"SUC" (space) message & send to 7575

سرکاری ملازمین اور سوشل میڈیا

خبر ہے‘ جسے اچھی خبر ہی کہنا چاہیے‘ اگرچہ یہ کہنے کیلئے بہت کھینچ تان کرنا پڑے گی کہ سرکاری ملازمین کو میڈیا اور سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم کو بلا اجازت استعمال کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے اور آفس میمورنڈم جاری کردیا گیا ہے۔ یہ پابندی جس میں عملاً بہت سے شگاف موجود ہیں‘ کیا ہے؟ یہ بھی پڑھ لیجیے اور اس پر یہ تبصرہ بھی کہ یہ ممانعت اتنی دیر سے لگائی گئی ہے کہ اس پر محاورہ یاد آتا ہے: تا تریاق از عراق آوردہ شود‘ مارگزیدہ مردہ بُود۔ یعنی جب تک عراق سے تریاق منگوایا گیا‘ سانپ کا ڈسا مر چکا تھا۔
خبر کیا ہے؟ خلاصہ پڑھ لیجیے: ''وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے بغیر اجازت سوشل میڈیا استعمال پر پابندی عائد کردی‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے آفس میمورنڈم بھی جاری کر دیا۔ آفس میمورنڈم کے مطابق سرکاری ملازمین بغیر اجازت کوئی میڈیا پلیٹ فارم استعمال نہیں کر سکتے۔ سرکاری معلومات و دستاویزات افشا ہونے سے روکنے کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز 1964ء کی پاسداری کریں‘ سرکاری ملازم بغیر اجازت سوشل میڈیا کی کوئی بھی ایپلی کیشن استعمال نہیں کر سکے گا۔ ہدایات کی خلاف ورزی پر سرکاری ملازم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ میمورنڈم کے مطابق سرکاری ملازمین کو اکثر سوشل میڈیا پر بحث و مباحثہ کرتے دیکھا گیا ہے‘ ان ہدایات کا مقصد سوشل میڈیا کے مثبت استعمال پر پابندی لگانا نہیں‘ ادارے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے قابلِ اعتراض مواد ہٹانے کیلئے نگرانی کرتے رہیں۔ تمام سروسز گروپس کے سرکاری ملازمین ہدایات پر عملدرآمد کے پابند ہیں‘‘۔
اگرچہ جس نے سوشل میڈیا پر وقت گزارنا ہے اسے افسرانِ بالا کی جازت حاصل کرنا بھی کوئی مشکل نہیں‘ پھر بھی یہ درست سمت کی طرف پہلا قدم ہے۔ یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا بلکہ 2021ء میں فواد چودھری صاحب کے زمانے میں ایسی ہی ایک خبر آئی تھی۔ اس آفس میمورنڈم کا کیا بنا اور اس کے ہوتے ہوئے اس نئے میمو کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ وہی لوگ بتا سکتے ہیں۔ ایسے میمو بہت احتیاط سے بنائے جاتے ہیں تاکہ خانہ پری بھی ہو جائے‘ نام بھی بن جائے اور درحقیقت استعمال کے راستے کھلے رہیں۔ چنانچہ ماضی میں یہ سب پابندیاں عملاً بے کار ہو چکی ہیں‘ اس کے باوجود اس میمو کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ یہ معاشی گرداب میں پھنسے ہوئے ملک کی ضرورت ہے۔
آپ کسی بھی دفتر میں چلے جائیں‘ وفاقی حکومت کا ہو یا صوبائی حکومت کا‘ اگر متعلقہ عملہ یا ان کا افسر اپنی سیٹ پر اتفاق سے موجود ہو تو یا کرکٹ میچ دیکھ رہا ہوگا یا سیاسی معاملات پر زور و شور سے بحث چل رہی ہو گی۔ ایسے میں کسی کام کیلئے آنے والے کی مداخلت انہیں سخت ناگوار گزرتی ہے۔ کوئی جائز کام تو ویسے بھی پہیوں کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ کجا یہ کہ وہ کرکٹ میچ یا ذاتی مصروفیت کے بیچ میں آجائے۔ آپ اس عملے کی شکایت لے کر جس افسر کے پاس جائیں گے اس کے دفتر میں بھی کرکٹ میچ اور دوستو ں کی منڈلی کا منظر سجا ہوا ہوگا۔ یہ عملہ اور افسر بہت کرم کریں گے تو کہہ دیں گے کہ آپ بعد میں کبھی آئیے گا‘ اس وقت ہم بہت ضروری کاموں میں مصروف ہیں ۔
میرا تعلق قلم کار برادری سے ہے‘ اصولاً اس برادری کے سرکاری ملازمین کو دفتری ذمہ داریوں کیلئے زیادہ حساس اور زیادہ باشعور ہونا چاہیے۔ لیکن حال کیا ہے؟ یہ افسر اگر بدقسمتی سے شاعر یا شاعرہ ہے تو اس کی ساری دوڑ دھوپ مشاعرے پکڑنے‘ کانفرنسز میں خود کو ہر قیمت پر مدعو کروانے‘ ان کے منتظمین سے تعلقات بنانے‘ مشاعروں‘ میلوں کا سفر کرنے کیلئے ہوتی ہے۔ اگر پھر بھی وقت بچ جائے تو سرکاری اعزازات کی فہرست میں اپنا نام شامل کرانا‘ اہم عہدوں پر موجود دوستوں سے سفارشیں کرنا‘ ان کے جوابی کام کرنا وغیرہ بھی نہایت اہم مصروفیات ہیں۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ زندگی کی ساری دیگر مصروفیات میں وہ اپنے دفتر میں کب بیٹھتے ہیں اور جس کا م کی ماہانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں‘ وہ کب انجام دیتے ہوں گے۔ اگر لکھنے والا یا والی نثر نگار ہے اور شاعری میں قدم رکھنا دشوار ہے تو وہ سرکاری دفتر میں بیٹھ کر دلجمعی سے سیاسی‘ مذہبی‘ اخلاقی کالم نگاری کیا کرتے ہیں اور قوم کو وہ وہ نصیحتیں کرتے ہیں‘ اخلاقیات پر وہ وہ درس دیتے ہیں کہ توبہ توبہ۔ انہیں کون آئینہ دکھائے کہ حضور! سرکاری قواعد و ضوابط کے مطابق نہ آپ کسی اور جگہ ملازمت کر سکتے ہیں‘ نہ سیاسی وابستگی ظاہر کر سکتے ہیں اور نہ سیاسی کالم لکھ سکتے ہیں۔ لیکن ذرا اپنے گرد و پیش میں نظر دوڑائیے۔ کتنے حاضر سروس ملازمین اور افسران‘ جن میں مرد عورت کی تخصیص بھی نہیں ہے‘ دھڑلے سے یہ کام کر رہے ہیں۔ انہیں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ سرگرمیاں جو ایک عام آدمی کو بھی نظر آرہی ہیں‘ ان کے سپروائزر کو کیوں نظر نہیں آرہیں۔ ان کی سالانہ رپورٹس میں اس کا اثر کیوں ظاہر نہیں ہورہا‘ کیونکہ اگر ہوتا تو ان سرگرمیوں میں کمی آچکی ہوتی۔ باقی رہی ان کی نالائقی اور نااہلی‘ میں بہت سے لوگوں سے واقف ہوں کہ ان میں سے اکثر اپنے اپنے شعبوں میں حد درجہ نالائق اور نااہل ثابت ہوئے ہیں۔
کتنی مرتبہ کہا جائے کہ سرکاری ملازم ہو یا نجی‘ کسی بھی بہانے سے وقت ضائع کرنا‘ کھانے کیلئے حتیٰ کہ نمازوں کیلئے ضرورت سے زیادہ وقت لگانا قطعاً حرام ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ کرکٹ میچوں‘ مشاعروں‘ فیس بک وغیرہ پر ان کی مشغولیت کیا حیثیت رکھتی ہے۔ بڑی بین الاقوامی کمپنیاں جن میں ملازمین کی تعداد بہت زیادہ ہے‘ اس کی روک تھام کر چکی ہیں۔ پاکستان میں بھی مختلف سرکاری محکموں‘ تعلیمی اداروں اور کمپنیوں میں مختلف پابندیاں عائد ہیں۔ پوری تنخواہ‘ پوری مراعات اور سہولتیں حاصل کرکے بھی یہ ملازمین اپنے اپنے اداروں کو اپنا آدھا وقت بھی نہیں دیتے۔ ان میں سے ایک ایک آدمی اپنی تنخواہ‘ رہائش‘ آسائش‘ مراعات اور دیگر سہولتوں سمیت قوم کو لاکھوں روپے ماہانہ میں پڑتا ہے۔ اور یہ سب پیسے میری اور دیگر لوگوں کی جیبوں سے وصول کیے جاتے ہیں۔ ایک غریب قوم کے ساتھ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ کیوں ایسا نہیں کیا جا سکتا کہ ہر سرکاری دفتر میں دفتری انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا ایپلی کیشنز بلاک کی جائیں‘ اور ذاتی موبائل پر بھی چیک رکھا جائے۔ اگر کام ذمہ داری سے کیا جائے تو اصولاً اتنا وقت مل ہی نہیں سکتا کہ گھنٹوں فیس بک‘ ایکس اور انسٹاگرام پر وقت گزارا جائے۔ کام چیک کیا جائے اور مکمل نہ ہونے پر جرمانے کیے جائیں۔ اور اگر حکومت یہ نہیں کر سکتی تو پھر سارے سرکاری دفتروں کا انتظام نجی شعبوں کو دے دینا چاہیے۔ وہ اس کی روک تھام بہتر کرسکیں گے۔
اس سے انکار نہیں کہ اچھے افسران ہر شعبے میں موجود ہیں جو اپنے قواعد و ضوابط کی پیروی بھی کرتے ہیں اور ذمہ داری کا احساس بھی۔ انہیں بھرپور داد دینی چاہیے لیکن اب ان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے‘ سرکاری تنخواہ اور عہدے پر رہتے ہوئے خود نمائی کی وبا نے ایسے گھیرا ہوا ہے کہ جو اس میں مبتلا نہیں ہے وہ گویا اس شعبے کیلئے موزوں ہی نہیں ہے۔
یہ سوال تو حقیقی ہے کہ سوشل میڈیا عام زندگیوں میں اتنا سرایت کر چکا ہے کہ کسی کا بچ رہنا ممکن نہیں۔ سرکاری ملازمین کو بھی اپنی زندگی جینے اور اپنی ترجیحات کا حق ہے لیکن جواب بہت سیدھا سا ہے۔ اگر کسی نے کوئی ادارہ بطور پیشہ اور بطور روزگار اختیار کیا ہوا ہے اور اس کی تنخواہ اور مراعات پر اپنا حق سمجھتا ہے توہ وہ ادارے کا حق بھی ادا کرے۔ وہ معین کردہ وقت اور نظم و ضبط کا پابند ہے اور یہ پابندی اس نے اپنے اختیار سے اپنے اوپر لگائی ہے۔ وہ لوگوں کی خدمت پر مامور ہے‘ بالخصوص جب اس کی تنخواہ اور سہولتیں عوام کی جیبوں سے ادا ہوتی ہوں۔ اور اگر اسے یہ سب کچھ قبول نہیں تو استعفیٰ دے‘ باہر آئے اور شوق سے اپنے شوق پورے کرے۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ لوگوں کی جیبوں پر ڈاکا بھی ڈالے اور انہی لوگوں کو اخلاقی درس بھی دیتا رہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں