یکم اکتوبر کی رات یہ خبر لے کر آئی کہ ایران نے اسرائیل پر میزائلوں سے حملہ کر دیا ہے۔ کچھ لوگ ان کی تعداد چار سو بتا رہے تھے‘ کچھ 180 کی تعداد متعین کرتے ہیں۔ یہ ایران کا اسرائیل پر دوسرا میزائل حملہ ہے۔اس سے پہلے اپریل میں ایران نے ایسا ہی ایک حملہ کیا تھا۔خبروں کے مطابق اپریل کے حملے میں 110 بیلسٹک میزائل اور 30 کروز میزائل داغے گئے تھے۔ اس لحاظ سے موجودہ حملہ نسبتاً بڑا ہے۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس حملے کے اہداف کیا تھے؟ اورکیا وہ ہدف حاصل ہوئے؟
اس حوالے سے تین پہلو ہیں۔ ایرانی‘ اسرائیلی مؤقف اور خبر رساں ذرائع کی اطلاعات۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے اس حملے کو اسماعیل ہنیہ‘ حسن نصر اللہ اور پاسداران کے کمانڈر عباس نیلفروشان کی شہادتوں کا جواب قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حکم پر یہ کارروائی کی گئی۔ اس میں پہلی بار ہائپر سونک میزائل بھی استعمال کیے گئے‘ ہیں اور تین اسرائیلی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کے مطابق 90 فیصد میزائل ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اسرائیلی فوج اور حکومت کا کہنا ہے کہ بیشتر میزائل ہوا ہی میں تباہ کر دیے گئے۔ اسرائیل نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ایرانی جارحیت تھی‘ جس کا مناسب وقت پر جواب دیا جائے گا۔ اردن نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ اردن کی فضائی حدود میں جو میزائل دیکھے گئے‘ انہیں اردنی فوج نے تباہ کر دیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس حملے سے ایک دن پہلے ہی ایرانی حملے سے خبردار کر دیا تھا اور اسرائیل اس کیلئے تیار تھا۔ اسرائیلی فضائی دفاعی نظا م کئی طرح کے ہیں‘ جن میں سے آئرن ڈوم کومؤثر سمجھا جاتاہے۔ آئرن ڈوم حماس اور حزب اللہ کے راکٹ حملوں سے حفاظت کیلئے بنایا گیا تھا لیکن ڈیوڈ سلنگ نامی امریکی اسرائیلی مشترکہ دفاعی نظام درمیانی اور لمبی رینج کے میزائلوں سے حفاظت کا ایک اور نظام ہے؛ چنانچہ بظاہر اردن سے بچ کر جو میزائل اسرائیل تک پہنچ سکے‘ ان میں سے اکثر فضا میں تباہ کر دیے گئے اور زمین تک نہیں پہنچ پائے۔ البتہ ان کے ٹکڑے زمین پر گرنے کی اطلاعات ہیں‘ جیسا کہ فلسطینی سول ڈیفنس اتھارٹی نے بتایا کہ ایک شخص ان ٹکڑوں کی زد میں آکر ہلاک ہوا۔ البتہ بی بی سی کے یروشلم نمائندے کے مطابق ممکن ہے کہ کچھ اسرائیلی چھائونیاں نشانہ بنی ہوں۔ نیز کچھ سکول اور ریسٹورنٹس بھی نشانہ بنے ہیں۔ تفصیلات تو آتی رہیں گی لیکن ایران اگر یہ سمجھتا ہے کہ اس کے میزائلوں نے 90 فیصد اہداف کو نشانہ بنایا تو اسے ان کی تفصیلات اور ثبوت دینے چاہئیں۔ یہ ثبوت اپریل کے حملے میں بھی نہیں دیے گئے تھے۔ گزشتہ ایک سال میں ایران کو کئی دفاعی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا‘ جن میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت‘ جو تہران میں ریاستی مہمان تھے‘ سب سے اہم ہے۔ اسرائیل نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ایک طرف اسماعیل ہنیہ جیسے بڑے مخالف کو شہید کیا اور دوسرا ایران کی کمزوری واضح کر دی۔ ان واقعات سے ایران پر جوابی کارروائی کا جو دبائو تھا اسے دیکھتے ہوئے کسی حملے کی کارروائی ناگزیر تھی لیکن کیا اس میزائل حملے سے ایران اپنی پوزیشن بحال کرنے میں کامیاب ہو گیا؟ میرے خیال میں اس حملے سے ایران وہ جواب نہیں دے سکا جس سے اسرائیل اس سے خوف زدہ ہوجائے۔ اس پورے سال میں ایران کی عسکری طاقت اور جاسوسی نظام کی کمزوریاں آشکار ہوتی رہی ہیں۔ یہ واضح ہوتا گیا کہ ایران بھرپور اور مؤثر جواب دینے کے قابل نہیں۔ موجودہ حملے‘ نیز اپریل کے حملے میں بھی خود ایران نے اس بات کا خیال رکھا کہ اسرائیل کا کوئی ایسا نقصان نہ ہو کہ اس کیلئے سخت جواب دینے کے سو ا کوئی چارہ نہ رہے۔ موجود ہ حملے میں بھی جو خبریں آ رہی ہیں اسی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ یہ کارروائی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر کی گئی۔ وقت بھی وہ چنا گیا جب لبنان میں حسن نصر اللہ سمیت کئی لوگوں کی شہادتوں اور اسرائیل کی کئی دن مسلسل فضائی بمباری کے بعد اسرائیلی فوج کے زمینی حملے کی اطلاعات گردش کر رہی تھیں۔ چنانچہ یہ ایران کی مجبوری تھی۔ اس کے حمایتی گروپ توقع کر رہے تھے کہ وہ ان کا ساتھ دے۔ ایران کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اسرائیل سے براہ راست جنگ چھیڑنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ اس لیے درجہ حرارت متوازن رکھنا اس کی ضرورت ہے۔ سخت عالمی پابندیوں کا شکار ایران ان مسلح گروہوں کے ذریعے ایک طویل عرصے سے اسرائیل کو زچ کیے ہوئے ہے۔ حزب اللہ سمیت یہ سبھی گروپ ایران کی مدد سے ہی چلتے ہیں‘ لہٰذا ایران کمزور ہوتا ہے تو یہ عسکری گروپ بھی کمزور ہوں گے۔ ایران کے دشمن یہ جانتے ہیں‘ چنانچہ وہ ایران پر مزید سخت پابندیاں لگا کر اس نظام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ایران کی یہ بات البتہ قابلِ تعریف ہے کہ اس نے مشکلات کے باوجود مزاحمت جاری رکھی ہے۔ ایرانی حملوں کے ساتھ اسرائیلی شہروں میں نامعلوم مسلح افراد کی طرف سے فائرنگ اور چاقو گھونپنے کی کارروائیوں میں 15 افراد کی ہلاکت اور 20 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جافا کے علاقے میں ایرانی میزائل حملوں سے کچھ پہلے فائرنگ ہوئی۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے فلسطینی نوجوان تھے‘ پولیس نے انہیں بعد ازاں شہید کر دیا۔ لیکن یہ واقعہ اسرائیل میں مسلسل خوف وہراس کی ایک اور مثال ہے۔
اکتوبر 2023ء میں حماس کی طرف سے وہ کارروائی کی گئی جس نے غزہ اور فلسطینی علاقوں سمیت تمام خطے میں ایک نئی جنگی صورتحال پیدا کر دی۔ حماس کی یہ کارروائی ان اسرائیلی مظالم اور انسانیت سوز مظالم کے خلاف تھی جو وہ دہائیوں سے کرتا آ رہا ہے۔ اب ایک سال ہو چلا ہے۔ اسرائیل اپنی پوری کوشش کے باوجود اور دنیا بھر کے احتجاج کو پس پشت ڈا ل کر نسل کشی کی تمام تر کوششوں کے باوجود‘ یہ جنگ جیت نہیں سکا۔ حماس اور حزب اللہ‘ نیز لبنان کے مقابلے میں اسرائیل اور اس کی اتحادی طاقتوں کی جو جنگی طاقت ہے اسے ایک دیو اور بچے کے مقابلے سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی مہیب قوتیں صہیونی ریاست کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اگر ان سب کے باوجود اسرائیل اب تک جنگ نہیں جیت سکا تو یہ اس کی شکست کے علاوہ اور کیا ہے؟ باوجویکہ اسرائیل نے اپنے جاسوسی‘ جنگی اور دفاعی نظام کی برتری ثابت کی ہے۔
دنیا ناانصافی‘ ظلم اور حقوق کی پامالی سے بھر چکی ہے۔ انسانی تاریخ میں تو اس سے بہت کم معاملات پر بھی بڑی لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ اب یہ جنگ مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس ایک سالہ جنگ میں اب تک غزہ‘ پھر لبنان‘ اور اب ایران بھی اس میں کود چکا ہے۔ یمن کے حوثی حملے اس کے علاوہ ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل ایرانی حملے کا کوئی سخت جواب دے گا؟ کیا اس جنگ میں شام اور عراق بھی شامل ہو جائیں گے؟ کیا فلسطینیوں کی نسل کشی میں عرب نسل کشی بھی شامل ہونے والی ہے؟ کیا خطے کے ممالک چار وناچار اس جنگ میں کودنے پر مجبور ہو جائیں گے؟ عرب ممالک جو اَب تک اس جنگ کے تماش بین ہیں‘ آئندہ بھی تماشا ہی دیکھتے رہیں گے؟ کیا افق پر ایک بڑی جنگ کے آثار ہیں؟ وہ جنگ جو اپنے مہلک ہتھیاروں اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے سبب سابقہ تمام جنگوں کو بھلا دے گی؟ لوگ اس کی پیش گوئیاں کر چکے اور دوبارہ کر رہے ہیں۔ اس سب سے بڑے سوال کا جواب وقت دینے والا ہے اور بہت جلد دینے والا ہے۔