھی گزشتہ برس نیوزی لینڈ میں مسجدوں پر حملہ ہوا‘ ایک سال کے اندر اندر مجرم کو عمر بھر کے لیے جیل کی تاریک کوٹھڑی میں ڈال دیا جاتا ہے اور نیوزی لینڈ کی وزیراعظم آکر اعلان کرتی ہیں کہ مجرم کبھی بھی سورج کی روشنی نہیں دیکھ سکے گا۔وہاں پورا نظام مجرم کو سزا دینے کے لیے متحد اور پُرعزم تھا‘ لیکن ہمارے ہاں ایسی کسی بھی صورت میں سارے کا سارا نظام مجرم کی پشت پناہی اور اسے بچانے کے لیے میدان میں آجاتا ہے ۔کوئٹہ میں ساری دنیا نے دیکھا کہ ایک ٹریفک سپاہی کو اچکزئی نے جیپ سے ٹکر مارکر ہلاک کردیا لیکن عدالت میں اس کے خلاف ثبوت پیش نہ ہوسکے اور ملزم بری ہوگیا ۔
ہم بطور مسلم معاشرہ قرآن مجید سے رہنمائی لے سکتے ہیں‘ جہاں ایسے درندوں کے لیے عبرتناک سزائیں مقرر کی گئی ہیں ۔سورہ مائدہ کی آیت 33میں زمین پر فساد برپا کرنے والوں کے بارے میں ریاست کے لیے حکم ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ جو اللہ تعالی اور اس کے رسولؐ سے لڑیں اور زمیں میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کردیے جائیں یا سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں جلا وطن کردیا جائے ۔یہ تو ہوئی ان کی دنیاوی ذلت اور خواری اور آخرت میں ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے ۔ لیکن ہمارا حال ایسا ہوگیا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘ ہم نہ قرآن مجید پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی تعزیرات پاکستان پر۔جب تک ہم بطورِ قوم اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے تابع نہیں کرتے اور کس مقصد کے لیے یہ وطن حاصل کیا گیا اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے‘ہمارا معاشرہ اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہے گا کیونکہ مجرموں کو سزاؤں کی مخالفت کرنے والے بہت کم ذاتی فائدے کے لیے یہاں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہیں گے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کے لیے یہ امتحان ہے کہ وہ ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے لیے عملی اقدامات کرتے ہیں یا پھر مغرب زدہ لوگوں کے دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
آخری اطلاع یہ کہ موٹروے زیادتی کیس کے مجرموں کو جلد عدالت میں پیش کردیا جائے گا‘کاش ایسا نظام ہو کہ کوئی اشتہاری آزاد نہ گھومے اور ہر شہری کو انصاف اس کی دہلیز پر ملے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں