"SUC" (space) message & send to 7575

اجنبی دوستوں کے ساتھ

اجنبیت بھی کیسی عجیب دیوار ہے ۔گر جائے تو ملبہ تک غائب ہوجاتا ہے ۔ ہم لال قلعہ کے سبزہ زار کی کینٹین سے اُٹھے تو منصور خان‘ان کی بھانجی زنیرہ ‘ان کا گھرانہ اورمیں پرانے دوستوں کی طرح تھے ۔ منصورایک جملے باز اور زندگی سے بھرپور آدمی تھا۔میں ان کا دوست ہی نہیں ‘بلا معاوضہ گائیڈ بھی بن چکا تھا۔ہمارا رخ اب رنگ محل کی طرف تھا۔وہی رنگ محل جس کا نام شاہ جہاں کے زمانے میں امتیاز محل تھا۔ جہاں ایک زمانے میں رنگ و رامش کی آتش بازیاں پھوٹتی تھیں ۔ چراغ جلتے تھے‘ گلاب کی خوشبو مہکتی تھی ۔ یہ زنان خانہ تھا جہاں بیگمات جلوہ افروز ہوتی تھیں ۔یقینا آخری دور میں بہادر شاہ ظفر کی محبوب ملکہ زینت محل بھی رنگ محل کی زینت ہو ں گی ۔
سنگ ِمرمر کی اس عمارت میں نقاشی ‘ مصوری اور پچی کاری کے نادر کام کیے گئے تھے۔اس کے نیچے ایک تہہ خانہ تھا جس کی خنکی میں بیگمات گرمی کی دوپہریں گزارتی تھیں۔اسی رنگ محل کا ایک حصہ شیش محل سے جڑتا تھا جہاں کبھی دیواروں اور چھتوں پر ہزاروں چھوٹے چھوٹے آئینے حسین چہروں اور شاہی ملبوسات والی شہزادیوں کو عکس در عکس دیکھتے اور دکھاتے تھے۔ حریری پردے لہراتے اور شمعیں جھلملاتی تھیں‘ لیکن اب تو یہ سب خواب تھا۔اب تو یہ ایک اجڑا دیا رتھا۔اچھا ہوا بہادر شاہ ظفر رنگون چلے گئے ۔ عمارتوں کی تباہی نہ دیکھی ۔ان کی آنکھوں میں مرتے دم تک رنگ محل کا وہی منظر بسا رہا ہوگا ۔جو رنگوں کا محل تھا۔
کیسی لڑائیاں اور سازشیں ہوتی ہوں گی اسی رنگ محل کے لیے ۔ملکائیں ‘شہزادیاں‘ولی عہد اور ان کی بیگمات‘ولی عہد بننے کے منتظر عمر رسیدہ شہزادے اور ان کے حرم۔کیا کیا جوڑ توڑ نہ ہوتا ہوگا۔' ' کاش میں وہاں کہیں چھپ کر دیورانیوں ‘جٹھانیوں کی لڑائیاں دیکھ سکتی ۔لیکن یہ اتنی ساری بیگمات اور ان کا عملہ اتنی سی عمارت میں کیسے رہتا ہوگا بھلا ‘ ‘‘ہنس مکھ زنیرہ کی خواہش اور تشویش بجا تھی ۔' ' محلاتی سازشوں کا تو پوچھو ہی مت۔بیگماتی سازشوں کا محاورہ خوامخواہ تو نہیں بن گیا‘ ‘ ۔منصور خان نے کہا: 
بالکل ٹھیک‘ میرا بھی بہت دل چاہتا ہے کہ اس دور میں کسی طرح گھس کرشہنشاہوں‘شہزادیوں اور قلعے کے راز معلوم کروں اور پھراپنے دور میں واپس آکر سنسنی خیز انکشافات کروں۔میں نے بھی اپنی پوری نہ ہونے والی حسرت کا اظہار کیا ۔اور یہ جو رنگ محل کی مختصر سی عمارت ہے اس میں اتنی بیگمات اور ان کا ذاتی عملہ کیسے رہ سکتا تھا‘ایک بات تو یہ یاد رکھیں کہ جب انگریزوں نے 1857ء میں لال قلعے پر قبضہ کیا تو جوشِ انتقام میں بھرے ہوئے تھے۔ان کے نقطۂ نظر سے باغی اور ہمارے حساب سے مجاہدین سپاہی جو میرٹھ سے آئے تھے اورجنہوں نے بہادر شاہ ظفر کو بغاوت کی سربراہی پر آمادہ کرلیا تھا‘وہ قلعے کی عمارتوں میں ہی ٹھہرے تھے۔انگریزوں نے غیظ و غضب میں قلعے پر قبضے کے بعد ظفراور شاہی خاندان سے قلعہ خالی کرالیا اورقطب مینار کے احاطے میں منتقل کردیا۔قلعے کی قیمتی چیزیں‘جواہرات‘سونا اور چاندی لوٹ لیں اور 80 فیصد عمارتیں مسمار کردیں۔یہ جو عمارتیں بچ گئیں محض چند ہیں جو پتہ نہیں کس انگریز کی مہربانی سے بچ گئیں۔بچی کھچی عمارتوں میں سپاہی ٹھہرا دئیے ‘ رنگ محل کو میس میں تبدیل کردیا۔جو عمارتیں اور بنگلے بچ گئے وہ 1947ء تک انگریز فوج کے قبضے میں رہے۔مسمار شدہ عمارتوں میں بہت سی وہ تھیں جہاں بیگمات اور ان کا عملہ رہا کرتا تھا۔صرف منتخب بیگمات ہی رنگ محل میں رہ سکتی تھیں۔اور یہ بھی مزے کا موضوع ہے کہ قلعے کی خدمت گار عورتوں میں کون کون ہوا کرتی تھیں اور ان کے درجات کیا تھے۔پردے اوردیگر وجوہات کی وجہ سے محل کے خاص حصوں میں صرف عورتیں ہی جاسکتی تھیں۔یہ عورتیں بنیادی طور پر دو طرح کی تھیں ‘ ایک تو محافظ اور جنگجو عورتیں اوردیگر کاموں کی خدمت گار عورتیں ۔محافظ عورتیں بہت طاقت ور‘خونخواراور مردوں پر بھاری عورتیں تھیں۔اُردا بیگُنی‘قلماقنی‘ حبشنیں وغیرہ اسی قسم سے تھیں ۔ اردا بیگنی وہ جسیم عورتیں تھیں جو ہتھیاروں سے لیس اور ان کی ماہر تھیں۔ قلماق قبیلے کی ترک نژادقلماقنی عورتیں بھی بڑی جنگجو تھیں۔یہ وہی عورتیں تھیں جن کے بارے میں شہزادی روشن آرا نے اور نگ زیب عالم گیر کو آگاہ کیا تھا کہ شاہ جہاں جو آپ کوچند ساتھیوں کے ساتھ آگرہ کے قلعے میں دست بوسی کے لیے بلا رہا ہے‘دراصل آپ کے داخل ہوتی ہی قلماقنیاں آپ پر ٹوٹ پڑیں گی ۔اس لیے ہرگز مت آئیے گا۔پھر قوی الجثہ حبشن عورتیں الگ تھیں جو محافظوں میں شمار ہوتی تھیں۔خدمت گار عورتوں میں مغلانیاں‘مامائیں‘مشاطائیں‘انگہ‘دائیاں‘کنیزیں وغیرہ الگ الگ کاموں کے لیے مخصوص تھیں اور ان کے درجات بھی الگ الگ تھے‘لیکن پتا نہیں اس موضوع پر کوئی کتاب یا مفصل تحقیقی کام موجود ہے یا نہیں‘‘۔میں نے اپنا علم جھاڑنے کی کوشش کی ۔ خواب گاہیں ‘ممتاز محل (جو اب عجائب خانہ بنا دیا گیا ہے )‘ نہر بہشت ‘شاہی حمام‘تسبیح خانہ ‘موتی مسجد‘باغِ حیات بخش‘شاہ برج‘خضر محل ‘ساون بھادوں۔قلعہ دہلی کی باقی ماندہ عمارتوں میں بہت کچھ تو فوج کے قبضے میں تھا‘لیکن جو عمارتیں کھلی تھیں وہ بھی اتنی ہیں کہ دن بھر میں بھی دیکھی نہیں جاسکتیں۔میر نے کہا تو شاہ جہاں آباد کے لیے تھا‘ لیکن شعر لال قلعے پر بھی پورا اترتا تھا؎
سرسری تم جہان سے گزرے 
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
ان مناظر میں شاہی حمام کا منظر ایسا ہے جیسے گرم بھاپ کے اس پار اس تصویر کے رنگ ابھی گیلے ہوں۔سنگ مرمر کے چکنے اور براق ماحول میں یہ صرف نہانے کی جگہ نہیں ہے بلکہ بھاپ کے غسل ‘مساج ‘استراحت‘تیراکی وغیرہ کے جملہ تازہ دم کردینے والی سہولیات کا مجموعہ ہے۔بہت اہم فیصلوں کی جگہ ‘اور خاص اور خفیہ ملاقاتوں کی بھی ۔منصور کے نوعمر بچے اور بیگم تھکنے لگے تھے۔زنیرہ کے چلبلے جملے اب بھی جاری تھے‘ لیکن ان کے درمیان وقفہ آچکا تھا۔تھکن تو مجھے بھی تھی لیکن اس کا اظہار کرناکسی کٹیلے فقرے کو دعوت دینا تھا۔ہم واپسی کے سفر پر تھے۔قلعے سے باہر نکلنے کے لیے لاہوری درواز پہنچے تو مجھے یاد آیا کہ شاہ جہاں کے دور میں یہ شکل نہیں تھی ۔اُس وقت دروازہ کے عین سامنے مسجد فتح پوری تک لمبی سڑک اور علی مردان خاں کی نہر تھی ۔اس طرح کہ اگر بادشاہ تخت نشین ہو تو فتحپوری تک کا پورا منظر سامنے ہوتا تھا۔وزراء اور امراء قلعے میں آتے تھے تو تخت نشین بادشاہ کے احترام میں انہیں فتح پوری کے قریب ہی اپنی سواریوں سے اتر نا اور دور تک پیدل آنا پڑتا تھا۔اورنگ زیب نے شاید اسی کا احساس کرتے ہوئے اور دفاعی نقطۂ نظر سے اس دروازے کے سامنے ایک آڑ بنا کرنئے دروازے کا رخ تبدیل کردیا۔جس پر شاہ جہاں نے لکھا کہ ' ' تم نے دلہن کے حسن کو گھونگھٹ پہنا دیا ہے‘ ‘ ۔' ' آپ ہر گھونگھٹ‘ہر حفاظتی حصار کے خلاف لگتے ہیں۔شاعر جو ہوئے‘ ‘۔زنیرہ نے پھر جملہ پھینکا۔ منصور کی بیگم بھی اس کے ساتھ تھیں۔ان کے ہونٹ ہنس رہے تھے‘ لیکن آنکھوں میں گہری اُداسی تھی۔ یہ شرارتی جملے چند منٹ بعد ختم ہونے والے تھے ۔ دن بھر اکٹھے رہنے ‘گہری دوستی کا قلعہ تعمیر کرنے کے بعد اب الگ ہونے کو جی نہیں چاہتا تھااور یہ کیفیت مشترکہ تھی۔افاقہ اس وقت ہوا جب منصور نے اپنی بیگم سے الگ تبادلۂ خیال کے بعد اگلے دن مجھے رات کے کھانے کی دعوت دی ۔یہ دعوت ایک مشہور مغل ریسٹورنٹ میں تھی ۔ایک مسافر ‘پردیسی کو اور کیا چاہیے تھا۔اس سے پہلے کہ ان کا یہ فیصلہ تبدیل ہو‘میں نے دعوت قبول کرلی ۔' ' اللہ توبہ! آپ تو جیسے انتظار ہی کر رہے تھے ۔ رسمی تکلف تو کرنا چاہیے بھئی ‘ ‘۔ زنیرہ کی آواز آئی ۔ اس بار سب کا قہقہہ ایک ساتھ بلند ہوا۔اتنی زور سے کہ بہت سے لوگوں نے پلٹ کر دیکھا۔میں نے انہیں الوداع کہا ۔ دوبارہ ملنے کے لیے ۔ ابھی تومٹیا محل میرا منتظر تھا۔شام کے قمقمے باہر ہی نہیں ‘اندر بھی جلنے شروع ہوگئے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں