"SUC" (space) message & send to 7575

ایک دن ہاورتھ میں

برطانیہ کے قصبات کا حسن دیکھنے کا ہے۔ مدوّر ڈھلانیں۔ سنہرے‘ زرد اور بھورے آڑے ترچھے‘ کٹے پھٹے قطعات۔ چراگاہیں‘ بھیڑوں کے گلّے‘ ترشے ہوئے میدان‘ خنک دھوپ اور ترچھی بارش۔ 30مئی 2016ء کو جب ہم بریڈ فورڈ سے ہاورتھ (Haworth) کے لیے نکلے تو ہم راہیوں کے ساتھ یہ منظر بھی ہمراہ تھے۔ مشہورِ زمانہ برونٹی سسٹرز (Bronte sisters) کے قصبہ ہاورتھ مغربی یارک شائر کاپینائن ہلز پر بسا ہوا ایک پہاڑی قصبہ ہے۔ راستے میں ہر کچھ دیر کے بعد ایسے مقامات آتے تھے جہاں دل چاہتا تھا کہ گاڑی روک کر کچھ دیر کے لیے اس شاداب فضا میں سانس لیا جائے۔ اونچی نیچی ہری بھری ڈھلانیں‘ دور پس منظر میں سرخ اینٹوں کا بنا ہوا ریلوے پل اور غیر آباد سبزہ زار کھلکھلاتے رنگوں کے ساتھ ہمارے منتظر تھے۔ منظر آنکھوں اور کیمروں میں کھینچنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ کوئی بھی منظر شاید صرف دل میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ کسی اور آئینے میں یہ دل کہاں کہ اس کے ایک حصے کو بھی بیان کر سکے۔
شارلٹ برونٹی (1816-55ء)، ایملی برونٹی (1818-48ء) اور اینی برونٹی (1820-49ء) کے نام لیں تو جین آئر (Jane Eyre)‘ ودرنگ ہائٹس (Wuthering Heights) اور ایگنس گرے (Agnus grey) جیسے شہرہ آفاق انگلش ناولوں کے نام ایک دم گونجنے لگتے ہیں۔ ادب میں مکاتبِ فکر ہوتے ہیں لیکن یہ برونٹی بہنیں خود ایک مکتبِ فکر تھیں۔ یہ عجیب حرف کار تھیں۔ نہ ان کے پیشرو، نہ ان کے پیرو۔ ان کا مکتبِ حرف انہی سے شروع اور انہی پر ختم۔ ایک دور دراز پہاڑی قصبے کی دیہی لڑکیاں‘ جو ابتدا میں اپنی شناخت چھپا کر مردانہ ناموں سے لکھتی رہیں۔ شارلٹ برونٹی کرر کے نام سے، ایملی برونٹی ایلس کے نام سے اور اینی برونٹی بیل اکٹین کے نام سے لکھتی تھی۔ تین ناول نگار اور شاعرات‘ جو اپنی دنیاؤں میں رہنا پسند کرتی تھیں اور جن کو عمر نے یہ مہلت نہ دی کہ وہ اپنے ناموں کو انگریزی ادب پر سایہ فگن ہوتے دیکھ سکیں۔ تپ دق اور جواں مرگی اس خاندان کا مقدر ہوکر رہ گئی۔ شارلٹ 39 سال، ایملی 29 سال اور اینی 32 سال کی عمر میں دنیا سے چلی گئیں۔ وہ آج کا انگلینڈ نہیں تھا۔ اور ہاورتھ قصبے کیلئے روز ایک جنازہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔
ہاورتھ سے پہلے ایک کھڑی چڑھائی ہمارے سامنے تھی۔ ہاورتھ ایک اونچی پہاڑی کی چوٹی اور ملحقہ ڈھلوانوں پر بسا ہوا ایک قدیم قصبہ ہے۔ کچھ اور چلنے کے بعد اینٹوں کی ایک اور نیم عمودی سڑک پہاڑی پر چڑھنے لگی۔ یہی ہاورتھ قصبے کا مرکزی بازار تھا جس کے دو طرف دکانیں اور مکانات زیادہ تر قدیم اور روایتی انداز میں بنے ہوئے تھے۔ جہاں پارکنگ کی جگہ ملی وہاں سے برونٹی سسٹرز کا گھر دس پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر تھا۔ اس پہاڑی کے اوپر ایک گرجا اور برونٹی پارسونیج یعنی برونٹی گھرانے کا گھر آمنے سامنے ہے۔ برونٹی بہنوں کے گھر کا مرکزی دروازہ سڑک کی طرف تھا۔ یہی سڑک بل کھاتی‘ نیچے اترتی اس سکول کے سامنے سے بھی گزرتی ہے جہاں برونٹی بہنوں نے کچھ عرصہ پڑھایا۔ گھر اب ایک عجائب گھر ہے۔ وہاں ایک خوش اخلاق خاتون نے خیر مقدم کیا جو پیشہ ور گائیڈ نہیں تھیں۔ انہوں نے ہمیں ڈائننگ ہال دکھایا جہاں برونٹی سسٹرز بیٹھ کر لکھا کرتی تھیں۔ گھر کا ایک ایک کمرہ اسی حالت میں ہے۔ برونٹی سسٹرز کی تحریریں‘ لباس‘ جرابیں‘ جوتے‘ قلم دان سب کچھ شیشے کے پیچھے محفوظ ہے۔ تحریروں میں لکھائی اتنی باریک کہ حیرت ہوتی ہے کیسے لکھی گئی ہوں گی۔ زمانے کا رواج یا کاغذکی کمیابی؟ کہہ نہیں سکتے، لیکن بس وہ انگلیاں ختم ہو جاتی ہیں جو کاغذ پر لفظ کشیدہ کرتی ہیں۔ برونٹی سسٹرز 1846ء میں جب اپنا یہ کام کر رہی تھیں تو برصغیر پاک و ہند میں غالبؔ، مومنؔ اور ذوقؔ کی انگلیاں بھی زرد کاغذوں پر اپنا دل لکھ رہی تھیں۔ رہے نام اللہ کا!
گھر اچھا خاصا وسیع ہے اور عقبی باغیچے سمیت یہ شاید ہاورتھ کا سب سے بڑا گھر رہا ہو۔ خاتون نے ہمیں بتایا کہ آج کل برونٹی سسٹرز کی زندگی پر بی بی سی کی ایک فلم کی شوٹنگ قریبی پہاڑی پر چل رہی ہے۔ ہم گھوم پھر کر پھر قصبے کے مرکزی بازار کی طرف آ نکلے۔ ایک چوک نما قدرے کشادہ جگہ پر بائیں ہاتھ ایک دکان نے مجھے متوجہ کر لیا۔ مالک کے نام کے ساتھ جلی حروف میں لکھا تھا: اپوتھی کیری (Apothecary)۔ خدایا! انگلش شاعر چوسر (Geoffrey Chaucer) کی نن اور پادری کی کہانیوں میں پروفیسر نیاز احمد صاحب مرحوم نے یہ نامانوس لفظ ہمیں کس طرح پڑھایا تھا۔ یہ لفظ جس کے مفہوم میں عطّار، ادویہ اور جڑی بوٹیوں کی دکان شامل ہے، اب اتنی مدت کے بعد یہ لفظ ہاورتھ میں اس طرح نظر آیا جیسے کسی نامانوس مقام پر جانی پہچانی شکل نظر آ جائے۔
میں نے دکان میں قدم رکھا اور یک لخت میں انیسویں صدی میں تھا۔ قدیم وکٹورین عہد کی اس دکان میں کوئی چیز بھی جانی پہچانی نہ تھی۔ نیم روشن تاریکی۔ سرخ بھاری فرنیچر، کاؤنٹر اور شو کیس۔ شیشے کے بڑے بڑے مرتبان۔ مرتبانوں میں آمیزے اور مرکّب ڈاٹ والی جہازی منہ بند بوتلیں۔ بوتلوں میں مختلف قسم کے محلول۔ چینی کے ظروف‘ ادویہ سازی کے آلات‘ وکٹورین عہد کے صابن اور خوشبودار ٹکیاں‘ مہاگنی لکڑی کی بڑی بڑی درازیں۔ ایک دراز کھول کر دیکھی تو اس میں بیج بھرے ہوئے تھے۔ دوسری میں کوئی سفوف۔ تیسری دراز سے ایک تیز دھانس اٹھی اور ایک مرچیلا ذائقہ حلق تک چڑھتا چلا گیا۔ دراز فوراً بند کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ انیسویں صدی میں سانس لینا اتنا آسان کام بھی نہیں ہے‘ سو مزید درازیں ٹٹولنے کا تجسس ختم ہو گیا۔ اسی چوک میں ڈھلان کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوں تو بازار کی دو طرفہ عمارتوں کے آخر میں پہاڑی سے نیچے کا منظر فریم میں جڑی ہوئی سرسبز تصویر جیسا ہے۔ ہوا کے ایک جھونکے نے شارلٹ برونٹی کا جملہ اچانک دہرا دیا: Beauty is in the eye of the gazer.۔ (خوبصورتی دیکھنے والی آنکھ میں ہے )
ہم واپس بریڈ فورڈ جاتے ہوئے بی بی سی کی فلم کے لیے قریبی پہاڑی پر بنے مصنوعی برونٹی پارسونیج کو دیکھنے پہنچے‘ اس پہاڑی پر جس کا نام پینسٹون ہل ہے۔ دامن سے سرسبز چوٹی تک تقریباً آدھ گھنٹے کی پیدل چڑھائی‘ خنکی میں ہلکا ہلکا پسینہ‘ چوٹی سے دور وادی تک کا خواب ناک منظر‘ سب دل پر نقش ہو گیا۔ بی بی سی فلم کے لیے یہ مصنوعی سیٹ دیکھنے کے لیے بہت سے سیاح موجود تھے۔ لیکن سب کچھ واقعی بہت مصنوعی سا تھا۔ خاص طور پر قبرستان۔ یہ سب کچھ فلم میں کیسا لگے گا یہ کہنا قبل از وقت تھا۔ لیکن پہاڑی کی بلندی سے حسین منظر ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔
دسمبر 2016ء میں بی بی سی نے یہ فلم (To Walk Invisible) کے نام سے ریلیز کی۔ یہ نام شارلٹ کے ایک جملے سے لیا گیا ہے جس میں وہ اپنی بہنوں سے مردانہ قلمی نام اختیار کرنے کا مشورہ کرتی ہے تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے۔ میں نے یہ فلم دلچسپی سے دیکھی لیکن کافی حد تک مایوس ہوا۔ یہ فلم اتنا بھرپور تاثر نہیں چھوڑ سکی جس کی امید تھی۔ بعض مناظر اور چارلی مرفی (اینی برونٹی) کی بھرپور اداکاری کے باوجود تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ سیٹ میں مصنوعی پن موجود ہے اور ہاورتھ کے بعض مقامات مثلاً ادویہ سازی کی دکان وغیرہ کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس شام شفق کے بھیگتے رنگوں میں پینسٹون پہاڑی سے نیچے اترتے ہوئے خنک ہوا سرگوشیوں میں تین جوان مرگ بہنوں کی باتیں دہراتی تھی: میں وہاں جاؤں گی جہاں میری فطرت مجھے لے جا رہی ہو گی۔ کسی اور کو رہنما کرنا مجھے بے چین اور ناراض کرتا ہے (شارلٹ برونٹی)۔ میں نے تمہارا دل نہیں توڑا‘ تم نے خود توڑا ہے اور اس عمل میں میرا دل بھی توڑ کر رکھ دیا ہے (ایملی برونٹی)۔ ہوا کا ایک ہلکا جھونکا مکئی سے گزرا اور تمام فطرت سنہری دھوپ میں ہنس پڑی (اینی برونٹی)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں