پنجابی میں کہتے ہیں'' روز روز دی کلِ کلِ مُک گئی‘‘یعنی ہر روز کا جھگڑابالآخر ختم ہوگیا۔لگتا ہے آذر بائیجان نے یہ کلِ کلِ ختم کردی ہے ۔ نگورنو کاراباخ میں سناٹا ہے۔سب سے بڑا شہر خالی پڑا ہے ۔ آبادیاں ویران ہیں ۔ ایک لاکھ کے قریب آرمینائی نژاد لوگ ہجرت کرکے آرمینیا چلے گئے ہیں۔روسی امن فوج موجود ہے لیکن اس کے کرنے کو کچھ نہیں کیونکہ ایک طرف کے لڑنے والے موجود ہی نہیں رہے تو لڑائی کسیی اور امن کیسا؟نگورنوکاراباخ میں آزاد ریاست کے دعویدار عسکری فرار ہوگئے ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ آزاداور خو دمختار ریاست نام کی چیز ختم کردی جائے گی ۔ آرمینیا اور آذر بائیجان کے رہنما سپین میں موجود ہیں جہاں مذاکرات ہونے یا نہ ہونے کے معاملات ابھی مبہم ہیں ۔آذر بائیجان نے ترکی کو مذاکرات میں شریک رکھنے کی شرط کے بغیر مذاکرات سے انکار کردیا ہے ۔ اس وقت سارے پتے آذر بائیجان کے پاس ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے اپنا علاقہ واپس لے لیا ہے ۔گویا روز روز کی کلِ کلِ مُک گئی ہے ۔ یہ کلِ کلِ تھی کیا؟ ایک نظر اسے دیکھتے ہیں ۔
آذر بائیجان اور آرمینیا دونوں سابقہ روسی ریاستیں ہیں ۔ آذر بائیجان کی سرحد آرمینیا کے ساتھ لگتی ہے ۔نگورونو کاراباخ جنوبی قفقاز یعنی کاکیشیا میں ایک علاقہ ہے جو زیادہ تر پہاڑی اور جنگلاتی رقبے پر ہے اور وادیوں میں شہر موجود ہیں ۔ یہ سارا علاقہ نہایت خوبصورت‘ زرخیزوادیوں‘ جنگلوں اور چھوٹی چھوٹی پہاڑی بستیوں پر مشتمل ہے ۔ 4400 مربع کلو میٹر پر یہ علاقہ ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد کا مسکن ہے ۔ یہ لوگ نسلی اور تہذیبی طو رپر آرمینیائی ہیں ۔ اس کے اطراف میں اور اس کے کچھ ضلعوں میں آذر بائیجانی افراد آباد ہیں ۔تاریخی طور پر یہ علاقہ ایک زمانے میں آرمینیا کا حصہ رہا ہے اور صدیوں سے یہاں اس نسل کے لوگ آباد ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسے بلقان کی ریاستیں ترک حکومت کا حصہ رہی تھیں اور وہاں ترک نسل کے لوگ آباد ہوگئے تھے۔ روس کے زوال سے پہلے یہ علاقہ ریاست آذر بائیجان ہی کا حصہ تھا۔پھر روس سے علیحدگی ہوئی تو یہاں کے لوگوں نے آزاد ریاست کا اعلان کردیا ۔ اگرچہ نگورنو کاراباخ عالمی طور پر مسلمہ آذر بائیجانی علاقہ ہے لیکن اس میں مقیم لوگ اپنی خود مختار ریاست کے عویدار تھے اور جمہوریہ ارتساخ کے نام سے اپنا انتظام خود چلاتے رہے ہیں ۔اسے جمہوریہ نگورنو کارباخ بھی کہا جاتا تھا۔آرمینیاان افراد اور اس ریاست کا مکمل پشت پناہ رہا ہے۔آذر بائیجان اس ریاست کو نہیں مانتا اور اسے دہشت گرد سمجھتا ہے ۔اس معاملے پر دونوں ملکوں کی مسلح جھڑپیں اور جنگیں بھی ہوچکی ہیں ۔ 1994 ء میں روس سے علیحدگی کے بعد سے دونوں ملکوں میں اس مسئلے پر لڑائی چھڑ گئی تھی ۔ریاست ارتساخ کے داعی یا تو دونوں ملکوں سے مکمل آزادی اور خو دمختاری ‘ یا آرمینیا سے الحاق پر مصر رہے ۔ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ریاست کا اصل رقبہ 8223 مربع کلو میٹر بنتا ہے ۔ ایک چھوٹی سی زمینی پٹی جس پر روس کا کنٹرو ل ہے ‘ نگورنو کاراباخ کو آرمینیا سے ملاتی ہے ورنہ وہ تمام اطراف میں آذر بائیجان سے گھرا ہوا ہے ۔
ستمبر 2020ء میں نگورنو کاراباخ اور ملحقہ علاقوں میں نئی لڑائی چھڑ گئی ۔ا س لڑائی میں آذر بائیجان نے کافی فائد ے حاصل کیے ۔نگورنو کاراباخ کے اطراف میں اہم علاقوں پر قبضہ کرلیا اور شوشا اور ہدرت سمیت قریب قریب ایک تہائی نگورنو کاراباخ بھی اس کے قبضے میں آگیا ۔10 نومبر 2020 ء کو جنگ بندی کا معاہدہ ہوا جس میں آذر بائیجان کے مقبوضہ تمام علاقوں پر اس کا حق مان لیا گیا۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی ۔اس جنگ میں اصولی مؤقف کی بنیاد پر پاکستان اور ترکی آذر بائیجان کے ساتھ کھڑے تھے جبکہ ہندوستان آرمینیا کے ساتھ۔یورپی ممالک میں اکثر اور یورپی یونین آرمینیا کے ساتھ تھے اور انہوں نے مالی اور فوجی مدد بھی کی ۔ اس زمانے میں اس اعتراف کے طور پر پاکستان اور ترکی کے پرچم باکو کی معروف اور پر رونق نظامی سٹریٹ پر لہرائے جاتے تھے اور آذربائیجان کے حکمرانوں سے عام آدمی تک سب اس مدد کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ ستمبر 2023ء میں یعنی اس حالیہ جنگ کے دوران میں آذر بائیجان میں تھا۔ اس کے خوبصورت شہر گبالا میں ایک الف لیلوی ماحول کے مطعم میں ایک ویٹر بہروز سے ملاقات یاد رہے گی ۔ اس نے پوچھا کہ میں کہاں سے ہوں تو پاکستان کا نام سنتے ہی اس کا چہرہ مزید روشن ہوگیا۔اس نے کہا :برادر پاکستان۔ اس سے زیادہ اسے وہ الفاظ نہیں آتے تھے جو میں سمجھ سکوں ۔ لیکن اس کی بدن بولی اور تشکر آمیز کلمات کا مفہوم سمجھ میں آتا تھا۔ پھر اس نے موبائل نکالا اور ایک خوبصورت نوجوان کی تصویر دکھائی جو اس کا کزن تھا اور 2020ء میں شہید ہوا تھا۔وہ پاکستانی فوج کی بہت تعریف کیا کرتا تھا۔مجھے حیرت ہوئی کہ بہروز مسئلہ کشمیر کے بارے میں بھی بہت حد تک آگاہ تھا اور جانتا تھا کہ یہ معاملہ بھی نگورنو کاراباخ جیسا ہی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ بہروز کی یہ باتیں سن کر میرا دل فخر سے بھرگیا۔اور بات تنہا بہروز کی نہیں۔ باکو کے ایک ہوٹل کی مالکہ بھی جب مجھے چیک ان کرنے لگی اور میرا پاکستانی پاسپورٹ دیکھا تو خوشی اور تشکرسے کلمات دیر تک کہتی رہی ۔ ان سب کو خوشی تھی کہ پاکستان ہمارے ساتھ کھڑا تھا اور اس نے مقدور بھر مدد کی تھی ۔
19 ستمبر کو جب میں گبا میں تھا‘ یہ تازہ ترین خبر پہنچی تھی کہ آذر بائیجان نے کئی ماہ محاصرہ کرنے کے بعد تازہ فوجی حملے کا آغاز کیا ہے ۔ مخالف فوجیں جو ارتساخ ریاست کے نام سے تھیں‘جلد ہی ڈھیر ہوگئیں ۔ ارتساخ ختم ہوگئی اور تقریبا ًتمام تر آبادی اس علاقے سے ہجرت کرکے آرمینیا چلی گئی ۔ اگرچہ آذر بائیجان نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ارتساخ کو نہیں مانتے لیکن جو بھی یہاں پر امن طور پر رہنا چاہیں ‘انہیں دیگر آذری شہریوں کے تمام تر حقوق حاصل ہوں گے ۔ لیکن ہجرت کرنے والے یہی بہتر سمجھتے تھے کہ وہ آرمینیا منتقل ہوجائیں۔ایک خبر کے مطابق 70500 افرادیہاں سے ہجرت کرکے آرمینیا چلے گئے۔ آرمینیا نے اسے نسل کشی سے تعبیرکیا لیکن آرمینیا اس علاقے اور ان افراد کا دفاع کرنے میں واضح طو رپر ناکام رہا ۔ آذر بائیجان کے رہنماؤں نے نسل کشی کے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ دو سو سال پرانا قضیہ حل کرلیا گیا ہے اور امن کے لیے آذر بائیجان موجود رہے گا۔ آذر بائیجان کی افواج دارالحکومت سٹیپنا کرٹ میں داخل ہوگئیں اور انتظام سنبھال لیا ۔ یہ آذر بائیجان کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ اس نے اپنا مقبوضہ علاقہ واپس لے لیا ہے ۔
اس تمام معاملے میں ایک بات تو واضح ہے اور وہ ہے عالمی برادری کے بے اصول اور خود غرضانہ مؤقف۔ ایک علاقہ جو مسلمہ طور پر آذر بائیجان کا علاقہ ہے وہاں ایک خود مختار مخالف ریاست کیسے قائم ہوسکتی تھی لیکن عشروں تک بڑی طاقتوں کی پشت پناہی کے باعث قائم رہی ۔ کتنی میٹنگز‘ کتنے مذاکرات‘ کتنے فارمولے بے نتیجہ ملاقاتوں کی نذر ہوئے ۔ سیدھے سادے معاملے کو پیچیدہ بنا کر لٹکایا گیا۔ اقوام متحدہ نے حسب معمول رسمی مرہم پٹی کرنے سے زیادہ کوئی کام نہ کیا ۔ دنیا بھر میں کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں یہ معاملہ اصولوں اور انصاف کی بنیاد پر مستقل حل کیا جاتا۔ یہی رویہ ترکی کے ساتھ بھی رہا اور یہی پاکستان کے ساتھ بھی ۔آذر بائیجان اگر مزید 50 سال بھی بڑی طاقتوں اور عالمی اداروں سے انصاف اور مسئلے کے حل کی توقع رکھتا تو خود ہی سزا بھگتتا رہتا۔ ایک دو ٹوک فیصلے نے آذر بائیجان کو اس معاملے کے خاتمے تک پہنچا دیا ۔ اور وہ فیصلہ تھا روز روز کی کِل کِل ختم کرنے کا۔یاد رکھیں ! یہ فیصلہ قوموں کو بہرحال کرنا پڑتا ہے ۔