آخری گیند تک لڑنا اس وقت ایک جذباتی اور غیر حقیقی بیان ہو جاتا ہے جب بیٹسمین کو ایک گیند پر پچاس رنز درکار ہوں۔ جب پوری ٹیم کو نظر آرہا ہو کہ آخری گیند پر پچاس رنز بنانا ممکن نہیں، اور تماشائی بھی نتیجہ جان کر اٹھ کر جانے لگے ہوں تو پھر اس بیان کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ حکومتی صفوں میں ہزیمت کے آثار نمایاں ہیں۔ بیانات کا رخ بدلتا جا رہا ہے اور اب شیخ رشید بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ عدم اعتماد کامیاب ہو جائے تب بھی عمران خان لٹیروں کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اور شیخ صاحب کا آج کا تازہ بیان یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے‘ نئے انتخابات کا اعلان کرے۔ اتوار کے دن سرپرائز دینے کی باتیں اب بھی ہورہی ہیں لیکن اب ان میں جان نہیں ہے۔ اب سرپرائز کیا ہوسکتا ہے جب ارکان اسمبلی کی غالب اکثریت متحدہ حزب اختلاف کے پاس ہو‘ اور باغی ارکان نے اپنے دستخطوں کے ساتھ اقرارنامے لکھ کر دے دئیے ہوں۔ یہی صورت عمران خان کے بیانات کی ہے۔ جناب ریاض مجید کا شعر ہے:
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
اب معاملہ یہ نہیں کہ اتوار کے دن اسمبلی میں کیا ہونے والا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اتوار کے بعد کیا ہونے جارہا ہے۔ متحدہ اپوزیشن ایک دریا عبور کرکے‘ جو اگلے کئی دریا سامنے آنے والے ہیں، کیسے عبور کرے گی؟ کئی چوراہے آنے والے ہیں، ان میں کس میں یہ سانجھے کی ہنڈیا پھوٹے گی؟ شہباز شریف نئے وزیر اعظم کے طور پر سامنے آرہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کے ساتھیوں کو اپنی کابینہ میں فوقیت دیتے ہیں یا متحدہ اپوزیشن کو بھی ان کا حصہ ملتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی روایتی چپقلش کب تک قالین کے نیچے دبی رہ سکے گی۔ مولانا فضل الرحمن کب تک ایک پُل کا کردار ادا کرسکیں گے۔ پنجاب کی صورتحال بھی بہت دلچسپ ہے جہاں وزارت اعلیٰ کے لیے پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز آمنے سامنے ہیں۔ بظاہر پرویز الٰہی کا پلڑا بھاری رہے گا‘ اور اگر وہ وزارت اعلیٰ پر فائز ہوتے ہیں اور وزارت عظمیٰ پر شہباز شریف متمکن ہوجاتے ہیں تو ان روایتی حریف پہلوانوں کی آپس میں کیسے بنے گی؟ کیا مرکز اور پنجاب کے درمیان ایک نئے دورِ کشاکش کا آغاز ہوگا؟ خاص طورپر جب پی ٹی آئی کی حمایت سے وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کو ملی ہو۔ اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ صوبہ پنجاب کے کنٹرول کے لیے مرکز اور صوبائی حکومت ایک بار پھر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہوں۔
اور سب سے اہم سوال دو ہیں۔ نئے انتخابات کب ہوں گے اور حکومت چھن جانے کے بعد عمران خان کا کردار کیا رہے گا۔ پہلا سوال دوسرے سوال کے ساتھ نتھی ہوگا۔ اگر انتخابات اسی سال یعنی 2022 میں ہونے ہیں تو عمران خان اپنی مقبولیت کی اس لہر سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے جو متحدہ اپوزیشن نے انہیں فراہم کردی ہے۔ خان صاحب کا بیانیہ سب کے سامنے ہے اور وہ ایک ایسے مظلوم کی حیثیت میں سامنے آئیں گے جنہیں ایک طاقت ور ملک نے اپنے حامیوں کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا ہے۔ اگر انہیں پانچ سال مکمل کرنے دئیے جاتے تو ان کے پاس اس جان لیوا مہنگائی کے ہوتے ہوئے بیچنے کے لیے زیادہ سودا نہ ہوتا۔ اپنی کارکردگی اس طرح بتانے کے لیے، جو ایک عام آدمی کی سمجھ میں بھی آجائے، انہیں بہت مشکلات کا سامنا ہوتا‘ لیکن ایک مظلوم کی ہمدردیاں حاصل کرنا ان کیلئے نسبتاً سہل ہوگا‘ اور نئے انتخابات اس لہر میں انہیں کئی نشستیں زیادہ دلوا سکتے ہیں۔
لیکن اگر حالات کا غیرجذباتی اور غیرجانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو عمران خان اپنے سیاسی عروج کا بہترین وقت گزار چکے ہیں۔ وقت کا دھارا اب ان کے حق میں نہیں۔ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں، اس میں از سرنو اقتدار تک کے لیے بڑی جدوجہد کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ قریب قریب ناممکن ہے کہ وہ 2013 جیسی مقبولیت دوبارہ حاصل کر سکیں۔ ان کے دور حکومت کے بارے میں وہ اور ان کے حامی کچھ بھی کہتے رہیں، ایک عام آدمی شدید مشکلات کا شکار رہا ہے۔ تبدیلی اور نیا پاکستان کے نعرے مذاق بن کر رہ گئے۔ تبدیلی ہوتی تو نظر بھی آتی۔ نیا پاکستان بنتا تو دکھائی بھی دیتا۔ عام آدمی تک فوائد پہنچتے تو وہ عمران خان کی حمایت میں بات بھی کرتا۔ میں نہیں سمجھتا کہ اب پی ٹی آئی اتنی نشستیں بھی حاصل کرسکتی ہے جتنی 2018 کے انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ 2018 میں لوگوں کی جو توقعات وابستہ تھیں، وہ اب ٹوٹ چکی ہیں۔ حکومت کے لگ بھگ چار سال میں توقعات اتنی بلند اور کارکردگی اتنی خراب تھی کہ اس زمین آسمان کے فاصلے کو کم کیا ہی نہیں جا سکتا؛ چنانچہ وہ تمام پڑھا لکھا، باشعور اور ملک کو بدلنے کی خواہش رکھنے والا طبقہ اب ان سے مایوس ہے، جس نے جوق در جوق انہیں ووٹ ڈالا تا۔ مقتدر طاقتیں‘ جن کا جھکاؤ ان کی طرف تھا، اور وہ سمجھتی تھیں کہ عمران خان کچھ کر گزرنے پر قادر ہیں، اب یکسو ہیں۔ اوورسیز پاکستانی تذبذب کا شکار ہیں۔ ان کا جھکاؤ اب بھی پی ٹی آئی کی طرف ہے لیکن بہت سے شبہات اور شکوک کے ساتھ۔ سیاسی لوگ اور خاص طور پر منتخب ہونے کی صلاحیت رکھنے والے، جو ہوا کا رخ دیکھتے ہیں، ہوا کے رخ پر ان سے دور جا چکے ہیں۔ پی ٹی آئی میں کئی دھڑے بنے ہوئے ہیں۔ اور قریبی ساتھی بچھڑ چکے ہیں۔ ایسے میں یہ خیالِ خام ہی ہو گا کہ عمران خان ایک بار پھر مقبولیت کے اس گھوڑے پر سوار ہو کر تخت تک جا پہنچیں گے۔
نوجوان طبقہ اور غیر ممالک میں مقیم پاکستانی عمران خان کی بہت بڑی طاقت تھے‘ لیکن یہ طاقت بھی بہت کمزور ہوئی ہے۔ میں چند دن پہلے امریکہ کے سفر سے واپس آیا ہوں اور اس دورے کے دوران پاکستانیوں سے مسلسل سیاسی حالات پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔ میرا تاثر یہی ہے کہ وہ اگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور دیگر پرانے چہروں سے سو فیصد مایوس ہیں تو عمران خان سے بھی خوش نہیں ہیں۔ عمران خان کے کچھ اچھے کاموں مثلاً اوورسیز کو ووٹ کا حق دینا، جیسے معاملات کی تعریف ہوتی ہے لیکن مجموعی تاثر بدستور بری کارکردگی کا ہے۔ واحد بات جو عمران خان کے حق میں جاتی ہے اور آئندہ بھی رہے گی یہ ہے کہ وہ سب آزمائے ہوئے لوگ، جن میں زرداری، شریف خاندان اور دیگر ہم نوا شامل ہیں، عوام کی اکثریت ان سے بھی مایوس ہے۔ ان چہروں کی طرف دیکھ کر، لوگوں کو عمران خان پھر بھی غنیمت ہی لگتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ اس لیے ان کے ساتھ ہیں کہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستا ہی نہیں۔ یہ صورت حال آئندہ انتخاب میں بھی رہے گی تاوقتیکہ کوئی نئی طاقت ظہور نہ کرے۔
عمران خان اپنا بہترین سیاسی وقت گزار چکے۔ اب ان کے پاس کوئی نئی بات بھی نہیں جسے لوگ سننا چاہیں۔ جو وہ کہتے ہیں اور مسلسل کہتے ہیں، وہ سن سن کر لوگوں کے کان پک چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے پاس ان کے علاوہ کوئی ایسا چہرہ بھی نہیں جس میں لوگوں کو کھینچنے کی صلاحیت ہو۔ شاہ محمود قریشی، اسد عمر وغیرہ بھی یہ کرشماتی شخصیت نہیں رکھتے‘ دوسروں کی تو بات ہی بیکار ہے۔ کسی دوسری طاقت ور شخصیت کی غیر موجودگی میں پی ٹی آئی ملک گیر طاقت بن کر نہیں ابھر سکتی؛ چنانچہ میرے اندازے کے مطابق عمران خان کا زوال پی ٹی آئی کا مستقل زوال ہو گا۔