اتوار کا دن ہے یعنی میرے نزدیک نہاری کا دن۔ اس بیان میں سے آپ مبالغہ نکال دیں تب بھی یہ اکثر و بیشتر اتواروں پر صادق آتا ہے۔ بہت سے ناشتوں مثلا پائے، بونگ پائے، حلوہ پوری وغیرہ کی شان میں گستاخی مقصود نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ نہاری نہاری ہے۔
اللہ جانے کیا محبوبیت ہے اس کھانے میں۔ کیا لذت ہے اس کے لقمے میں کہ پلیٹ سے پیٹ تک کا سفر اکثر کرتا ہی رہتا ہے۔ اللہ جانے کیا رغبت ہے کہ عمر، صحت کے مسائل اور کولیسٹرول کی طرح بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے بہت سے صحت پسند حضرات و خواتین میری اس پسند پر ناک بھوں چڑھائیں اور اظہار ناپسندیدگی کریں جس کا انہیں اتنا ہی حق ہے جتنا مجھے اسے پسند کرنے اور بہت سے کھانوں پر ترجیح دینے کا۔ آپ اگر نہاری نہ کھاتے ہیں نہ پسند کرتے ہیں تو میں تو یہی کہوں گا کہ نصیب اپنا اپنا۔
لیکن غلط نہ سمجھیے، ہر قسم کی نہاری کی بات نہیں ہو رہی۔ نہ ان ملغوبوں کی جو نہاری کے نام پر بیچے، خریدے اور کھائے جاتے ہیں۔ اصیل، نجیب الطرفین، صحیح النسب نہاری کی بات ہو رہی ہے۔ وہ نہاری جو خاندانی لوگوں کی طرح کم کم ہوتی ہے، لیکن ہوتی ہے بہرحال۔
لاہوریے، جن میں یہ گستاخ بھی شامل ہے، میری ایک اور گستاخی کو معاف کردیں، جس کے بیان سے قبل ہی بندہ ہاتھ جوڑ چکا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ لاہور میں بہترین نہاری ایک دو جگہ ہی دستیاب ہے۔ باقی جگہ بس نام بکتا ہے۔ کراچی کے مقابلے میں، جہاں عمدہ نہاری کے بہت سے ٹھکانے ہیں، لاہور میں انتخاب بہت ہی محدود ہے۔ کراچی میں بہت سی جگہوں پر وہ نہاری ملتی ہے جو کھا کر سی سی اور سوں سوں کرتا ہوا آدمی بے قراری سے اگلا پروگرام اور اگلی جگہ طے کرتا ہے۔
نہاری کے یہ فضائل آپ کو برے لگنے لگیں تو ذرا ٹھنڈے دل سے اس نہاری خور کی گزارشات پر توجہ دیجیے گا۔ گوشت پر مشتمل کون سا مشہور کھانا ہے جو باہر سے ہندوستان میں نہیں آیا۔ یخنی پلاؤ ازبکستان کی دین ہے، کباب ترکی اور ایران کی۔ بریانی ایران سے منسوب کی جاتی ہے۔ کوفتے بیک وقت مختلف شکلوں میں عراق، ایران اور ترکی کی۔ انگاروں پر بھنا ہوا بکرا یا دنبہ افغانستان کی۔ مرغ مسلم، مرغ بریاں، تلی ہوئی، بھنی ہوئی، انگاروں پر سنکی ہوئی مچھلی و علیٰ ہٰذاالقیاس۔ کسی طرح کے گوشت والے کھانے کا نام لیجیے جو اس وقت مقبول ہو‘ اس کے ساتھ ترکی، ایران، افغانستان، شام، لبنان وغیرہ کا نام منسلک ہوگا۔ گوشت خوری سے مذہبی پرہیز کے باعث ہندوستان میں گوشت کا رواج تھا ہی نہیں یا بہت کم تھا۔ یہ تو مسلمان اپنے ساتھ لائے جو پورے برصغیر میں مقبول ہوگئے۔ اس سے پہلے تو یہاں کے مقامی لوگوں کا چاول اور دالوں پر گزارہ تھا۔ یاد نہیں بابر نے تزک بابری میں لکھا ہے یا ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامۂ ہند میں کہ یہاں کے لوگ بہت معمولی درجے کا کھانا کھاتے ہیں‘ چاول اور دال ملا کر جسے وہ کھچڑی کہتے ہیں۔ بابر ہی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہم جب کسی دریا کے کنارے پڑاؤ ڈالتے ہیں تو اپنے خیموں کا رخ دریا کی طرف رکھتے ہیں جب کہ ہماری مقامی فوج دریا کی طرف خیموں کی پشت کرتی ہے۔
خیر بات نہاری کی ہورہی تھی۔ یہ واحد مقبول کھانا ہے جو ہندوستان سے اٹھ کر باہر گیا‘ جس کی جنم بھومی ہندوستان ہے‘ یعنی دلّی‘ یعنی شاہجہاں آباد۔ پرانی دلی سے آغاز ہونے والا یہ کھانا اب کتنے ملکوں اور شہروں میں موجود ہے؟ اندازہ کرنا مشکل ہے۔ میں نے شکاگو کی ڈیون سٹریٹ پر مزیدار نہاری کھائی، اٹلانٹا میں لذیذ نہاری کا لطف لیا۔ ابوظہبی، دبئی میں بہت اچھی نہاری ملی۔ یوکے میں بھی کئی جگہ بہت اچھی نہاری ملتی ہے۔ دوسر ے ملکوں میں بھی۔ یہ مقبولیت دوسرے سالنوں مثلا کوفتوں کو نہیں ملی۔ کوئی ایسا ریسٹورنٹ نہیں جو صرف کوفتوں کے سالن کے لیے مشہور ہو۔ ہاں بے شمار ریسٹورنٹ وہ موجود ہیں جو صرف نہاری بناتے ہیں‘ دوسری طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ اس معاملے میں کوئی اور کھانا نہاری کا حریف ہے تو وہ بریانی ہے۔
نہاری سے متعلق کچھ باتیں غیر تحریری لیکن مسلمہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ نہاری اصل میں ہے ہی بڑے گوشت کی اور دیگ کی۔ چکن، مٹن کی نہاری میں اور دیگچی یا پتیلی کی نہاری میں وہ بات ہی نہیں۔ تو جب یہ طے ہو گیا تو ظاہر ہے گھروں کے باورچی خانوں میں دیگیں نہیں پکائی جاتیں۔ خواتین کی طرف سے پتھراؤ کا خطرہ اپنی جگہ لیکن بات یہی ہے کہ نہاری دیگ کی، اور اگر دیگ کی تو ظاہر ہے مرد کے ہاتھ کی۔ کچھ کھانوں میں جو لذت مرد کے بنائے ہوئے کھانوں کی ہے، وہ خاص ہے۔ انہی کھانوں میں باربی کیو یعنی انگاروں پر سنکا ہوا گوشت بھی شامل ہے۔ دوسرے یہ کہ نہاری کی اپنی نزاکتیں ہیں اور اس کا ٹھیک لطف اس کے لوازمات کے بغیر نہیں۔ ہر طرح کا گوشت نہیں، خاص قسم کا گوشت۔ ہر روٹی نہیں، خاص طرح کی روٹیاں، ہر سلاد نہیں، خاص طرح کا ہرا مصالحہ۔ دلّی والے تو ان نزاکتوں کے لیے مشہور تھے ہی لیکن اب یہ ہر جگہ ہیں۔ مشہور لطیفہ ہے کہ ایک دلّی والے نے دوسرے سے کہا: کچھ سنا؟ بھائی عارفین، نہاری کی دیگ میں گر گئے۔ دوسرے نے پوچھا: اچھا تو پھر نکلے نہیں؟ بولا: نہیں‘ دو بار نکلے‘ ایک بار ادرک لینے‘ دوسری بار لیموں لینے۔
ویسے دلّی کی نہاری کا کوئی جواب نہیں۔ اگرچہ ہمارے کراچی کی نہاری اس کے ٹکر کی ہے۔ مٹیا محل، دلی میں کریم ہوٹل مشہور ہے لیکن وہ صرف نہاری نہیں تمام مغلیہ کھانوں کے لیے مشہور ہے، اس سے بہتر نہاری اور جگہ ملتی ہے۔ حاجی سعید کی نہاری، بارہ دری کی نہاری، چتلی قبر محلے میں حاجی کلو کی نہاری۔ یہ وہ ذائقے ہیں جو مجھے کبھی بھولے نہیں۔ اب بہت دن ہو گئے دلّی کا چکر لگائے ہوئے۔ سنا ہے کئی اور ٹھکانے بھی بن چکے ہیں۔ لاہور میں سب سے بہتر نہاری اندرون لوہاری گیٹ کی ہے جس کی ایک شاخ جیل روڈ پر بھی ہے۔ لوہاری گیٹ والی دکان پر بچپن سے جاتے رہے ہیں۔ سردیوں میں، جو نہاری کا خاص موسم ہے، ٹھٹھرتے ہوئے، دیگچی ہاتھ میں تھامے، کہرے والی نہایت سرد صبح میں وہاں پہنچتے۔ اپنے برتن کو، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس جگہ رکھتے جہاں پہلے ہی برتنوں کی ایک لمبی قطار موجود ہوتی تھی۔ کسی گاہک کی، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، مجال نہیں تھی کہ اپنا برتن اپنی باری توڑ کر آگے بڑھا دے۔ دکان کے مالک غصیارے حاجی صاحب اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے گاہک کو گھور کر دیکھتے تو اس کی تو جیسے جان ہی نکل جاتی۔ اس دکان پر لاہور کے سارے مشاہیر پہنچتے تھے۔ مولانا مودودی، جو دلّی کے پروردہ تھے، ان کی بھی پسندیدہ نہاری تھی۔ مودودی صاحب ہی سے یہ جملہ بھی منسوب ہے کہ دو نسخے الہامی ہیں‘ نہاری اور پان۔ مراد یہ کہ اس کے اجزا اتنے متنوع اور مختلف ہیں کہ ویسے دماغ میں آنا مشکل ہے۔ اس کی ایک مثال نہاری کے معاملے میں یہ ہے کہ اس میں پکنے کے قریب سالن کو گاڑھا کرنے کے لیے آٹا وغیرہ بھی ڈالا جاتا ہے۔ آٹے کا اس طرح استعمال جو کسی اور جگہ میرے علم میں نہیں، حیران کن ہے۔
نہاری کے آغاز، اس کی وجہ تسمیہ، اس کے اجزا، اس کے فوائد پر بہت لکھا جا چکا ہے۔ اس میں بھلا میں کیا اضافہ کر سکتا ہوں۔ یہ جو نہاری نامہ آپ پڑھ رہے ہیں، اس کا مقصد یہی ہے کہ عاشقانِ نہاری کی فہرست میں اپنا نام بھی درج کروا دیا جائے تا کہ بروز حشر سند رہے۔ ہاں ایک مقصد اور بھی ہے۔ کیا آپ سمجھ گئے؟ اگر آپ اس نہاری نامے کو حسن طلب سمجھے ہیں تو مجھے اور آپ کو بیک وقت مبارک ہو۔ ماشاء اللہ آپ ٹھیک سمجھے ہیں۔ اللہم زد فزد۔