"SUC" (space) message & send to 7575

ایک نہ بھولنے والا سفر

سچ یہ ہے کہ گاڑی ایک چھوٹا سا گھر ہوتی ہے۔ یہ گھر آپ ساتھ لیے پھرتے ہیں یایوں کہہ لیجے کہ یہ گھر آپ کو ساتھ لیے پھرتا ہے۔ مسافت ایک دن کی ہویا کئی دنوں کی‘ اپنے کپڑے گاڑی میں لٹکائے‘ مختصر سامان بیگ میں سمیٹ گاڑی کے ٹرنک میں رکھا۔ چند پسندیدہ کتابیں منتخب کیں۔ زادِراہ اور پانی کی بوتلیں ساتھ رکھیں۔ دواؤں کا چھوٹا سا بقچہ تو ہر فرد کیلئے لازمی ہی سمجھیں۔ وہ ساتھ لیا اور مشینی گھوڑے کو ایڑ لگادی۔ پہلے زمانے میں سفر سے پہلے گھوڑوں کے نعل ٹھوکے جاتے تھے۔ اب ٹائر بدلے جاتے ہیں۔ گھوڑوں کا چارہ لیا جاتا تھا۔ اب مشینی گھوڑے کا ایندھن بھروایا جاتا ہے۔ یہ کام درست ہوگئے تو بس چل سو چل۔ سڑکیں اب اچھی ہیں۔ راستے میں جہاں نمازوں یا واش روم کیلئے رکنا ہو، بہت جگہیں موجود ہیں۔ سرائے کی جگہ ہوٹل اور بھٹیارنوں کی جگہ ریسٹورنٹس ہیں جہاں پڑاؤ ڈالا جاسکتا ہے‘ خواہ شب بھرکا ہویا ساعت بھرکا۔ بادشاہ اور امرا کے ساتھ تو لاؤ لشکر بھی چلتا تھا۔ محافظ،خدام، فراش، خان سامان، سامان خورونوش، باربرداری کیلئے ہاتھی اور اونٹ، بھیڑ بکریاں خیمہ، خرگاہ اور دل بستگی کیلئے بیگمات یا کنیزیں۔ راستے میں ہرن‘ نیل گائے کا شکار کرتے گئے اور مرغ و ماہی کا بھی۔ جہانگیر اس معاملے میں واقعی بادشاہ تھا۔ شہنشاہ کا دل چاہا تو کسی پُرفضا جگہ پر ہفتوں قیام کرلیا۔ دل پسند ہرن مر گیا تو اس کی یاد میں ہرن مینار تعمیر کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ سب لوازمات امرا اور بادشاہوں کے لیے مخصوص تھے۔ عام آدمی سفر کی صعوبتیں اور کلفتیں الگ اٹھاتا تھا اور رہزنوں کے ہاتھوں الگ لٹتا تھا۔ جبھی تو کسی دل جلے نے حسرت سے کہا تھا:
منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ رفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت
(امیر آدمی تو دشت و کہسار اور ویرانے میں بھی مسافر نہیں ہوتا۔ جہاں پہنچتا ہے اس کا خیمہ لگ جاتا ہے اور بارگاہ سجا لیتا ہے)
خیر یہ بادشاہی اور نوابی چونچلے پیچھے رہ گئے۔ تام جھام ختم ہوئے اور سفر میں سلطان اور درویش ایک ہی شاہراہ پر، چار پہیوں والے گھوڑوں پر سفر کرنے لگے۔ میں لاہور سے اسلام آباد جاتا ہوں اور جی ٹی روڈ پر سفر کرتا ہوں تو سرائے عالمگیر کی بستی جہلم کنارے اس پڑاؤ اور اس زمانے کی یاد دلاتی ہے جب اورنگزیب عالمگیر دریا عبور کرنے کے لیے اس کنارے ٹھہرا تھا۔ اب موٹروے کی وجہ سے جی ٹی روڈ کا سفر کم کم ہوگیا ہے لیکن مجھے زیادہ لطف شیرشاہ سوری کی اسی شاہراہ پر سفر کرنے میں آتا ہے۔
4 فروری کو جب میں نے ایوان صدر میں 5 فروری کے یومِ یکجہتیٔ کشمیر مشاعرے کے لیے لاہور سے اسلام آباد کا رخ کیا اور اپنا چھوٹا ساگھر یعنی گاڑی موٹروے پر گاڑیوں کے ہجوم میں شامل کیا تو یہ ایسا ہی ایک عام سفر تھا جیسا سینکڑوں بار پہلے بھی ہوا تھا، اور جو کچھ وقت گزرنے کے بعد یاد بھی نہیں رہتا۔ موسم اچھا تھا لیکن لاہور کے قریب دھند تھی۔ موسم خوشگوار تھا اور یہاں وہاں دھوپ کے ٹکڑے بھی ماحول روشن کردیتے تھے۔ احتیاط سے کم رفتار پر گاڑی چلانا ہمیشہ مجھے ٹھیک لگتا ہے اس لیے سفر مزے کا تھا۔ مجھے شام چار بجے عزیز دوستوں کی ایک تقریب میں اسلام آباد پہنچنا تھا جو میرے لیے ہی منعقد کی جارہی تھی۔ میرا اندازہ تھاکہ تین بجے کے قریب اسلام آباد پہنچ جاؤں گا۔
کلر کہار آیا۔ سڑک سے گزرتے ہوئے میں نے اس چمچماتی جھیل کو دیکھا جس نے شہنشاہ بابر کو متاثر کیا تھا اور اس نے جھیل کنارے بلندی پر تخت بابری بنوایا تھا۔ بابر رخصت ہوگیا لیکن تخت اسی طرح ہے اور یہی بادشاہوں اور تخت دونوں کی دیرینہ روایت ہے۔ کلر کہار سے آگے بلکسر انٹرچینج کے قریب موٹروے پر شاید کوئی نکیلی چیزیں پڑی تھیں۔ معلوم نہیں کیوں۔ جب تک یہ فیصلہ ہوتا کہ میں لین بدلوں، اتنی دیر میں کافی دیر ہوچکی تھی۔ ٹائر ان پر سے گزرے اور اسی ثانیے میں ٹائر برسٹ ہونے کی آواز کے ساتھ ہی گاڑی بے قابو ہونے لگی۔ میں نے سٹیئرنگ قابو میں رکھا ہوا تھا لیکن گاڑی سٹیئرنگ کے قابو میں نہیں تھی۔ گاڑی گھومی، کبھی اس کا رخ دائیں اور کبھی بائیں ہوا۔ وہ چند لمحات مجھے شاید ساری زندگی یاد رہیں گے۔ لگتا تھا وقت منجمد ہوگیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کوئی گاڑی قریب نہیں تھی اور میری گاڑی سڑک کے بیچ ڈیوائڈر سے نہیں ٹکرائی۔ ایک سیکنڈ سے بھی کچھ کم وقت اسی بے قابو حالت میں گزرا اس کے بعد گاڑی کا رخ سڑک سے نیچے کچے کی طرف ہوگیا۔ مزید شکرکی بات یہ کہ عین اس جگہ سڑک کنارے لوہے کی ریلنگ نہیں لگی ہوئی تھی۔ گاڑی کا رخ کھیتوں کی طرف تھا۔ وہ کچے میں اتری۔ شکر در شکر یہ کہ کچا حصہ کھائی کی طرح نہیں بلکہ ڈھلوان کی طرح تھا۔ اس جگہ کچھ کٹے ہوئے درختوں کے ٹھنٹھ اور کچھ جھاڑیاں تھیں۔ گاڑی ان سے ٹکراتی، انہیں پھلانگتی، میری روکنے کی پوری کوشش کے باوجود نہیں رکی۔ میں بے بسی سے کچے کی تقریباً حد پر کھیتوں سے کچھ پہلے ایک تازہ کھدے ہوئے نالے کو دیکھ رہا تھا جس کے کنارے نرم مٹی کے ڈھیر تھے۔ گاڑی گھسٹتی، رگڑتی ہوئی اس نالے کے کنارے جاکر اس طرح رکی کہ اس کے اگلے ٹائر نالے کے اوپر ہوا میں تھے اور پیٹ نرم مٹی کے ڈھیر میں دھنسا ہوا تھا۔ گاڑی بدستور سٹارٹ رہی۔ میرے اعصاب اس ناگہانی سے جھنجھنائے ہوئے تھے۔ ایک سیکنڈ وقفے کے بعد میں گاڑی سے باہر نکلا۔ اپنے آپ کو چھو کر دیکھا۔ مجھے الحمدللہ خراش تک نہیں آئی تھی۔ باہر نکل کر گردوپیش کا جائزہ لیا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ جس نالے کے کنارے گاڑی کا اگلا ٹائر معلق تھا وہ کم از کم دس بارہ فٹ گہرا خندق نما تھا، اور کوئی کیبل بچھانے کے لیے کھودا گیا تھا۔ نالے کی تازہ کھدی ہوئی نرم مٹی کے ڈھیر کی بدولت اللہ نے یہ کرم کیا تھا کہ گاڑی عین اس جگہ رک گئی تھی‘ ورنہ نالے کے اندر منہ کے بل گرتی۔ میں نے اللہ کا بار بار شکر ادا کیا۔ پتہ نہیں کون سی نیکی اور کس کی دعا کام آ گئی تھی۔ سڑک کی طرف دیکھا تو میں اس سے پندرہ‘ اٹھارہ فٹ نیچے تھا۔ عین اس وقت میں نے موٹروے پر ایک گاڑی رکتی اور اس سے ایک صاحب کو باہر آتے دیکھا۔ وہ میری گاڑی کے پیچھے تھے اور انہوں نے یہ سارا منظر دیکھا تھا۔ وہ میری طرف آئے اور میری خیریت پوچھی۔ یہ تلہ گنگ کے جاوید صاحب تھے جو اس وقت رحمت کا فرشتہ بن کر میرے پاس آئے تھے۔ چونکہ اللہ کے کرم سے مجھے خراش تک نہ آئی تھی اس لیے وہ مطمئن ہوگئے لیکن اب مسئلہ گاڑی کا تھا۔ آگے کا بمپر ٹوٹ کر لٹک رہا تھا۔ پیچھے کا بمپر ٹوٹا نہیں تھا لیکن جگہ چھوڑ چکا تھا۔ دو ٹائر پنکچر ہوچکے تھے۔ کٹے درختوں کے ٹھنٹھ گاڑی پر کئی تازہ خراشیں ڈال چکے تھے۔ میں نے گاڑی گیئر میں ڈالی اور ریورس کرنے کی کوشش کی لیکن ٹائر گھوم کر رہ گئے۔ گاڑی ایک انچ بھی پیچھے نہیں کھسکی۔ اس بری صورت حال میں اچھی بات یہ تھی کہ گاڑی سٹارٹ ہورہی تھی اور گئیر بھی لگ رہے تھے۔
کبھی آپ پر ایسا وقت گزرا ہے جس میں آپ نے بے یقینی سے اپنے آپ کو دیکھا ہو؟ کسی ایسی ناگہانی کے بعد جس کا دور دور تک امکان نہ ہو۔ ایسی بے یقینی جس میں ایسا لگتا ہوکہ یہ سب آپ کے ساتھ نہیں کسی اور کے ساتھ ہورہا ہے اور آپ بس اس کے عینی شاہد ہیں۔ مجھے دبئی کی شاہراہ الخیل، اور سعودی عرب کی ینبوع کے قریب طریق الہجرہ یاد آئیں جہاں میں نے ایسے ہی موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور ایسے ہی بے یقین لمحات سے گزرا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں