"SSC" (space) message & send to 7575

سریندر کور: پنجاب کی کو ئل… (2)

پاک و ہند کی معروف گلوکارہ سریندر کور کی نواسی سنینی (Sunaini)کا پیغام دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔اُس نے مجھے وٹس ایپ پیغام میں کہا تھا کہ ہم فون پر مختصر بات کر سکتے ہیں۔ میں نے بے تابی سے فون ملایا‘ کچھ دیر گھنٹی بجتی رہی پھر کسی نے فون اٹھایا۔ یہ سنینی تھی۔ سنینی کی آواز سُن کر مجھے یوں لگا جیسے مدتوں بعد میں ایک بار پھر سے وہی آواز سُن رہا ہوں جس سے بچپن کے سنہری دنوں میں آشنا ہوا تھا اور جو اَب تک میرے تصور میں میرے ساتھ ہے۔سریندر کور کی آواز۔ وہی سریندر کور جسے دنیا پنجاب کی کوئل کے نام سے جانتی ہے۔ اور اس وقت میں اسی سریندر کور کی نواسی سنینی سے بات کر رہا تھا۔ سنینی بتا رہی تھی کہ آج کل وہ اپنی ماں ڈولی گلیریا کے پاس آئی ہوئی ہے۔ڈولی گلیریا سریندر کور کی تین بیٹیوں میں سب سے بڑی ہے۔ڈولی نے اپنی ماں سے گائیکی کا ہنر ورثے میں پایا ہے۔ ڈولی نے بڑی بیٹی ہونے کے ناتے اپنی ماں سریندر کور کے ساتھ سب سے زیادہ وقت گزارا ۔ ڈولی نے اپنی یادوں پر مبنی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس دلچسپ اور معلوماتی کتاب کا نام ''وگدے پانیاں دا سنگیت‘‘ (بہتے پانیوں کی موسیقی) ہے۔ سنینی نے بتایا کہ مجھے سریندر کور کی زندگی کے بارے میںبہت سی باتیں اس کتاب سے ملیں گی۔یہ کتاب پا کر مجھے سریندر کور کی زندگی میں جھانکنے کا ایک اور دریچہ مل گیا تھا۔کیسی کیسی قیمتی یادیں اس کتاب میں ملتی ہیں۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے ہم واپس اُن دنوں کو لوٹ جاتے ہیں جب لاہور میں سریندر کور نے اپنی بڑی بہن پرکاش کور کیساتھ اپنا پہلا گیت ''ماواں تے دھیاں‘‘ گایا تھا اور راتوں رات پنجاب کے گھروں میں اس گیت کے چرچے ہونے لگے تھے۔اس گیت کی کامیابی کے بعد سریندر نے گائیکی کو اپنا پروفیشن بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا۔
کہتے ہیں آپ کسی چیز کا ارادہ کریں تو اس کی تکمیل کے اسباب خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں۔ ادھر سریندر مستقبل میں موسیقی کے آسمان پر جگمگانے کے خواب دیکھ رہی تھی اور اُدھر قدرت گوجرانوالہ میں اُس کے خواب کی تعبیر کا سامان کر رہی تھی۔ اُس زمانے میں لاہور سے گوجرانوالہ کا سفر دو گھنٹے کا تھا۔ گوجرانوالہ کے ایک سکھ گھرانے کا ایک نوجوان جو گندر سنگھ سوڈی تھا جس نے ایک دن پروفیسرجوگندر سنگھ سوڈی بن کر سریندر کے خوابوں کو حقیقت میں بدلناتھا۔ قدرت انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آئی تھی۔دونوں گھرانوں کی رضامندی سے سریندر اور جوگندر کی منگنی ہو گئی۔ لیکن پھر 1947ء کا سال آگیا اور سب کچھ بدل گیا۔ ہندوؤں اور سکھوں کی کثیر تعداد ہندوستان چلی گئی۔ انہیں میں بشن داس کا خاندان بھی تھا۔ بشن دان اور مایا دیوی اپنی پانچ بیٹیوں اور دو بیٹو ں کے ہمراہ لاہور چھوڑ کر سرحد کے پار چلے گئے۔ اب انہیں زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا تھا۔ سریندر اور جوگندر سنگھ سوڈی اب شادی کے بندھن میں بندھ چکے تھے۔ جوگندر نے نفسیات کے مضمون میں ایم اے کیا تھا اور ایک کالج میں پڑھاتا تھا۔ اب اُس کے نام کے ساتھ پروفیسر کا اضافہ ہو گیا تھا۔ پروفیسر جوگندر کو اپنی بیوی سریندر کور سے عشق تھا‘ اسی کی خاطر اس نے ایم اے پنجابی کیا اور پنجابی کی بہترین شاعری سے آشنا ہوا۔ وہ سریندر کے گیتوں کیلئے کلام کا انتخاب خود کرتا تھا۔ یہ اس لیے بھی ممکن تھا کہ اُس وقت کے پنجابی شاعروں موہن سنگھ‘ شِوکمار بٹالوی‘ امرتا پریتم‘ اور نند لال نورپوری سے قریبی تعلقات تھے۔ شاعروں کے علاوہ اس وقت کے اہم موسیقار بھی پروفیسر جوگندر کی دوستی کے حلقے میں شامل تھے۔ پروفیسر جوگندر سریندر کے گیتوں کیلئے خود دھن بنواتا۔ یوں پروفیسر جوگندر سریندر کا شوہر ہی نہیں تھا بلکہ ایک دوست ‘ Mentor اور مداح بھی تھا جس نے سریندر کی گائیگی کو سنوارا اور نکھارا۔
لاہور سے ہجرت کے بعد سریندر کور اور پروفیسر جوگندر کچھ عرصہ بمبئی میں رہے جہاں سریندر نے ہندی/اُردو فلموں کیلئے گیت گائے لیکن پھر اس کا جی بمبئی سے اچاٹ ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ طبیعت کی ناسازی تھی ۔ یوں وہ بمبئی سے دہلی آگئے۔ اب سریندر نے پوری توجہ پنجابی گیتوں پر دینا شروع کر دی تھی۔ سریندر نے اس دوران دوہزار کے قریب گیت گائے ہوں گے۔ یہ سب گیت اپنی شاعری‘ موسیقی اور گائیکی کی وجہ سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ سریندر نے پنجابی گیتوں کے ساتھ ساتھ اُردو اور پنجابی غزلیں اُردو فلمی گیت اور کافیاں بھی گائیں لیکن اُس کی پہچان اُس کے پنجابی گیت بنے۔سریندر کے ساتھ ایک اور گلوکارآسا سنگھ مستانہ کی جوڑی بھی بہت مشہور ہوئی لیکن بہت سے گیت سریندر نے اپنی بہن پرکاش کور کے ہمراہ گائے۔ ایک بار تو تین بہنوں پرکاش کور‘ سریندر کور اور نریندر کور نے سٹیج پر اکٹھے مل کر گایا ۔ سریندر کی شہرت اب بلندیوں پر پہنچ گئی تھی۔ اب اس کو بیرونی ممالک سے دعوت نامے ملنا شروع ہو گئے تھے اور مصروفیت میں اضافہ ہو گیا تھا۔کینیڈا کے ایک دورے میں سریندر‘ اس کی بیٹی ڈولی گلیریا اور اس کی نواسی سنینی نے اکٹھے پرفارم کیا۔
زندگی اپنی راہ پر ہنسی خوشی چل رہی تھی‘تب سریندر کی زندگی میں اچانک ایک ایسا موڑ آیا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ پروفیسر جوگندر سنگھ 1974ء میں مختصر بیماری کے بعد انتقال کر گئے۔سر یندر کور کا شوہر‘ اُس کا دوست اور اس کاMentor اس سے جدا ہو گیا تھا۔سریندر کچھ عرصے کیلئے گائیکی سے کنارہ کش ہو گئی۔ ایک عرصے کے بعد جب اصرار کر کے اسے ایک تقریب میں پرفارمنس کیلئے بلایا گیاتو اُس نے شِوکمار بٹالوی کا گیت گایا جو اس کی دلی کیفیت کا عکاس تھا۔
''واسطہ ای میرا میرے دلاں دیا محرماں
پھلیاں کنیریاں گھر آ‘‘
(میرے دل کے محرم تجھے میرا واسطہ ہے کنیر کے پھول کھل اُٹھے ہیں اب گھر واپس لوٹ آ)
اس روز شِو کمار کی بے مثل شاعری اور سریندر کور کی پُرسوز آواز نیایک سماں باندھ دیا تھا پروفیسر جوگندر کی وفات کے بعد سریندر کی بڑی بیٹی ڈولی گلیریا نے اسے سہارا دیا۔ سریندر کی دو چھوٹی بیٹیاں امریکہ میں settleہو گئی تھیں۔ اُن اداس دنوں میں جب سریندر تنہا ہوتی تو اسے اپنے بچپن کے دن شدت سے یاد آتے تھے۔اسے تصور میں لاہور کا اپناگھر اپنے پاس بلاتا ‘ وہی گھر جہاںاس نے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ بچپن کے میٹھے مہکتے دن گزارے تھے۔ اُسے اپنے گھر کے ساتھ والی گلی یا د آتی جہاںحلوائی کی دکان تھی اور جہاں سے وہ ہر روز مٹھائی کھاتی تھی۔ کبھی کبھار اُس کا دل چاہتا تھا کہ اُڑ کر لاہورچلی جائے جہاں اس کے بچپن کی سنہری یادیں بانہیں پھیلائے اسے اپنی طرف بلا تی تھیں ۔ یہ موقع اسے 1999ء میں مل گیا جب وہ حکومتِ پاکستان کی دعوت پر پاکستان آئی اور اپنی گائیکی کا مظاہرہ کیا۔اس دورے میں سریندر نے خواہش ظاہر کی کہ وہ لاہور میں اپنا گھر دیکھنا چاہتی ہے۔وہ باون برس بعد یہاں آئی تھی۔ جوں جوں اس کا گھر قریب آ رہا تھا سریندر کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔ پھر وہ گلی آگئی جہاں وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ اور اب وہ اس گھر کے سامنے کھڑی تھی جو اُسے خوابوں میں اپنے پاس بلایا کرتا تھا۔ اُس کا اپنا گھرجہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔ اُس نے نظریں اٹھا کر اوپر دیکھا ۔ مکان کی پیشانی پر لکھا تھا ''مایا بھون‘‘۔ اُس کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا۔ مایا اس کی ماں کا نام تھا ۔ سریندر کے باپ نے کتنے پیار سے مکان کی پیشانی پر اپنی بیوی مایا کا نام لکھوایا تھا۔ ماں کو یاد کر کے سریندر کی آنکھیں چھلک اٹھیں۔اس نے سوچا وقت بھی کیسے دبے پاوں گزر جاتا ہے اور اپنے پیچھے بیتے دنوں کی سلگتی راکھ چھوڑ جاتا ہے۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں