بنگلہ دیش جیسے مسلم ملک‘ جہاں 91.5 فیصد مسلمان ہوں‘ نسل اور زبان بھی ایک ہی ہو‘ کوئی سیکولر حکومت ایک حد تک ہی اپنی بات منوا سکتی تھی۔ کروڑوں کی آبادی کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ بہت سی جگہوں پر دینی جماعتوں کی حمایت کے بغیر عوامی لیگ جیت بھی نہیں سکتی تھی؛ چنانچہ ناپسندیدگی کے باوجود حسینہ واجد کو مدرسوں کے معاملے میں کئی جگہ مفاہمتی رویہ اختیار کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی اور بی این پی اس کی مخالف سیاسی جماعتیں تھیں اور' حفاظتِ اسلام‘ جماعت کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔ اس لیے حسینہ واجد نے مفاہمتی رویہ اپنا کر انہیں اپنے مذہبی سیاسی مخالفوں کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی بنائی۔ مولانا احمد شفیع کا نظریہ یہ تھا کہ سیاست میں آئے بغیر حکومت سے رابطے بڑھا کر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے؛ چنانچہ اس طریقے پر انہوں نے حسینہ واجد سے کئی مطالبات منوائے۔ ان کے انتقال کے بعد دونوں طرف سے معاملات کا رخ بدل گیا۔ حفاظت اسلام نے 13 نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس میں بنگلہ دیش میں ہر طرف لگائے جانے والے مجسموں کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ 2017ء میں لیڈی جسٹس (یونانی دیوی تھیمس) کا مجسمہ‘ جو سپریم کورٹ کی مرکزی عمارت کے باہر لگایا جانا تھا‘ کی تنصیب کو احتجاج پر روک دیا گیا لیکن اس پر سیکولر طبقات برہم ہو گئے۔ بعد میں جگہ تبدیل کرکے یہ مجسمہ عدالت کی ایک انیکسی کے سامنے لگا دیا گیا (حال ہی میں یہ مجسمہ گرا دیا گیا ہے)۔
بنگلہ دیش کی پچاسویں سالگرہ پر مودی کی آمد تھی‘ نریندر مودی کی مسلم دشمنی کی وجہ سے اس مو قع پر بنگلہ دیش میں جلسے جلوس منعقد کیے گئے اور ملک بھر میں خاصا ہنگامہ رہا۔ اس سے قبل بھی مذہبی جماعتیں بھارتی غلامی پر بھرپور احتجاج کرتی آئی تھیں۔ حسینہ واجد نے ان پر ہاتھ ڈالا اور بعد ازاں اس جماعت نے بھی جبر‘ گرفتاریوں‘ پابندیوں اور تشدد کا سامنا کیا۔ سیاسی میدان میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے بے مثال قربانیاں دیں اور استقامت کے ساتھ وقت گزارا۔ یہی معاملہ بی این پی کا ہے۔ یہ سارا پس منظر ذہن میں رکھتے ہوئے ہی عوامی لیگ کا تختہ الٹ دیے جانے کے مذہبی‘ سیاسی اور معاشرتی عوامل کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ عوامی لہر صرف کوٹہ سسٹم‘ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ جبر‘ تشدد اور پھانسیوں کے خلاف نہیں اٹھی تھی۔ ایک عام ریڑھی والے‘ سبزی فروش اور ماہی گیر کا کوٹہ سسٹم سے بھلا کیا تعلق؟ مرد عورتیں‘ بچے‘ پڑھے لکھے‘ اَن پڑھ سب اس میں شامل تھے۔ البتہ ان کی قیادت طلبہ کے ہاتھ میں تھی۔ یہاں سے اس سوال کا جواب بھی سمجھ آنے لگتا ہے کہ حالیہ دنوں میں مجسموں اور 1971ء کی یادگاروں کی توڑ پھوڑ محض حسینہ واجد اور شیخ مجیب کے خلاف غم وغصہ نہیں تھا شاید اس میں مجسمہ سازی کے خلاف عوامی ناپسندیدگی بھی شامل تھی۔ اسلامی آندولن بنگلہ دیش (تحریک اسلامی بنگلہ دیش) بھی ان میں پیش پیش تھی۔
2020ء میں کشتیا میں ایک مدرسے کے استاد اور شاگردوں کو گرفتار کیا گیا جو شیخ مجیب کا مجسمہ گرا رہے تھے۔ اسی عوامی لہر کی وجہ سے ڈھاکہ ہائیکورٹ کو یہ حکم جاری کرنا پڑا کہ پورے ملک میں شیخ مجیب کے مجسموں کی حفاظت کا انتظام کیا جائے لیکن مجسموں‘ یادگاروں اور آزادی کے میوزیم بنائے جانے کا ایک لرزہ خیز پہلو اقتصادی بھی ہے۔ کئی کئی منزلہ بلند ان مجسموں پر بھاری رقم خرچ ہوئی۔ غیر مصدقہ اعداد وشمار کے مطابق صرف شیخ مجیب کے مجسموں پر ایک سال میں لگ بھگ 400 کروڑ ٹکا سے زائدخرچ کیے گئے۔ پاکستانی روپوں میں یہ لگ بھگ دس ارب روپے بنتے ہیں۔ اگرچہ یہ اعداد وشمار سرکاری نہیں لیکن ان مجسموں کی تفصیلات پیش نظر رکھیں تو شاید اس سے بھی زیادہ رقم بنے۔ یاد رہے کہ اس میں دیگر یادگاروں اور میوزیمز پر خرچ ہونے والی رقم شامل نہیں۔ چند مجسموں کی اخباری رپورٹس پیش خدمت ہیں۔ 26 فٹ بلند مجسمہ‘ سہروردی ادیان‘ ڈھاکہ (2020ء)۔ 26 فٹ بلند مجسمہ‘ چاٹو گرام۔ لاگت 87 لاکھ 70 ہزار ٹکا۔ 23 فٹ بلند مجسمہ سلہٹ کنٹونمنٹ (2021ء)۔ 123 فٹ بلند مجسمہ‘ جہی نائڈا‘ کھلنا (2021ء)۔ ان میں حسینہ واجد اور دیگر بنگالی رہنمائوں کے مجسمے شامل نہیں‘ لیکن ایک محتاط اندازے کیلئے یہ چند مثالیں کافی ہوں گی۔ یہ بذات خود ایک بڑی تحقیق ہو گی کہ عوامی لیگ کے ادوار میں ان یادگاروں‘ مجسموں اور میوزیمز پر کتنا خرچ کیا گیا۔ اُس ملک میں جہاں کروڑوں لوگ غربت کی سطح سے بھی نیچے ہیں‘ بیروزگاری کا گراف بلند ہے اور جو ملک کووِڈ کے زمانے سے معاشی مشکلات کا شکار ہے‘ اس میں یہ خرچ ایک عام بنگلہ دیشی کیلئے کتنا تکلیف دہ ہوگا‘ یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
بنگلہ دیش کے معروف اخبار Prothom Alo نے 21 اگست کو ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا کہ 5 اگست سے 14 اگست کے درمیان پورے ملک میں 1492 مجسمے‘ تصاویر اور میموریلز وغیرہ توڑ دیے یا جلا دیے گئے۔ ان میں اکثر شیخ مجیب اور حسینہ واجد کے تھے۔ 122 مجسمے صرف ڈھاکہ شہر میں‘ 273 ڈھاکہ ڈویژن میں‘ 204 چاٹوگرام (چٹاگانگ) میں‘ 166 راجشاہی میں‘ 479 کھلنا میں‘ 100 برایسال میں‘ 129 رنگ پور میں‘ 49 سلہٹ میں اور 92 منشی گنج میں ختم کیے گئے۔ انہیں گرائے یا جلائے جانے کی حمایت یا مخالفت کی بحث سے قطع نظر یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ کس طرح حسینہ واجد نے پورے ملک میں بے پناہ رقوم ان مجسموں پر خرچ کی۔ چنانچہ یہ ایک دو مجسموں کی بات نہیں ہے‘ ہزاروں کا معاملہ ہے۔
تیسر ا سوال بھارت کے بارے میں ایک عام آدمی کے تاثر کا ہے۔ عوامی لیگ کی تمام تر کوششوں کے باوجود کہ بھارت کو نجات دہندہ اور سب سے بڑا دوست ملک سمجھا جائے‘ عام بنگلہ دیشی بھارت سے نفرت کرتا ہے۔ عوامی لیگ کو بھی اسی لیے بھارتی ایجنٹ سمجھا جاتا تھا۔ یہ نفرت آج کل اس لیے بھی بہت ہے کہ ان دنوں نواکھلی‘ فینی‘ کمیلا‘ چٹاگانگ‘ بندرابن‘ برہمن باڑیہ وغیرہ کے علاقوں میں بہت زیادہ سیلاب ہے۔ بنگلہ دیشی سمجھتے ہیں کہ بھارت نے اپنی طرف دریائوں پر بنے ڈیموں سے بغیر اطلاع پانی چھوڑا ہے۔ اب تک 15 لوگوں کی ہلاکت اور 45 لاکھ لوگوں کے متاثر ہونے کی خبر ہے۔ امدادی کاموں میں بھی طلبہ پیش پیش ہیں۔ میری جتنے بھی بنگلہ دیشی دوستوں سے بات ہوتی رہی‘ ان سب میں بھارت کے خلاف غم وغصہ عروج پر ہے۔ اگر آپ ان دنوں بھارتی میڈیا کو دیکھیں تو چیخ وپکار سے اندازہ ہوگا کہ وہ عوام کو مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ انقلاب بنگلہ دیش میں مسلم بنیاد پرستوں کی جیت ہے اور انہوں نے پاکستان اور چین کی مدد سے بھارت دوست حکومت کو گرایا ہے۔ اس کے ساتھ مسلسل یہ بات دہرائی جا رہی ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندوئوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے مگر بنگلہ دیشی مبصرین کے علاوہ الجزیرہ اور بی بی سی نے بھی اپنی رپورٹس میں اس بات کو رد کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دو چار سے زیادہ ہندوئوں کی جانیں نہیں گئیں اور وہ بھی سیاسی معاملہ ہے مذہبی نہیں۔
باقی رہا پاکستان کا معاملہ تو یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے جتنے بہتر جذبات اس وقت موجود ہیں‘ 1971ء کے بعد سے اب تک نہیں تھے۔ میں جتنے بنگلہ دیشی دوستوں سے بات کرتا رہا ہوں‘ ان میں بلاتخصیص ہر ایک پاکستان کو دوست اور برادر ملک سمجھتا ہے۔ یہ سابقہ زخموں پر مرہم رکھنے اور تلخیوں کو بھلانے کا وقت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بنگلہ دیش میں سیلاب سے نقصانات پر دکھ کا اظہار اور مدد کی پیشکش کی ہے۔ ہمیں بنگلہ دیش کی بھرپور مدد کرنی چاہیے۔ نیز فوری طور پر بنگلہ دیش کے طلبہ اور سیاحوں کیلئے ویزا اور تعلیم کی سہولتیں شروع کرنی چاہئیں۔ دو طرفہ تجارتی معاہدے کرنے چاہئیں اور بھارتی مصنوعات کے خلا کو اپنی مصنوعات سے پُر کرنا چاہیے۔ ہمیں بڑا بھائی بننا چاہئے‘ دل جیتنے چاہئیں۔ وہ دل جو ہم نے پہلے بھی جیتے تھے لیکن پھر ہار دیے تھے۔