"SUC" (space) message & send to 7575

جھیلوں کے شہر میں

پچھلے کالم میں اودے پور راجستھان کے سفر اور مشاعرے کا ذکر آیا تو کچھ اور یادوں میں بھی آپ کو شامل کرنے کا جی چاہنے لگا۔ نومبر 2006ء کی بات ہے‘ پاکستان سے احمد فراز ‘ امجد اسلام امجد‘ سعود عثمانی اور عنبرین حسیب مشاعرے میں شریک تھے اور ہندوستان کے تمام بڑے شعراء بھی مدعو تھے۔ ہمیں اودے پور میں ایک سبزی خور ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا اور چار دن جبریہ گوشت اور انڈوں سے دور رہنا ہم سب کو بہت برُی طرح کھل رہا تھا لیکن اب مجبوری میں قید تو کاٹنی تھی ۔ اس مشاعرے اور اس سبزی خور ہوٹل کی بہت سی یادیں ہیں‘اس وقت صرف دو واقعات سن لیجیے۔
ہم غالباً چار دن وہاں رہے۔مقیم شعرا میں ہندوستان کے سینئر شاعر علی گڑھ کے جناب شہریار اورپاکستان سے احمد فراز سب سے سینئر تھے اور مصیبت یہ تھی کہ اس بات کا ان دونوں کو احساس بھی تھا۔عمر کے اس حصے میں طبیعت پر بعض اوقات چڑچڑاپن حاوی ہونے لگتا ہے اور سینیارٹی کی رعایت میں وہ باتیں بھی انسان کہنے لگتا ہے جو محفل کی خوشگوار فضا کو تناؤ میں بدل دیں؛چنانچہ اُن دونوں سینئرز کی طرف سے کوئی نہ کوئی بات ایسی ہوجاتی تھی جس سے فضا بوجھل ہو جاتی۔ پھر مسئلہ یہ بھی تھا کہ فراز صاحب اور شہریار عموماًایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے۔ ایسی صورت میںبس یہی ممکن تھا کہ پوری سنجیدگی اور دھیان سے اپنی اپنی سبزیاں کھائی جائیں۔تاہم امجد صاحب ‘ میں ‘ عازم گروندر کوہلی ‘ عنبرین حسیب صورت حال پر زیرِ لب مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے رہتے تھے۔۔
ایک رات کھانے پر ہندوستان میں اردو شاعری کی بات چل نکلی۔میں نے بے اختیار کہا کہ ہندوستان میں تو ایک ہی شاعر تھا اور وہ تھا عرفان صدیقی۔اس سے شاید دو سال پہلے عرفان صاحب کا انتقال ہوچکا تھا۔ جملہ کہتے ہی مجھے احساس ہوگیا کہ شہریار کی موجودگی میں مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔مجھے یقین ہوگیا کہ میری ایسی شامت آنے والی ہے کہ میں تو کیا میری دال سبزیاں بھی ذبح ہوجائیں گی۔حسب ِتوقع شہریار برُی طرح تلملا گئے۔میری خوش قسمتی کہ ابھی وہ کچھ کہنے والے ہی تھے کہ میرے بالکل سامنے بیٹھے فراز صاحب نے کہا:بالکل درست۔عرفان صدیقی ہی واحد شاعر تھا ہندوستان میں۔شہریار کی توجہ میری طرف سے ہٹ گئی اور وہ فراز سے الجھ گئے ۔انہوں نے پاکستانیوں اور پاکستانی شاعری پر تادیر تبصرے کیے جس میں سے غصے کو نکال دیں تو کوئی خاص بات نہیں بچتی تھی۔ یہ نشست اسی طرح زیر لب مسکراہٹوں پر ختم ہوئی۔میرے لیے اس گفتگو میں کئی باتیں حیرت انگیز تھیں۔ایک تو یہ کہ شہریار نے عرفان صدیقی کی بالکل تعریف نہیں کی حالانکہ وہ ان کے دوستوں میں گنے جاتے تھے۔ دوسرے یہ کہ فراز نے عرفان صدیقی کی تعریف کی جبکہ وہ ہرگز عرفان کے دوستوں میں نہیں تھے۔فراز صاحب کی ایک بہت مشہور غزل ''سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں ‘‘ کا ایک شعر ہے:
سنا ہے دن میں اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات میں جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
ایک دن ناشتے کے بعد ہم سب ہوٹل کے سامنے لان میں آبیٹھے۔میں نے سوچا کہ موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محفل کی ویڈیو بنائی جائے ۔میں باری باری سب کی ویڈیو بناتے ہوئے جب فراز کی طرف آیا تو دیکھا کہ وہ چہرے کے گرد منڈلا تی ہوئی کچھ مکھیوں کو ہٹا رہے ہیں ‘ مجھے شرارت سوجھی اور میں نے فی البدیہہ کہا:
سنا ہے دن میں اسے مکھیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو مچھر ٹھہر کے دیکھتے ہیں
ایک زوردار قہقہہ پڑا۔مجھے ڈر تھاکہ وہ برا نہ مانیں لیکن خود فراز صاحب نے بھی اس کالطف لیا تو میری جان میں جان آئی ۔
اودے پور کو الوداع کہنے کا مرحلہ آیا تو تمام پرندوں کی اڑانیں جدا جدا تھیں۔اودے پور سے شمال کی طرف یعنی دہلی بذریعہ سڑک جانا ہو تو پہلے اجمیر اور پھر جے پور راستے میں پڑتے ہیں۔میں‘ امجد صاحب اور عازم گروندر کوہلی اسی راستے سے دونوں منزلوں پر رکتے ہوئے واپسی کا پروگرام طے کرچکے تھے۔ نومبرکی ایک خوشگوار صبح ہم نے باقی ساتھیوں کو الوداع کہا اورگاڑی میں اجمیر کیلئے روانہ ہوگئے۔ذرا سا آگے نکلتے ہی راجستھانی ماحول ‘ لینڈ سکیپ ‘ چہرے اور لباس سامنے آنے لگے ۔کہیں نرم ریت اور کہیں سخت مٹی ‘کہیں کہیں کھیت اور ہریالی کے ٹکڑے ‘یہاں وہاں جنگلی جھاڑیاں‘اڑتی دھول ‘تیزاور شوخ رنگوں کے کپڑے پہنے عورتیں راجستھانی پگڑیاں پہنے دیہاتی مرد‘کچھ فاصلوں پر برساتی پانی سے بھر ے جوہڑ اور ان پر پانی پیتے مویشی ۔یہ سارا غالب ہندو اکثریت کا اور مندروں سے بھرا ہواعلاقہ ہے جو چھوٹے بڑے دیوتاؤں سے منسوب ہیں۔راجستھان ہندوستان کا سب سے بڑا سبزی خور صوبہ ہے ۔ 75 فیصد سے زائد آبادی ویجی ٹیرین ہے۔ یہ بات بھی مزے کی ہے کہ راجپوت سبزی خور ہرگز نہیں تھے؛چنانچہ رانا‘ راجہ ‘ مہاراجہ عام طور پر شکار کیلئے بھی نکلا کرتے تھے اور گوشت بھی کھایا کرتے تھے۔صحرائی آب و ہوا‘ پانی کی کمی ‘مذہبی پابندیاں‘گرمی ‘ اور کھانے کو دیر تک محفوظ رکھنے کی کوشش ۔ان سب نے مل جل کر راجستھانی کھانوں کومخصوص ذائقے دیے ہیں۔ راجستھان کے اس سفر میں کم لیکن ہندوستان کے باقی سفروں میں ان میں سے کئی کھانوں سے استفادے کا موقع ملا ۔مجھے یہاں بیسن کی ڈشز بہت کثرت سے نظر آئیں۔بیسن کی چوکورخشک ٹکیاں'' گٹا ‘‘ کہلاتی ہیں اور وہ بہت سے سالنوں میں ڈالی جاتی ہیں۔یہ بات شاید کچھ لوگوں کیلئے نئی ہو کہ کڑھی چاول اصل میں راجستھانی کھانا ہے جو ملحقہ صوبوں پنجاب ‘ گجرات‘ یوپی وغیرہ نے بھی اپنے کھانوں میں شامل کیا اور بہت مقبول ہوا۔ لیکن اگر کسی ایک ڈش کو راجستھان کی قومی ڈش کہا جاسکتا ہے تووہ ''دال باتی چورما ‘‘ ہے ۔ اس کے بغیر کوئی اچھاکھانا مکمل نہیں ہوتا۔باتی دراصل چھوٹی سی گول روٹی کو کہتے ہیں اور چورما گھی میں بھیگی ہوئی وہی ڈش ہے جسے ہم چوری بھی کہتے ہیں۔ تھالی کا رواج ہندوستان میں عام ہے لیکن راجستھانی تھالی کے تنوع کا مقابلہ کم کم تھالیاں کرسکتی ہیں ۔مجھے بے حد پسند ہے ۔ بہت سی ا قسام کی سبزیاں‘ دالیں ‘چٹنیاں‘ اچار‘ دہی ‘لسی ‘میٹھا۔ اتنا کچھ ہوتا ہے کہ آپ مکمل تھالی کھا ہی نہیں سکتے ۔گٹے کی کھچڑی ایک اور مقبول ڈش ہے ۔ گوشت کے کھانوں میں مہاراجوں کی مرغوب ڈشز لال ماس اور موہن ماس ہیں ۔لال ماس کا رنگ راجستھانی مرچوں کی وجہ سے گہرا سرخ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بالو شاہی ‘ امرتی بھی اصل میں راجستھانی سوغات ہیں۔سنیکس میں پیاز کچوری مزے کی چیز ہے ۔
اودے پور سے اجمیر کا سڑک سے راستہ لگ بھگ چھ گھنٹے کا ہے ۔ اب کے حالات معلوم نہیں لیکن اُس وقت سڑک کی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی ۔ راستے میں ہم شاید دیو گڑھ اور بیواڑ پر کچھ سستانے کچھ کھانے اور چائے کیلئے رکے تھے۔سہ پہر کے قریب اجمیر کے آثار نمایاں ہوئے۔ کھیتوں اور میدانوں کی جگہ کچی بستیوں نے لی۔ دونوں طرف اشتہاراتی بورڈز نمایاں ہونا شروع ہوئے اوربالآخر ہم اجمیر میں داخل ہو گئے۔ پہلی نظر میں اجمیر ایک نیم قصباتی سا شہر محسوس ہوا۔ہم درگاہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا پتہ پوچھ کر سیدھے اس طرف چلے ۔ اندازہ یہی ہوا کہ ہم پرانے شہر کے اندر داخل ہورہے ہیں۔ وہی دو طرفہ بازار‘ تنگ سڑکیں ‘ تھڑے اور انکے اوپر چھوٹی بڑی دکانیں ۔ وہی مرد و زن کا ہجوم۔ سچ یہی ہے کہ اس شہر کو ایک درویش نے توجہ کا مرکز بنادیا ورنہ اس مٹی میں کیا رکھا تھا۔ مٹی تو سب ایک جیسی ہوتی ہے۔کیا ایودھیا ‘ کیا لاہور ‘ کیانظام الدین ‘ کیا بستی شاہ چراغ اور کیا اجمیر ۔یہ انسان ہی تو ہوتے ہیں جوکسی بھی شہر کسی بھی مٹی کو قابلِ ذکر‘ قابلِ فخر بناتے ہیں۔ درو دیوار اور عمارات میں کیا دھرا ہے بھئی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں