"SUC" (space) message & send to 7575

دیکھو یہ شگفتہ دل شگوفے

دھند بھری صبحوں میں کرنیں رخنے ڈالنا شروع کریں اور شگاف رفتہ رفتہ اتنے بڑے ہونے لگیں کہ فصیل بالکل ہی ڈھے جائے۔ ایک دن آپ دیکھیں کہ وہ مکالمہ جو مہینوں سے قریب قریب نہ ہونے کے برابر تھا، مسلسل اور متواتر ہو چلا ہے اور چمکیلی کرنیں زمین سے بلا حجاب اور بے رکاوٹ باتیں کر رہی ہیں‘ تو پتہ چل جاتا ہے کہ فروری کا مہینہ آن پہنچا ہے۔ ٹھٹھرے ہوئے ہاتھ پاؤں میں خون رواں ہونے لگے، لحاف اور کمبل بتدریج چہرے سے سرکتے سرکتے پاؤں کی طرف سمٹتے جائیں۔ آپ کمرے سے نکلیں تو ہوا کا وہ جھونکا آپ کا استقبال کرے جس کی دھار اتنی تیز نہ ہو تو جسم جان لیتا ہے کہ معتدل موسم دستک دینے لگا ہے اور بہار کی آمد آمد ہے۔
انگوروں کی خشک، بے نمو، بے برگ اور بے رنگ بیلوں میں یہاں وہاں ہلکے انگوری رنگ پھوٹنے لگیں، ٹنڈ منڈ سخت ٹہنیاں لچکدار بننے لگیں اور گھاس کی زرد وسعت سمٹتی ہوئی سبز رنگ کو جگہ دینے لگے تو جان جائیے کہ پیڑوں اور پودوں کے ہرے دن آن لگے ہیں۔ پیڑوں، منڈیروں اور تاروں پر پرندے پھر سے چہکتے دکھائی دینے لگیں، فاختائیں، کوئلیں، کبوتر اور چڑیاں صبا کی سرگوشیوں میں اپنی بولیوں کی موسیقی شامل کرنے لگیں اور آنکھ پرندوں کی چہکاروں سے کھلنے لگے تو سمجھ جائیے کہ ان کی خوشی کا زمانہ شروع ہو رہا ہے۔
آمدِ بہار سے کچھ پہلے میں پودوں اور ٹہنیوں کو بہت غور سے دیکھتا رہتا ہوں۔ یہ مزے کا کام ہے اور خوشی کے بجرے پر سوار ہوکر حیرت کے سمندر کی سیر جیسا۔ خشک، بے رنگ اور بے نمو ٹہنی میں پہلے ایک غیر محسوس چھوٹا سا شگاف نمودار ہوتا ہے، پھر اس میں سے ہلکا سبز رنگ جھانکنے لگتا ہے۔ پھر ایک پر نما پتہ اس طرح باہر کی فضا میں جھانکتا ہے ۔پھر کئی اور ایسے ہی پر نکلتے ہیں اور پھر زرد ٹہنی کے رنگوں کو سبز رنگ ڈھانپ لیتا ہے۔ بیلیں اور درخت ایسے ہرے ہوتے ہیں جیسے کبھی بے رنگ ہوئے ہی نہ تھے۔ اسی حیرت کدے کو دیکھ کر تو دل نے کہا تھا:
نہالِ خشک سے کیا برگ و بر نکل آئے
بہار آئی تو شاخوں کے پر نکل آئے
کیا لفظ ہے یہ بہار‘ اور کیسی کیفیتیں وابستہ ہیں اس لفظ کے ساتھ۔ زمین پر اترنے والے چاروں موسم، سردی، گرمی، برسات، بہار زمین کے ہر خطے تک پہنچتے ہیں۔ کہیں زیادہ کہیں کم شدت کے ساتھ۔ ان میں صرف بہار کا موسم ایسا ہے جس کی سختیوں سے لوگ پریشان اور شاکی نہیں ہوتے ورنہ سردی، گرمی برسات سبھی اپنی اپنی خوبصورتیوں اور سختیوں دونوں کے ساتھ نازل ہوا کرتے ہیں۔ بہار جتنی بھی شدید ہو، جتنی بھی بھرپور ہو، یہ صرف اور صرف خوشی کا پیغام ہی لے کر آتی ہے‘ اور خوشی صرف انسانوں کی ہی نہیں پرندوں، جانوروں اور پیڑوں پودوں کی بھی۔ یہ نئی زندگی جنم دینے کی رت ہے۔ پرندے اور پودے اپنی افزائش نسل کیلئے یہی رت منتخب کرتے ہیں۔ ٹہنیاں اسی موسم میں نمو کے ذخیرے مٹی کی تہوں سے کھینچ کر نکالتی ہیں اور پتوں، پھولوں کی صورت فضا کے سپرد کرتی ہیں۔
فارسی اور اردو شاعروں نے تو جیسا بہار کو مجسم کیا ہے اور اس موسم کی انسانی کیفیات پر جو اثرات رقم کیے ہیں‘ وہ بھی کسی اور موسم کے حصے میں نہیں آئے۔ خوشی اور سرمستی جو دیوانگی اور وحشت کی حدود کو چھونے لگتی ہے وہ بھی تو بہار سے منسوب ہے۔
دھوم ہے پھر بہار آنے کی/ کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی
اردو شاعری میں تو یہ پھول ہر ہر قدم پر کھلے ہوئے ہی ہیں لیکن ویسے بھی دنیا کے ہر علاقے، ہر ملک اور ہر خطے میں بہار کا جس طرح کھل کر استقبال کیا جاتا ہے ایسا کسی اور موسم کو نصیب نہیں ہوتا۔ قدیم ہندوستان‘ جو بنیادی طور پر زرعی معاشرہ تھا، سال کو چھ موسموں میں تقسیم کرتا تھا اور سب سے پسندیدہ وسنت رت تھی۔ جب موسم نہ سرد ہو نہ گرم۔ اسی سے منسلک بسنت کی پتنگ بازی تھی، جو لاہور میں خوشی کا دن تھا اور اس کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا تھا، لیکن جو آخر آخر خونیں اور بے شمار مسائل کا دن بن کر رہ گیا۔ ہندو مذہب کا اہم تہوار ہولی بھی انہی دنوں میں منایا جاتا ہے۔ چترال کی بلندیوں میں کیلاش قبیلہ ہرے پہاڑوں اور وادیوں میں چلم جوش کا جشن مناتا ہے۔ عورتیں ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتی ہیں، نوجوان اپنے اپنے شریک زندگی کا انتخاب کرتے ہیں۔ بکری کا دودھ بانٹا جاتا ہے اور وادیوں میں انگور پکنے کی خوشبو پھیل جاتی ہے۔ پنجاب کے میدانوں میں سرسوں کا سونا کھلتا ہے، نئی فصلیں، نئے پتوں اور پھولوں کے ساتھ بلند ہوتی ہیں تو بسنت کا میلہ سجتا ہے۔ ایک طویل اور سخت سرمائی موسم سے گزرنے والے اس غلاف سے باہر نکلنے کا جشن مناتے ہیں اور شادیوں کی تیاریاں زوروں پر شروع ہو جاتی ہیں۔ برف کی تہہ ہٹا کر پودے جھانکتے ہیں اور شگوفے کھلتے ہیں تو ایران اور ملحقہ خطوں میں جشن نوروز کا آغاز ہوتا ہے۔ نوروز یعنی نیا دن۔ صرف ایران ہی نہیں، افغانستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکی تک کروڑوں لوگ 20 مارچ کو یہ دن مناتے ہیں۔ کھانے کی میزیں خاص طور پر آراستہ ہوتی ہیں، ان میں مزیدار روایت ہفت سین کی ہے یعنی کھانے کی سات ایسی چیزیں سجائی جاتی ہیں جو حرف سین سے شروع ہوں۔ بلغاریہ میں بابا مارٹا کا دن بہار کی خوشی کا دن ہے۔ جاپان میں چیری کے گلابی پھول کھلتے ہیں اور فیوجی یاما پہاڑ کے برف پوش پس منظر میں نئے منظروں کے دروازے وا ہوتے ہیں۔ یہ چیری بلاسم فیسٹول ہے۔ سیام یعنی تھائی لینڈ میں سوانگ کران کا میلہ شروع ہوتا ہے جس میں ایک دوسرے پر پانی پھینک کر خوشی منائی جاتی ہے۔ میکسیکو کا ایکوئی نوکس ہو، سپین کا سمانا سانٹاو یا سکاٹ لینڈ کا امبولک، وینس کا کارنیوال ہو یا امریکہ کا چیری فیسٹول‘ سب ایک ہی خوشی کے مختلف مظاہر ہیں۔ ایک خوبصورت، گل چہرہ موسم میں پہنچ جانے کی خوشی۔
مجھے آتی بہار کے موسم میں مجید امجد کی نظم یاد آتی ہے۔ وہ مجید امجد جسے پڑھیں تو اتنا اداس کردیتا ہے کہ بعض دفعہ جی چاہتا ہے، مر جائیں۔ وہ مجید امجد بھی بہار کی بات کرتا ہے تو رجائیت سے چھلکتی نظم لکھتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس کی زیریں تہوں میں بھی گہری اداسی سرسراتی ہے۔ جسے محسوس کیا جاسکتا ہے، ٹھیک سے بتایا بھی نہیں جاسکتا۔ جیسے گھاس کی جڑوں میں اسے شاداب کرتا پانی بہہ رہا ہو، لیکن نظر نہ آتا ہو۔ ذرا دیکھیے:
پت جھڑ کی اداس سلطنت میں/ اک شاخِ برہنہ تن پہ تنہا/ بے برگ مسافتوں میں حیراں/ کچھ زود شگفت شوخ کلیاں/جو ایک سرورِ سرکشی میں/ اعلانِ بہار سے بھی پہلے/ انجامِ خزاں پہ ہنس پڑی ہیں/ تقدیرِ چمن بنی کھڑی ہیں/اس یخ کدہ یقینِ غم میں/ دیکھو یہ شگفتہ دل شگوفے/ ماحول نہ کائنات ان کی/ اِک نازِ نمو حیات ان کی/ عمر ان کی بس ایک پل ہے لیکن آئیں گے انہی کی راکھ سے، کل/ ماتھے پہ حسیں تلک لگائے/ پھولوں بھری صبحِ نو کے سائے
یہ نظم مجھے زندگی کی مثبت اور روشن سمت لے جاتی ہے۔ ملکی اور عالمی ناامیدیوں کے باوجود۔ ہزار مشکلات کے بیچوں بیچ۔ بے شمار مایوسیوں اور بے بسیوں کے درمیان سے راستہ بناتی ہوئی۔ ہم جو زیادہ باشعور ہونے کا زعم رکھتے ہیں، روز مایوس زندگی کا آغاز کرتے ہیں، سارا دن مایوسیاں تقسیم کرتے ہیں اور اپنی دانشوری پر نازاں ہوتے ہیں۔ کیا ہمیں زندگی کرنی آتی ہے؟ زندگی کرنا ان درختوں سے سیکھیے۔ ان پر آرا چلایا جاتا ہے۔ ہوائیں ان کے پتے گرا دیتی ہیں۔ ان کی شاخیں کاٹی جاتی ہیں، ان کے پھل توڑ لیے جاتے ہیں۔ کون سا زخم ہے جو انہیں نہیں لگتا لیکن یہ ہر سال انہیں بھلا کر کھل اٹھتے ہیں۔ اپنا بہترین دنیا کو پیش کردیتے ہیں۔ کون سا رنگ ہے جو وہ دنیا کو نہیں دیتے۔ زندگی جاننی ہو، رجائیت سیکھنی ہو تو درختوں، پودوں، بیلوں سے سیکھیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں