کووڈ کی ویکسین لگوانے والوں میں ہر ایک کے ذہن میں یہ بڑا سوال موجود ہے کہ کیا اب ہم محفوظ ہو گئے؟ کیا اب ہمیں کووڈ19 متاثر نہیں کرسکتا؟ بدقسمتی سے اس کا جواب ہاں میں بھی ہے اور نہیں میں بھی۔ ویکسین لگوانے کے باوجود انسان وائرس کا شکار ہوسکتا ہے بلکہ بہت سی مثالیں ہمارے گردوپیش میں ہی موجود ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر ویکسین کو اینٹی باڈیز بنانے کا مناسب موقع مل چکا ہے تو پھر وائرس بہت معمولی درجے کا اثر کرکے ختم ہوجاتا ہے اور مریض کو کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ اسی سوال کا ایک رخ یہ ہے کہ کیا ڈیلٹا وائرس جو اسی وائرس کی ایک نئی اور مہلک شکل ہے‘ کیا اس کے لیے بھی یہی ویکسین مؤثر ہوتی ہے؟ جی ہاں۔ فی الحال مشاہدے کے مطابق یہی ویکسین ڈیلٹا وائرس کے لیے بھی ڈھال کا کام کرتی ہے۔ حالیہ دنوں سے کراچی سب سے زیادہ ڈیلٹا وائرس کے متاثر شدہ شہروں میں ہے‘ جہاں چوبیس فیصد تک پازیٹو شرح دیکھی جارہی ہے۔ اعلامیوں کے مطابق ہسپتالوں میں بستروں اور وینٹی لیٹرز کی گنجائش ختم ہوچکی ہے تاہم قابل اعتماد ڈاکٹرز کے اعلان کے مطابق ان مریضوں میں کوئی ایک بھی ویکسین شدہ مریض نہیں ہے‘ یعنی سب وہی ہیں جنہیں ویکسین نہیں لگی تھی۔ یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ ڈیلٹا وائرس کے لیے یہ ویکسینز مؤثر ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ویکسین شدہ شخص سے وائرس پھیل سکتا ہے؟ بدقسمتی سے اس کا جواب اگرچہ ہاں میں ہے لیکن یہ بہت معمولی درجے کا اثر ہوگا اور ایسی مثالیں بھی بہت کم ہیں۔
کووڈ19 ویکسین کے بارے میں ایک اہم سوال اس بے چارے مسافر کا ہے جسے پاکستان سے باہر سفر کرنا پڑ جائے۔ میں پہلے کالم میں بتا چکا ہوں کہ ہر ملک کا الگ الگ لائحہ عمل ہے اور حالات بھی ہر ایک کے مختلف ہیں۔ آپ فرض کیجیے کہ ایک مسافر کو انہی دنوں عمرے کا سفر بھی اختیار کرنا پڑجاتا ہے اور امریکہ کا بھی۔ یہ مسافر سرکاری طور پر سائنوفارم یا سائنوویک کے دونوں انجکشن لگوا چکا ہے لیکن عمرے کے سفر کے لیے یہ کافی نہیں۔ اسے سعودی لائحہ عمل کے مطابق بوسٹر انجکشن لازمی لگوانے پڑیں گے جو فائزر یا موڈرنا ویکسین کے ہونے چاہئیں۔ یہ شرط پوری نہ ہوئی تو وہ سعودی عرب میں داخل نہیں ہوسکتا۔
فرض کیجیے کہ مسافر ہر طرح صحت مند ہے اور اسے کسی قسم کا کوئی عارضہ نہیں۔ اس صورت میں اسے کچھ معلوم نہیں کہ یہ بوسٹر انجکشن اس کی صحت کے لیے کیسا ثابت ہوگا؟ ایک الگ قسم کی ویکسین پر دوسری مختلف طریقے سے کام کرنے والی ویکسین کا بوسٹر انجکشن کیا مطلوبہ نتائج یعنی اینٹی باڈیز پیدا بھی کرسکے گا؟ اگر پہلی ویکسین کے مطابق اس کے جسم میں اینٹی باڈیز کافی مقدار میں موجود ہیں تو یہ بوسٹر انجکشن جسم پر کیا اثرات مرتب کرے گا؟ عام مسافر کیا، یہ ڈاکٹرز کو بھی معلوم نہیں، کیونکہ جس سے پوچھا جائے تو تذبذب کے بعد الگ طرح کا جواب دے دیتا ہے جس کا اصل مطلب نکالا جائے تو یہ ہے کہ اسے نہیں معلوم۔ اب دوسری مثال لیجیے۔ فرض کیجیے کہ مسافر ذیابیطس، بلڈ پریشر، دل کے یا دیگر امراض کا پہلے ہی شکار ہے۔ ویکسین لگوا چکا ہے۔ اب کیا اسے یہ بوسٹر انجکشن لگوا لینا چاہیے؟ کیا پورے اطمینان کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس کے امراض میں مزید پیچیدگی پیدا نہیں ہوگی؟ ہے کوئی جو یہ اطمینان دلا سکے یا کم از کم یہ تذبذب ہی ختم کرسکے؟
پھر یہ کہ اگر مسافر کو دو ایسے ملکوں کا سفر یکے بعد دیگرے کرنا ہے جن کا الگ الگ لائحہ عمل ہے اور وہ اپنی اپنی مخصوص ویکسین لگوانے پر زور دیتے ہیں تو وہ کون کون سی ویکسین لگوائے گا؟ اور اس کی صحت پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ یہ سوال جواب طلب ہیں اور اب تک ان کا شافی جواب کم از کم میرے علم میں نہیں۔ امریکہ ان ممالک میں سرفہرست ہے جو کووڈ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں لیکن انہوں نے طریقۂ کار نسبتاً سہل رکھا ہے۔ پاکستان سے جانے والے ان لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرواتے ہیں جو امریکہ میں منظور شدہ ہیں، مثلاً شوکت خانم۔ ان کی ٹیسٹ رپورٹ اگر صاف ہے تو داخلے کے لیے کافی ہے۔ ویکسین کارڈ نہیں دیکھا جاتا اور اس کی ضرورت بھی نہیں۔ واپسی پر پھر امریکی لیب سے اسی طرح کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے جو ڈرائیو تھرو ٹیسٹ ہے۔ یہ ٹیسٹ رپورٹ پاکستان واپسی پر دیکھی جاتی ہے اور ایک مزید ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔کیا یہی صورت ہر ملک میں خاص طور پر عمرہ زائرین کے لیے اختیار نہیں کی جا سکتی تھی؟ بوسٹر انجکشن کی قید تو اضافی پابندی لگانے کے مترادف ہے‘ خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
ان سب سوالات کے جواب ڈھونڈتے ہوئے ایک اہم آرٹیکل نظر سے گزرا‘ جن سے کچھ معلومات مل سکتی ہیں۔ یہ آرٹیکل ایک دوست محمد منیب صاحب نے فراہم کیا جس کے لیے ان کا ممنون ہوں۔ یہ آرٹیکل 5 اگست کو لکھا گیا اور بڑی ویکسین ساز کمپنی موڈرنا کے بارے میں ہے۔ موڈرنا کے چیف ایگزیکٹو سٹیفن بینسل نے اعلان کیا ہے کہ تجربات کے مطابق ان کی ویکسین دوسری ڈوز کا انجکشن لگوانے کے چھ ماہ بعد بھی 93 فیصد مؤثر ثابت ہوئی ہے جبکہ ویکسین لگواتے وقت یہ 94 فیصد مؤثر تھی‘ لیکن سردیوں سے پہلے اس کا ایک بوسٹر انجکشن لگوانا ضروری ہوگا۔ اب اس تاثیر کا مقابلہ فائزر اور بائیون ٹیک کے پچھلے ہفتے کے اعلانات سے کیا جاسکتا ہے جن کے مطابق ان کی ویکسین ہر دو ماہ بعد اپنی 6 فیصد تاثیر کھو بیٹھتی ہے یعنی دوسری ڈوز کے چھ ماہ بعد اس کی تاثیر میں 84 فیصد کمی ہو جاتی ہے۔ یہ خیال رہے کہ موڈرنا اور فائزر‘دونوں کی ویکسینز ایک ہی طریقے یعنی آر این اے (RNA) ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں۔ ادھر فائزر کمپنی تیسرے شاٹ یعنی ویکسین کے تیسرے انجکشن کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سال موڈرنا نے 20 ارب ڈالر کی ویکسین فروخت کی ہے اور لگ بھگ ایک ارب ڈوزز تیار کی ہیں‘ اس کے باوجود وہ اپنی حریف فائزر کمپنی کو نہیں پہنچتی جس نے اس سال لگ بھگ تین ارب ڈوزز بنائی ہیں اور 2021 میں 33.5 ارب ڈالرز کی ویکسینز فروخت کی ہیں۔
سوالوں کے اس سلسلے کا ایک آخری لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ ہم اس چکر سے کب نکلیں گے اور نکلیں گے بھی یا نہیں؟ 2019 میں اچانک دنیا غیر متوقع طور پر ایک ایسی سرنگ میں داخل ہوگئی جس کا دوسرا کنارہ نظر نہیں آتا تھا۔ کہیں کہیں روشنی دکھائی دیتی تو قریب جاکر پتہ چلتا تھا کہ یہ باہر نکلنے کا راستہ نہیں‘ محض ہوا کا ایک عارضی انتظام ہے۔ یہ سرنگ طویل تر ہوتی جا رہی ہے اور تمام تر انسانی کوششوں کے باوجود کوئی روشن دائرہ نظر نہیں آرہا
کسی کنارۂ روشن کو ڈھونڈتے ہوئے لوگ
مگر سفر کوئی اندھی سرنگ ہوتا ہوا
ایسے بے یقین سفر میں جہاں، روشنی اور دھوپ کو ترس گئے ہوں، کبھی کبھی سازشی تھیوریاں، جن کا میں سخت مخالف ہوں، سچ لگنے لگتی ہیں۔ خیال آنے لگتا ہے کہ زندگی اب دو سال سے ایک کولہو کے بیل کی طرح کورونا کے رہٹ کے گرد گھوم رہی ہے۔ کووڈ سے بچاؤ، احتیاط، پابندیاں، انتظام، ویکسین، بوسٹراور پھر بوسٹر اور پھر بوسٹر۔ کولہو کے بیل چکر لگاتے جاتے ہیں۔ پانی کنویں سے نکل کر نالیوں میں رواں ہوتا جاتا ہے۔ ہل میں جوتنے والے کے کھیتوں کو پانی ملتا جاتا ہے اور اس کی کھیتیاں سیراب اور ہری بھری ہوتی جاتی ہیں ۔ یہ رہٹ کس نے بنایا بیلوں کی مرضی اس نظام میں کیا ہو سکتی ہے بھلا لیکن بیلوں کی آنکھوں پر پٹی کیوں باندھ دی گئی؟ بیل کس نے جوتے؟ کھیت کس کے ہیں؟ اور آخری فائدہ کس کو حاصل ہورہا ہے؟ پتہ ہی نہیں چل رہا۔ کیا یہ سوال سب سوالوں سے بڑا نہیں ہے؟ (ختم)