چند سال کے بعد پھر اُس زمردی دریا سے کچھ دن کی ملاقات رہی جسے ہم دریائے سوات کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہماری طلسمی کہانیوں میں ایک پہاڑ ہے جسے کوہِ ندا کہتے ہیں۔ داستانوں میں پریوں کا مسکن یہ پہاڑ اپنی طرف پکارتا ہے اور لوگ حیرت‘ خوف اور تجسس کے مارے کھنچے چلے جاتے ہیں۔ ویسے تو سیلانی کیلئے ہر پہاڑ‘ ہر وادی‘ ہر صحرا اور ہر دریا ہی آواز دے کر اپنی طرف بلانے والا ہوتا ہے لیکن کچھ رنگ‘ کچھ خوبصورتیاں اور کچھ منظر تو آنکھوں میں ڈیرے ہی ڈال لیتے ہیں۔ دریائے سوات ایسا ہی ڈیرے ڈال لینے والا دریا ہے۔ ٹھنڈا‘ میٹھا‘ زمردی دریا۔ ہر دو معنوں میں زمردی۔ اپنے ہلکے‘ گہرے سبز‘ شفاف پانیوں کی وجہ سے بھی اور اپنے کناروں کے ان پہاڑوں کی وجہ سے بھی جو گہرے سبز‘ شفاف اور قیمتی زمرد کی کانیں اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں۔
14 ستمبر 2024ء کو کرنل شیر خان انٹر چینج پر جب پشاور موٹر وے ایم وَن سے ہماری گاڑی سوات موٹر وے ایم 16 پر اُتری تو میں زمردی دریا اور حسین وادی سے اپنی پہلی ملاقات یاد کر رہا تھا جو کمسنی کے دور میں لگ بھگ 45 سال پہلے ہوئی تھی۔ اب لاہور سے مینگورہ تک کا جو سفر تقریباً ساڑھے چھ گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے‘ اُس وقت کتنا مشکل تھا۔ لاہور سے پہلے ٹرین میں پشاور‘ پھر پشاور سے سرکاری یا نجی بسوں میں مینگورہ۔ یہ بسیں بھی بہت کم چلتی تھیں‘ دن بھر میں شایدتین یا چار۔ اور یہ بسیں کیا تھیں‘ چلتا پھرتا قید خانہ۔ تنگ کھڑکیاں‘ جن میں سلاخیں لگی ہوا کرتی تھیں۔ بس کے اندر آلوؤں کی بوریاں بھی سفر کرتی تھیں لیکن نشستوں کی حق دارنہیں تھیں۔ مسافر اور مرغیاں ساتھ ساتھ سفر کرتے اور ساتھ ساتھ کُڑکُڑاتے تھے۔ لاہور سے مینگورہ تک لگ بھگ ڈیڑھ‘ دو دن کا سفر تھا اور منزل پر ہلکان ہوکر پہنچتے تھے۔ اس کی ایک وجہ اپنی گاڑیاں نہ ہونا بھی تھا۔ سوات میں اچھے ہوٹل نام کو بھی نہیں تھے۔ جن ہوٹلوں میں اب قدم رکھنے کو بھی جی نہ چاہے اُس وقت وہاں خوشی خوشی بسیرا کیا جاتا تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود جیسی خوشی اُس وقت میسر آتی تھی‘ وہ اب کسی دکان سے بھی نہیں مل سکتی۔
سوات موٹر وے حسین شاہراہ ہے۔ لاہور اسلام آباد اور اسلام آباد پشاور موٹر وے بھی حسین مناظر لیے ہوئے ہیں لیکن حسین وادیوں کے بیچ سفر میں سوات موٹر وے سب سے برتر ہے۔ امسال برسات کھل کر برسی اور ابھی ختم ہوئی ہے‘ چنانچہ پہاڑ سبز اور شاداب تر تھے۔ ہر وادی کو دیکھ کر جی چاہتا کہ ایک گوشے میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا ڈال کر بسیرا کر لیا جائے۔ موٹر وے پر اگر کوئی کمی ہے تو وہ ضروری سہولتوں کی ہے۔ ایک دو جگہ پٹرول اور دیگر سہولتیں موجود ہیں لیکن زیادہ کی ضرورت ہے۔ قیام و طعام کی جگہیں آباد نہیں‘ اس لیے راستے میں مسجد یا نماز کی جگہ بھی نظر نہیں آئی۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کی تمام موٹرویز پر‘ میرے علم کے مطابق‘ دوائیاں کہیں نہیں ملتیں۔ چنانچہ اگر کسی کو سخت ضرورت ہو تو وہ موٹر وے سے کسی آبادی میں اُترے‘ دوائیں لے اور دوبارہ موٹر وے کا سفر اختیار کرے۔ اسی طرح ڈاکٹر یا ڈسپنسری کی سہولت بھی ہونی چاہیے۔
چکدرہ پر ایم 16 یعنی سوات موٹر وے ختم ہوکر مینگورہ کے پرانے راستے سے‘ جسے بحرین روڈ کے نام سے جانا جاتا ہے‘ مل جاتی ہے۔ پہلے اس راستے پر ملاکنڈ سے ہوکر آتے تھے۔ یہ راستہ تو کم و بیش ویسا ہی ہے‘ لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ پہلے جہاں ٹھنڈی چھاؤں میں قہوے اور چائے کے ہوٹل تھے‘ اب دونوں طرف بڑی اور مہنگی گاڑیوں کے شو روم ہیں۔ یہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ہیں۔ ظاہر ہے یہ سوات سے باہر جاتی ہوں گی۔ تو کیسے؟ اور ایکسائز محکمے کی کیا روک تھام ہے؟ اگر حساب لگائیں تو جتنا وقت اسلام آباد سے چکدرہ پہنچنے میں لگتا ہے‘ کم و بیش اتنا ہی وقت چکدرہ سے مینگورہ پہنچنے کو چاہیے۔ راستہ تنگ ہے جسے ریڑھیوں اور دکانداروں نے تنگ تر کردیا ہے۔ ہر قسم کی ٹریفک اپنی سست روی کے ساتھ چلتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد اس راستے پر دریا سے ملاقات ہوئی۔ دریا کی پہلی جھلک تازہ کر دینے والی تھی۔ لہراتا‘ بل کھاتا دریا کبھی ساتھ چلتا اور کبھی اِٹھلا کر دور نکل جاتا۔ خدا خدا کرکے مینگورہ پہنچے لیکن ہمیں اس سے کچھ آگے فضا گھٹ جانا تھا‘ جہاں دریا اور سڑک تقریباً ایک سطح پر ہیں۔ وادیٔ سوات کے سب سے بڑے شہر مینگورہ کا چہرہ وہی ہے بس کچھ خد و خال بدل گئے ہیں۔ بڑی سڑکوں پر دکانوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور مکان کم ہو گئے ہیں یا ہوٹلوں میں بدل گئے ہیں۔ فضا گھٹ کا نام یہ کیوں ہے‘ علم نہیں لیکن اس پُر فضا مقام کا نام کچھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہاں دونوں طرف کے پہاڑ فاصلوں پر چلے جاتے ہیں۔ اشو‘ گبرال‘ اتروڑ‘ کالام‘ بحرین اور مدین کی تنگ وادیوں سے ہوکر آتا پُرشور‘ جھاگ اُڑاتا‘ بیقرار‘ مضطرب نیلگوں سبز دریائے سوات فضا گھٹ تک آتے پُرسکون ہونے لگتا ہے۔ یہاں دریا کا پاٹ چوڑا ہے۔ یہ کئی دھاروں میں بٹ کر بہتا ہے اور کھلی‘ ہری بھری وادی نظروں کو وہ سکون بخشتی ہے جس کی تلاش میں ہم یہاں پہنچے تھے۔ یہاں ایک طرف پہاڑی دیوار کے ساتھ ساتھ بنے ہوٹل ہیں اور سامنے دریا۔ اس طرح کہ بہت سی قیام گاہوں میں آپ اپنے کمرے میں بستر پر دراز ہوں تو دریا آپ کے ساتھ آکر دراز ہو جاتا ہے۔
فضا گھٹ میں بہت سی قیام اور طعام گاہیں بن چکی ہیں اور سہولت والے صاف ستھرے مسکن بھی۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہمارے پچھلے اور موجودہ سفر کے بیچ ایک جگہ‘ دریا کنارے چہل قدمی کا ایک خوبصورت راستہ یعنی ریور واک بنا دیا گیا ہے۔ یہاں سایہ دار درخت بھی لگائے گئے ہیں۔ اس خنک چھاؤں تلے خوبصورت بنچ بناکر اس جگہ کو حسین تر کر دیا گیا ہے۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ اس ریور واک کے ساتھ جو ایک کھلی خندق نما جھیل یا فی الحال جوہڑ ہے‘ وہ لالچی اور منفعت طلبوں کی نذر نہ ہو جائے۔ اگر یہاں کالام کی طرح زبردستی ہوٹل یا ریستوران بنادیے گئے تو یہ منظر ایک بند گلی کی طرح رہ جائے گا‘ اور کھلے منظر کی تلاش میں آنے والے سیاح اسے بھی کالام کی طرح خیر باد کہہ دیں گے۔ یہ صرف اندیشہ نہیں‘ بحرین کی طرف راستے میں مجھے کئی جگہ ایسی تعمیرات نظر آئیں جو بظاہر ہوٹل ہوں گے اور انہیں دریا کے راستے(ریور بیڈ) میں بنایا گیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ان تعمیرات کی اجازت کون دیتا ہے۔ پھر جب دریا غصے میں آتا ہے اور اپنی جائیداد کا قبضہ واپس لیتا ہے تو کروڑوں کی مالیت سے بنی عمارتیں اس غصے کے سامنے ٹھہر نہیں پاتیں۔ کیا کالام اور کیا بحرین۔ یہی ہر جگہ ہر سال ہوتا ہے۔
کہا نہیں تھا کہ دریا کے راستے مت روک
کہ سیلِ آب کو قبضے چھڑانے آتے ہیں
ہر سال بپھرے سیلاب اور گرتی عمارات کی وڈیوز وائرل ہوتی ہیں لیکن نہ قبضہ کرنے والوں کو ہوش آتا ہے‘ نہ اجازت دینے والوں کو۔ حالانکہ وہ دریا جو ان سب کو روزگار بخشتا ہے‘ انہیں وہ منظر دیتا ہے جس کیلئے یہاں ہوٹل بنائے جارہے ہیں‘ سب سے زیادہ احترام کا حق دار ہے۔ لیکن ان طالع آزماؤں نے احترام کرنا سیکھا ہی نہیں۔ آج کل انٹر نیٹ کے بغیر چند گھنٹے گزارنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ محض وقت گزاری نہیں بلکہ حقیقی ضرورت ہے۔ یہ دیکھ کر سخت افسوس ہوا کہ پورے سوات میں انٹر نیٹ بس نام کا ہے۔ ہوٹل کا اپنا انٹر نیٹ نہ ہونے کے برابر۔ اور ہر ہوٹل میں یہی حال۔ موبائل ڈیٹا استعمال کریں تو نہ ہونے کے برابر۔ سمجھ نہیں آتا کہ ضروری ای میلز‘ میٹنگز کس طرح کی جائیں۔ مجھے اپنا کالم اخبار کو بھیجنا تھا لیکن کسی طرح کوئی صورت نہیں بنتی تھی۔ خدا خدا کرکے یہ مرحلہ طے ہوا۔ سیاحت کے مرکز میں یہ حال ہے تو آپ چھوٹے شہروں اور دیہات کا حال خود سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے سوات میں یہ صورتحال نہیں تھی‘ گزشہ چند ماہ سے ہے۔ اس طرف فوری توجہ چاہیے۔(جاری)