اپنی زندگی میں کوئی ایسی وباء یاد نہیں‘ جس نے عالمی سطح پر اتنی تیزی سے ایسی بڑی دہشت پھیلائی ہو‘ جیسی کورونا وائرس نے پھیلائی ہوئی ہے ۔ خدا کا ہزار ہزار شکر کہ وہ دور ملا ‘جہاں طاعون کی ہلاکت خیزی کے صرف قصے اور داستانیں کتابوں میں رہ گئی تھیں ۔اپنے بچپن میں چیچک کی وبا ء کا شہرہ سنا اور مریض بھی دیکھے ‘لیکن اب‘ اس کا ذکر بھی بس تحریروں میں ملتا ہے ۔ پولیو کا دور اب تک چل رہا ہے‘ لیکن دنیا اس پر بھی قابو پا چکی ہے ۔ ویسے بھی یہ آخر الذکر بیماریاں ہلاکت کا کوئی ایسا بڑاریکارڈ نہیں رکھتی ہیں ۔
لیکن یہ کوروناوائرس ۔دن ہی کتنے ہوئے جب اس کا نام پہلی بار سنا اور سنی ان سنی کردی ‘پھر ووہان سے خبریں آنی شروع ہوئیں ‘پھر پورے چین سے۔لگ رہا تھا کہ ہنوز دلی دور است‘لیکن آن کی آن میں یہ ہمارے سروں پر آپہنچا۔ایران کے راستے ۔اور اب یہ عالم ہے کہ تمام شہر ایک محاصرے ‘بلکہ قرنطینہ کے حالات میں ہیں ۔پاکستان اور ہندوستان میں اگرچہ ابھی معاملات اتنے گمبھیر نہیں ہوئے ‘جتنے دوسرے ملکوں میں ‘ لیکن سوشل میڈیا میں تو ہر ملک میں قیامت مچی ہوئی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ قیامت صغریٰ کا سماں ہے ۔
کیا آپ کو ایسی کوئی صورت ِحال اپنی تمام عمر میں یاد ہے؟ جہاں بغیر جنگ کے لوگ اس طرح متواتر ہلاک ہورہے ہوں۔ہسپتالوں میں پہنچ رہے ہوں۔جب بدامنی نام کو نہ ہو‘ لیکن سڑکیں سنسان ہوچکی ہوں۔ ریلوے سٹیشن بھائیں بھائیں کر رہے ہوں اور ہر ملک لاک ڈاؤن کی کگر پر پہنچا ہوا ہو۔؎
یہ تیغ تیز ہے اور بے نیام ہے صاحب
وبائے عام ہے یا قتل عام ہے صاحب
لیکن ان تمام ممالک میں سب سے بڑی مصیبت میں گرفتار ملک اٹلی ہے ۔ سینکڑوں کے حساب سے اموات روز ہورہی ہیں۔ہسپتالوں کی حد ختم ہوچکی ہے اور مریضوں کی حد ابھی کوئی نہیں ۔ ایک امریکی اخبار میں ایک معروف اطالوی صحافی Mattia Ferraresi کا ایک مضمون میرے سامنے ہے ۔ اٹلی کی صورت ِحال کا اس سے کچھ اندازہ ہوتا ہے ۔ اس مضمون کا عنوان ہے : ''وہ مت کیجیے گا‘ جو ہم نے کیا‘‘ ۔
اٹلی نے کیا ایسا کیا؟ جس کے باعث وہ اس خطرناک صورت حال سے دوچار ہوا۔دراصل یہی سمجھا گیا کہ چین بہت دور ہے اور اٹلی اس کی زد سے باہر ہے ۔اس خطرے کو بھانپا نہیں گیا۔سیاست دانوں کی اپنی لڑائیاں اسی طرح جاری رہیں ۔اور لوگوں کے معمولات بدلنے ‘اجتماعات پر پابندی ‘بیرونی ممالک سے آنے والوں کی سکریننگ اور قرنطینہ کو اہمیت نہیں دی گئی ۔ اور جب یہ سب کچھ ہوا اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی ۔9مارچ کو اٹلی میں لاک ڈاؤن کردیا گیا ۔ اس وقت پہلے وائرس کیس کو سامنے آئے ہوئے کئی ہفتے ہوچکے تھے۔آخر کار جب وزیر اعظم Giuseppe conte نے ملک کو ایک بڑے قرنطینہ میں بدلنے کا اعلان کیا ‘اور دوائیوں کی دکانوں ‘ کھانے پینے کی اشیاء اور اخبارات کے سو ‘ہر قسم کی دکانوں کو بند رکھنے کا حکم دیا‘ اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔تمام تعلیمی ادارے بند کردئیے گئے ۔ ناگزیر ملازمتوں کے سوا باقی سب کو گھر رہنے اور وہیں سے کام کرنے کے احکامات دئیے ۔جن ملازمین کا دفتر جانا ضروری تھا‘ انہیں پولیس کی طرف سے تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ کی ضرورت تھی کہ اس شخص کا دفتر جانا ناگزیر ہے ۔خلاف ورزی کرنے والے کو تین ماہ کی قید اور جرمانہ ہوگا ‘لیکن اس سب کے بعد بھی اب تک کی موصولہ اطلاعات کے مطابق‘ صرف اٹلی میں اس وائرس سے 1800 لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور 25ہزار تصدیق شدہ مریض ہیں ۔صرف گزشتہ اتوار کو 368لوگ ہلاک ہوئے ۔
سب سے قابل رحم حالت ڈاکٹروں کی تھی ۔ایک ڈاکٹر نے کہا کہ جیسے ہم حالت جنگ میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو طبی امداد دی جائے اور کس کو نہیں ‘کیونکہ سب کو یہ سہولت نہیں دی جاسکتی ‘ یہی حالات اس وقت ہمارے ہیں ۔ ایک ڈاکٹر ہسپتال کی راہداری میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔اس کے سامنے لوگ مر رہے تھے‘تکلیف میں تھے اور وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔محدود بستروں ‘آئی سی یو یونٹوں ‘آکسیجن سلنڈرز کی کمی کے ساتھ یہ فیصلہ بہت مشکل تھا کہ کس کو بچایا جائے اور کس کو نہیں ؟بچائی جانے والی جان کا تعین کیا کیسے جائے ؟کیا اس ڈاکٹر کی جان بچائی جائے ‘جو مریض ہے اور وہ ٹھیک ہوکر مزید جانیں بچا سکتا ہے ؟یا ایک بے روزگار نوجوان کی جان زیادہ قیمتی ہے‘ جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے ؟کسی اہم پوسٹ پر موجود شخص‘ کوئی سائنس دان ‘ کوئی عالی دماغ زیادہ اہم ہے یا اس بنیاد پر فیصلے کیے جائیں کہ کس کے بچنے کی امید زیادہ ہے ‘ عمر کس کی زیادہ ہے‘ وغیرہ وغیرہ ۔اٹلی کا صحت کا نظام دنوں کے اندر زمین بوس ہوگیا ہے۔ہسپتالوں کے بیڈ ختم ہوگئے تو باہر کنٹینرز لگا دئیے گئے ۔ٹینٹ کھڑے کر دئیے گئے ہیں۔یہی تو سب کچھ جنگ میں ہوا کرتا ہے۔ایک آفت زدہ اٹلی اور جنگ کی تباہی سے گزرے ہوئے اٹلی میں زیادہ فرق نہیں ہے ۔
ڈیٹا سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اٹلی اپنے قریبی ممالک سپین ‘جرمنی ‘ فرانس سے آفت زدگی میں دس دن اور یوکے اور امریکا سے 13 تا16 دن آگے ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ان ممالک کے پاس وقت ہے کہ وہ اس صورت ِحال سے خود کو بچا سکیں یا اس کے لیے اپنے صحت کا نظام تیار کرسکیں ۔امریکا میں ایک اندازے کے مطابق‘ 45ہزار آئی سی یونٹس کے بستر ہیں‘ جبکہ ایسی صورت ِحال میں 2 لاکھ انتہائی نگہداشت والے بستروں کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔
میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ ترقی یافتہ ممالک کا حال ہے ‘جن کا نظام صحت ‘اور مجموعی صحت کا معیار ترقی پذیر یا غریب ممالک سے بہت بہتر ہے اور آبادی کا دباؤ بھی اتنا نہیں ہے‘ تو پاکستان‘ہندوستان‘بنگلہ دیش وغیرہ اور افریقی ممالک کا کیا بنے گا؟ جہاں عام حالات میں بھی یہ سہولیات ملنا بہت مشکل ہے ۔ مستقبل کا کیا علم؟ لیکن ابھی تو اللہ کا یہ کرم ہے کہ یہ ممالک ایسی سنگین صورت ِحال سے دوچار نہیں ہیں ۔صورت ِحال بھی ایسی ویسی سنگین ۔ کیا کبھی سوچا تھا کہ پسماندہ افریقی ممالک ‘یورپی باشندوں کے داخلے پر پابندی لگا دیں گے ؟ وہ لوگ جو گوری چمڑی کی منتیں کرتے نہیں تھکتے تھے‘ انہیں خود سے دور رہنے کی ہدایت کر رہے ہیں ۔پاکستان کے حالات اللہ کا شکر ہے‘ اب تک قابوسے باہر نہیں ہیں ۔ داد دینی پڑتی ہے سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور سندھ حکومت کو جنہوں نے اس خطرے کو سب سے پہلے بھانپا اور وفاقی حکومت سے بھی پہلے بچاؤ کے اقدامات کیے ۔ ویسے تو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ترجمان نے بھی حکومت پاکستان کی حفاظتی اقدامات کی تعریف کی ہے‘ لیکن یہ کافی نہیں ۔ ہنگامی صورت ِحال کسی وقت بھی پیدا ہوسکتی ہے ۔ چین سے اچھی خبر آرہی ہے کہ انہوں نے اس وبا پر کامیابی سے قابو پالیا ہے۔یہ واضح نہیں کہ محض اقدامات کے ذریعے یا بذریعہ علاج؟ کسی ویکسین کی مصدقہ اطلاع اب تک نہیں ۔ اگر ویکسین اب تک نہیں ہے ‘تو علاج کی صورت پھر کیا ہے ؟ کیوں کہ بتایا یہ جارہا تھا کہ موجودہ ادویات اور اینٹی بائیوٹکس اس وائرس کے لیے ناکام ہیں ۔تو پھر یہ مریض صحت یاب کیسے ہوئے ؟ میرا خیال ہے کہ حکومتوں کو یہ بات بھی واضح کرنی چاہیے ۔
لیکن جو کچھ بھی ہے ۔ ہر کچھ دن بعد انسان کی تمام تر ترقی ‘ زعم اور دعووں کے فلک شگاف نعرے پھٹے ڈھول کا جھوٹ لگنے لگتے ہیں ۔ ایک حقیر ننھا سا جرثومہ تمام تر حفاظتی زرہ بکتر پہنے ‘ہتھیاروں سے مسلح چھ فٹے شخص کو آنا فانا ڈھیر کردیتا ہے ۔ یہ حال کردیتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اور واحد سپر پاور امریکا کا صدر اتوار کو دعاؤں کا دن قرار دیتا ہے اور یہ سمجھاتا ہے کہ امریکا ہمیشہ سے خدا کی مدد پر یقین رکھتا آیا ہے ۔چہ خوب ‘سبحان اللہ ۔بچپن میں طاقت ور اورظالم بادشاہ نمرود کی کہانی پڑھی تھی ‘جسے ایک معمولی چیونٹی نے مار گرایا تھا۔چیونٹی تو پھر بھی بڑی چیز ہے ۔ یہ کورونا وائرس COVID-19تو انسانی آنکھ سے نظر بھی نہیں آتا ‘لیکن اس حقیر جرثومے کی دہشت۔الامان وا لحفیظ۔ ؎
وقت کو دیکھو ! کیسے یہ سب کی اوقات دکھاتا ہے
کیسے کیسے جیتنے والے اس کمزور سے ہارے ہیں
ایک ذرا سے جرثومے سے پیدا ہونے والے لوگ
ایک ذرا سے جرثومے نے موت کے گھاٹ اتارے ہیں