رات بودرم کے شہر پر اس طرح برس رہی تھی جیسے بارش برستی ہے۔ نہیں بارش نہیں۔ جیسے شبنم اترتی ہے۔ بے آواز، بے وقفہ اور بے شمار۔ کچھ دیر آرام کے بعد کمرے سے نکلا تو ہر شے رات کے رنگ میں بھیگی ہوئی تھی۔ سامنے سوئمنگ پول میں زیر آب نیلے رنگ کی روشنیاں جل اٹھی تھیں اور افق کے کنارے ہنوز نیم روشن تھے۔ ایک طلسم زاد منظر تھا جو غروب سے پہلے کے منظر سے الگ تھا‘ لیکن اس سے زیادہ جادو جگاتا تھا۔ مزید منظروں کی طلب مجھے اس منظر سے کھینچ کر دور لے جا رہی تھی۔ میں جس ہوٹل میں تھا وہ پہاڑی کی چوٹی پر تھا۔ بودرم شہر مجھے بلاتا تھا اور اس کے قرب کے لیے بلندی سے اترنا لازمی تھا۔ میں ہوٹل سے باہر آیا اور پہاڑی سے اترتی ڈھلوان سڑک پر شہر کی طرف چل پڑا۔ یہ ڈھلوان سڑک پُر پیچ تھی اور جلد ہی مجھے احساس ہونے لگا کہ واپسی پر یہ کھڑی چڑھائی مجھ سے قدم قدم کاحساب لے گی۔ دس پندرہ منٹ چلنے اور کئی موڑ کاٹنے کے بعد سامنے روشنیاں دکھائی دینے لگیں اور موسیقی کی آوازیں بھی ہوا کی لہروں پر مجھ تک پہنچنے لگیں۔ تھوڑا سا آگے چل کر راستہ مزید ڈھلوان اور تنگ ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی دائیں بائیں قہوہ خانوں اور طعام گاہوں کے سائن بورڈز دکھائی دینے لگے۔ ڈھلان بالآخر ایک کھلے راستے سے جا ملی۔ سمندری پانی کی خوشبو اب بالکل صاف تھی۔ میں بودرم کے ساحل پر تھا۔ دائیں طرف ریسٹورنٹس، جنرل سٹورز وغیرہ تھے اور بائیں طرف سمندر کے ساتھ ساتھ کھلے آسمان تلے بچھی کرسیاں اور میزیں اور صوفے۔ نہایت خوبصورتی سے جلی قندیلیں اورقمقمے۔ ایک نیم روشن تاریکی جس میں روشنی موجود ہو اور رات اس کے پہلو بہ پہلو کھڑی ہو۔ وہ ماحول جس سے جادو پھوٹتا ہو اور یاد رکھیے، جادو کیلئے تاریکی کی موجودگی لازمی ہے۔
کھلے آسمان تلے ایک طعام گاہ پر لکھا تھا: بیریک بالک۔ بالک ترکی زبان میں مچھلی کو کہتے ہیں۔ ساحل پر سی فوڈ کے بے شمار ریسٹورنٹ تھے اور ہلالی شکل کا یہ ساحل دور تک پھیلا ہوا تھا۔ میں ساحل کے قریب چلا گیا جہاں ہلکی ہلکی لہروں پر چھوٹی کشتیاں ہلکورے لے رہی تھیں۔ سامنے پانی کے دوسری طرف بودرم کا قلعہ روشنیوں میں جگمگا رہا تھا۔ یہ قلعہ صلیبی جنگوں کے زمانے میں کروسیڈرز نے تعمیر کیا تھا۔ میں نے سوچا‘ اس قلعے اور بحر ایجین کی اس کھاڑی نے کتنے زمانے اپنے اوپر گزارے ہیں۔ قلعے میں رہنے بسنے والے، کھاڑی کے سینے پر کشتیوں میں سوار ہوکر سفر کرنے والے اور اس کے کنارے چلنے پھرنے والے ہر کچھ سال بعد بدل جاتے ہیں۔ یہ شہر، یہ پہاڑیاں، یہ قلعہ، یہ سمندر یہ تماشا دیکھتے ہیں اور بس دیکھتے ہیں۔ اس پل کنارے پر کھانے پینے میں مصروف سیاح ایک لمحۂ فراغت میں ایک صدی گزارتے تھے اور انہیں لگتا تھا کہ یہ صدی ابدالآباد تک ان کے قبضے میں رہے گی۔
مجھے خبر نہیں تھی کہ سمندر کنارے یہ راستہ کدھر جاتا ہے اور یہ تجسس سیاح کی بے چینی کو مہمیز کرتا تھا۔ میں خوبصورت، مزین، کشادہ راستے پر چلتا رہا حتیٰ کہ یہ ایک تنگ بازار میں تبدیل ہونے لگا جس میں دونوں طرف دکانیں تھیں اور سیاحوں کی ضرورت کا سامان ۔ خوبصورت نوجوان جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، بانہوں میں بانہیں پیوست کیے چلتے تھے۔ اکیلے مسافر کو متوجہ کرنے والے بہت تھے۔ یہ سیاحوں کی مٹر گشت کا علاقہ تھا اور سیاح یہاں ہر قسم کے نشے میں پھر رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کسی کی زندگی میں نہ کوئی مصروفیت ہے نہ کوئی دکھ۔ مجھے ایسی جگہوں پر چہرے پڑھنے اور ان کہی سننے کا لطف آتا ہے اور یہاں چہروں کی کتابیں کھلی تھیں اور ان کہی کی بہت سی بولیاں مسلسل سنائی دے رہی تھیں۔
میں چلتا رہا یہاں تک کہ سمندر پھر قریب آگیا۔ بازار کے اختتام پر کشتیوں کے بلند مستول دکھائی دینے لگے اور بازار ایک کھلی سڑک پر ختم ہوگیا۔ یہ بودرم میرینا تھا۔ وہ ساحل جہاں سے کشتیاں، لانچز، فیری بوٹس چلتی ہیں اور جس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کے لیے میرین ڈرائیو موجود ہے۔ ایک بڑے چاند کی شکل کی یہ میرین ڈرائیو پام اور ساحلی درختوں کے ساتھ ساتھ دور تک چلی جاتی ہے۔ بائیں طرف سمندر، اس کے ساتھ فٹ پاتھ، پھر سڑک اور سڑک کے پار دکانیں اور ریسٹورنٹس۔ صفائی اور سلیقہ رات میں بھی اس علاقے کو حسین بنائے ہوئے تھا۔ روسی‘ یورپی سیاح کافی موجود تھے۔ خود ترک سیاحوں کی بھی اچھی خاصی بڑی تعداد آئی ہوئی تھی۔ میں بودرم بلدیہ کے دفتر کے سامنے رک گیا۔ سیاح اس کے سامنے سنگ مرمر کی سیڑھی پر بیٹھ کر تصویریں کھنچوا رہے تھے۔ میں بھی ایک طرف رک گیا کہ ذرا سی جگہ ملے تو ایک یادگار تصویر کھنچواؤں لیکن مسئلہ اتنا ہی نہیں تھا۔ تصویر کھینچنے کے لیے کسی سے درخواست کرنا پڑے گی۔ سیلفی سے کام نہیں چل سکتا تھا۔ سو میں یہی دورخہ انتظار لیے ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ یہ انتظار تو الگ تھا لیکن کیا شعر ہے محشر بدایونی کا انتظار پر: ؎
اس انتظار سے بھی ہم گزر چکے اب تو
جس انتظار میں انسان مر بھی جاتا ہے
اور محشر صاحب کی تو کیا بات تھی، لیکن انتظار پر کتنے ہی شعر لکھے گئے جن میں میرا یہ شعر بھی شامل ہے:
تری طرح کے کسی شخص کی تلاش میں ہوں
خبر نہیں یہ ترا انتظار ہے کہ نہیں
ایکسکیوزمی‘ کیا آپ میری ایک تصویر یہاں کھینچ دیں گے؟ ایک شیریں نسوانی آواز نے انتظار کے موسم میں صاف انگریزی زبان میں مجھے مخاطب کیا۔ میں نے تصویر کی فرمائش کرنے والی کی طرف دیکھا جو خود ایک تصویر تھی۔ خوبصورت، متوسط قامت اور دلکش نقش والی ایک حسین لڑکی۔ میں نے اپنے آپ کو کوسا، اس لمحۂ قبولیت میں اس سے بہتر دعا بھی تو مانگی جاسکتی تھی۔ میں نے اس کا موبائل کیمرہ لیا اور بودرم کے پس منظر میں اس کی کئی تصویریں بنائیں۔ اب باری اس کی تھی اور وہ زیادہ بہتر فوٹوگرافر محسوس ہوتی تھی۔ اس نے کئی زاویوں سے میری تصویریں بنائیں۔ یہ تصویریں اجنبیت کی خلیج پر ایک پل کی طرح بن چکی تھیں۔ اس کا نام فروا تھا۔ بیروت، لبنان سے وہ سیاحت کے لیے نکلی ہوئی تھی اور ترکی پہلے بھی کئی بار آچکی تھی۔ فروا صاف اور رواں انگلش بولتی تھی اور اس ہجوم میں جہاں نوے فیصد لوگ انگلش نہ بولتے تھے، نہ سمجھتے تھے، اس سے آسانی سے بات کرنا اس شام کی خوبصورتیوں میں ایک اضافہ تھا۔ ہم باتیں کرتے میرین ڈرائیو کے فٹ پاتھ پر چلتے رہے۔ اسے قدرے حیرت ہوئی کہ میں ترک نہیں پاکستانی تھا لیکن دبئی میں کئی پاکستانی گھرانے اس کے دوست رہ چکے تھے اور شکر ہے کہ اس کے خیالات پاکستانیوں کے بارے میں اچھے تھے۔ میں پاکستان کبھی نہیں گئی لیکن پاکستانی اچھے لوگ ہیں‘ مدد کرتے ہیں، خوش اخلاق اور مہمان نواز ہیں۔ میں نے اس جملے پر دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔ ''اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائوگے‘‘ میرین ڈرائیو دور تک پھیلی تھی اور اس کے خوبصورت فٹ پاتھ پر سنہری روشنیاں جھلمل جھلمل تھیں۔ سمندر کی طرف سے قدر ے خنک ہوا چل پڑی تھی اور پوری آستین کی قمیص میں بھی خنکی محسوس ہورہی تھی۔ فروا نے بیگ سے ایک شال نکالی اور اپنے کاندھوں پر ڈال لی۔ سمندر کنارے چلتے میں نے شہر کی طرف دیکھا۔ بودرم پہلے ہی رات کا دوشالہ اوڑھے جگمگ جگمگ کر رہا تھا۔