بعض شعر پہلی بار سننے یا پڑھنے پر بے ساختہ قہقہہ نکل جاتا ہے، لیکن ذرا محسوس کرنے اور ایک بار پھر پڑھنے پر اس کی سنجیدہ معنویت بھی عیاں ہونے لگتی ہے۔ ایک بار پھر پڑھیں تو دکھ بھی ہویدا ہونے لگتا ہے۔ مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری کی تقسیم میں ایک صنف ایسی بھی ہونی چاہیے جس کے اشعار بیک وقت دونوں تعریفوں پر پورے اترتے ہوں۔ جون ایلیا کا یہ شعر اسی قبیل کا ایک شعر ہے:
میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا
اتارے کون اب دیوار پر سے
عمران خان کی حکومت یکایک ختم کرنے والوں کی صورت حال دیکھتا ہوں اور ان کے حالات کا مشاہدہ کرتا ہوں تو یہ شعر یاد آتا ہے۔ جب آپ ایک بلندی پر چڑھنے کی مسلسل کوششیں کریں‘ لیکن یہ پتہ نہ ہو کہ وہاں پہنچ کر کریں گے کیا؟ اور واپسی کیسے ہو گی؟ یہی صورت حال عمران خان کو 2018 میں پیش آئی تھی جب وہ اپنی توقعات کے برعکس ایک دم اقتدار میں آگئے تھے اور دعووں کے باوجود ان کے پاس کوئی حکمت عملی اور مسائل کا حل کوئی نہیں تھا۔ حل کیا، ادراک بھی نہیں تھا۔ یہ بات ان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے وزارت سے اترنے کے بعد واضح انداز میں بتا دی تھی کہ تحریک انصاف کے پاس کوئی لائحہ عمل تھا ہی نہیں۔ یہی حال اب متحدہ اپوزیشن کا ہے۔ انہیں بظاہر یقین نہیں تھا کہ وہ اس بھان متی کے کنبے کے ساتھ عمران خان کو ہٹا سکیں گے۔ اب ہٹا دیا ہے تو ہکابکا حالت میں ہیں کہ کیا کریں اور کیسے کریں؟ ان کے پاس حکومت کی نہ حکمت عملی تھی نہ بھنور سے نکلنے کا حل۔ حل کیا مسائل کا ادراک تک نہیں تھا؛ چنانچہ چند وزارتوں کے حلف اور چند افسر تبدیل کرنے کے بعد انہیں یہی راستہ نظر آیا کہ گرو جی کے پاس لندن پہنچ جائیں اور ساری بپتا سنا کر مشورہ مانگیں۔ اب ان مشوروںکا غیر مصدقہ خلاصہ سامنے آرہا ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے کیونکہ نون لیگ پٹرول پر سبسڈی ختم کرکے سیاسی نقصان اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس جمہوری نظام اور سیاست کی دوغلے چہرے دیکھیے کہ جب پی ٹی آئی حکومت پٹرول کی قیمتیں مجبوراً بڑھاتی تھی تو یہی لوگ مل کر شور کرتے تھے کہ غریبوں پر پٹرول بم گرا دیا گیا۔ اب وہی مریم اورنگزیب فرما رہی ہیں کہ پٹرول پر سبسڈی ختم نہ کرکے عمران خان نے ملک کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے اور ہمارے لیے بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں۔ یہ سیاسی ذہن کی وہ فریب کاری ہے جس میں اسے بددیانتی، جھوٹ اور وقتی مفاد کی پرچھائیاں بھی نظر نہیں آتیں۔ وہ یہ سب فریب دے کر اور الٹی قلابازی لگا کر بھی معصوم رہتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے سامنے بیک وقت تین قسم کی الجھنیں ہیں۔ ایک تو ملک کو معاشی بھنور سے کیسے نکالا جائے؟ انتخابات کب کروائے جائیں؟ اور کیا انہی تبدیلیوں کے ساتھ جو پی ٹی آئی انتخابی طریقے کے لیے کرگئی ہے؟ دوسری قسم کی الجھنیں متحدہ حکومت یعنی بھان متی کے کنبے کی ہیں۔ ان سب کی رائے اور مشاورت سے چلنا ضروری ہے۔ کوئی ایک ستون اکھڑ گیا تو عمارت لڑکھڑا جائے گی؟ تیسرا مسئلہ نون لیگ کا ہے۔ اس عبوری حکومت میں رہ کر اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت میں کہیں نون لیگ آئندہ انتخابات میں اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہ مار لے۔ یہ سب مسائل انہیں پریشان کیے ہوئے ہیں‘ اور اس پر طرہ عمران خان کا مسئلہ ہے۔ اس سے کیسے نمٹا جائے۔ ہر شہر میں عوام کی جلسوں میں بھرپور شرکت سیاسی جماعتوں کو خوفزدہ کیے دیتی ہے۔ یہ معاملہ کہ عمران خان نے بہت چالاکی سے اپنی چار سالہ کارکردگی کی طرف سے توجہ ہٹا دی ہے، بہت گمبھیر ہے۔ اسے واپس کیسے لایا جائے؟ ان میں سے ہر سوال کا جواب فوری ہے اور لازمی بھی۔ آصف زرداری انتخابی اصلاحات کے خواہاں ہیں اور فوری انتخابات سے گریزاں‘ لیکن نون لیگ کو شبہ ہے کہ جتنی دیر وہ حکومت میں ٹھہرے گی، اتنی ہی گندی ہوتی چلی جائے گی اور عوام میں غیر مقبول فیصلے متحدہ اپوزیشن کے نہیں‘ صرف نون لیگ کے گلے پڑیں گے؛ چنانچہ انتخابات کے معاملے پر جماعت میں رائے تقسیم ہے۔ فوری انتخابات کا مطلب ہے عمران خان کی تقریباً یقینی فتح‘ اور دیر سے انتخابات کا مطلب ہے نون لیگ کی رسوائی۔ پس چہ باید کرد‘ لیکن یہ ایک عام پاکستانی کو خود غرضی سے زیادہ کچھ نہیں لگے گا کہ محض سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے فیصلوں سے گریز کیا جائے‘ آئی ایم ایف سے مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے، معطل ہوجائیں اور نیا بجٹ اگلی نگران حکومت کے سرتھوپ دیا جائے۔ یہ محض خود غرضی ہوگی اور اگر ایسا ہوا تو شہباز شریف کی اور نون لیگ کی یہ خود غرضی یاد رہے گی۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ یا تو آتے نہ، اور اگر سارے جتن کرکے، ملک کو ایک خلفشار میں مبتلا کرکے آئے ہیں تو پھر کام کرکے دکھائیں۔ آپ دو تین ماہ بعد مستعفی ہونے تو نہیں آئے تھے نا۔
وہ قوتیںجنہوں نے عدم اعتماد کی راہ ہموار کی یا یہ کہہ لیجیے کہ جنہوں نے اس تبدیلی کی راہ سے رکاوٹیں ہٹا کر راستہ صاف کروا دیا، اس صورتحال کیلئے وہ بھی تیار نہیں تھیں۔ عمران خان کا جارحانہ انداز، عوام میں ان کی مقبولیت، ملک کی بگڑتی معاشی صورتحال اور متحدہ حکومت کی حالات قابو لانے میں فی الحال ناکامی، سب پریشان کن باتیں ہیں۔ آئی ایس پی آر بار بار فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹنے کی درخواست کر رہا ہے۔ یہ اپنی جگہ درست لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ ہو چکا ہے اور ہوتا رہا ہے اس کے بعد:
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
مجھ حقیر کالم نگار کی تحریریں اور کالم گواہ ہیں کہ میں عمران خان کا سپورٹر رہا ہوں، ان کی تقریروں یا حکومتی کارکردگی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی نیک نیتی اور ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کے خلوص کے باعث۔ میں ان کے حکومتی دور میں ان پر تنقید بھی کرتا رہا ہوں اور ان کے اچھے کاموں کی تعریف بھی‘ لیکن ان کے آخری دو تین ماہ اور حکومت ختم ہونے تک کے فیصلے، پنجاب میں ان کی حکمت عملی اور ہر مخالف کیلئے ان کا شدید انتقامی جذبہ مجھے ڈراتا ہے۔ یہ جنون اگر گھروں کو آگ لگانے پر منتج ہوا تو اس خانہ جنگی کو کون روک سکے گا۔ اگر وہ بھاری اکثریت یا دوتہائی اکثریت لے کر دوبارہ حکومت میں آئے توانہیں کون کنٹرول کرسکے گا؟ اسٹیبلشمنٹ سے ان کی دوری اور مخالفانہ انداز برقرار رہا تو گاڑی کیسے چلے گی‘ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ ان کی کارکردگی دوبارہ بھی پچھلے چار سال جیسی رہی تو ملک کا کیا بنے گا؟ ظاہر ہے ان کے بقول سازشیں اور مخالفین یکسر ختم ہونے سے تو رہے، تو یہ سانپ اور سیڑھی کا کھیل کتنی دیر چلے گا؟
مرحلے ایک نہیں دو ہیں۔ ایک لمحۂ موجود سے انتخابات تک کا مرحلہ۔ کیا یہ متحدہ حکومت آگے لے کر جائے گی یا مستعفی ہوکر نگران حکومت کے سر تھونپے گی؟ اور دوم‘ انتخابات کے نتائج سے اگلے مراحل اور قیادت تک۔ اس وقت پی ٹی آئی ایک لہر کی صورت میں ابھر رہی ہے۔ ملکی مسائل بے پناہ ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف دیوار پر چڑھے کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں
میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا
اتارے کون اب دیوار پر سے